ہوم << وقف قانون پر غدّاری کی کہانی - سمیع اللہ خان

وقف قانون پر غدّاری کی کہانی - سمیع اللہ خان

وقف بل پر نتیش کمار خوفزدہ تھا اور چندرا بابونائیڈو نتیش کمار کو دیکھ رہا تھا، پھر مودی سرکار کا کام کس نے آسان کیا ؟
نتیش کو مودی سرکار کی حمایت میں ووٹ تو کرنا ہی تھا، لیکن بہار میں اپنی سیاسی زندگی بھی محفوظ رکھنی تھی، آج ملت کی دو اہم اور مخلص شخصیات سے گفتگو ہوئی، ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ بہار اور جھارکھنڈ میں رائے عامہ پر اثر ڈالنے والا مسلمانوں کا سب سےمؤثر ادارہ، امارت شرعیہ ہی ہے۔ اور جب وزیراعلی نتیش کمار کی افطار پارٹی کے خط کے جواب میں بہار کے امیر شریعت فیصل رحمانی صاحب نے بائیکاٹ کا جواب لکھا تو یہ بہار جھارکھنڈ جیسی ریاستوں کے عوام پر جذباتی اثر مرتب کرنے لگا، یہاں کے عوام امارت شرعیہ سے بڑی وابستگی رکھتے ہیں۔ اس کےعلاوہ بہار میں وقف بل کے خلاف احتجاج کےدوران امیر شریعت فیصل رحمانی نے بہار سرکار کو جو وارننگ دی تھی اس کا بھی خاصا دباؤ تھا۔

افطار پارٹی کے بائیکاٹ کا فیصلہ واپس کروانے کے لیے امیر شریعت پر خوب دباؤ بنایا گیا لیکن اس بندے نے اپنے آباؤاجداد کی روشن تاریخ کی یاد تازہ کردی.
نتیش کمار کے وفادار مولویوں نے امیر شریعت کو دھمکایا تھا کہ اگر آپ بائیکاٹ کریں گے تو امارت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی، آپ کے ساتھ وہ کیا جائے گا کہ سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔
امیر شریعت فیصل رحمانی صاحب نے اپنے آباؤاجداد کی خوبصورت روایات کے مطابق یہ جواب دیا: سنیے مولانا ! ہم تو اسی دن ذلیل و رسوا ہوگئے تھے جب ہماری بہنوں اور بیٹیوں کے سروں سے ڈوپٹے اتارے جانے لگے، ہماری مسجدوں کو مسمار کیا جانے لگا، ہمارے اوقاف پر قبضہ کی کوشش کی جانے لگی. اب ہمارا ایمان اتنا بھی کمزور نہیں کہ ہم ظالم کو ظالم نا کہیں اور اس کی خوشنودی کے لیے اوقاف کا سودا کر لیں! جو ہوگا مرضی مولیٰ سے ہوگا، بائیکاٹ ہوگا اور ضرور ہوگا.

بس فیصل رحمانی صاحب کے اس موقف کی وجہ سے ہم آج ان کےساتھ کھڑے ہیں یہ ان کا عملی کردار ہے باقی سب لوگ جو اس شخص کی کردار کشی میں لگے ہوئے ہیں ان کا کردار و عمل ان کی زبان و بیان سب سے بدبو آتی ہے کیونکہ وہ صرف بہتان تراشی پر عمل پیرا ہیں، یہ واقعہ جب ہم نے سنا تو دل سے فوراً نکلا کہ، یقیناً ظلم کے خلاف ظالم حکومت اور منافقین کے خلاف یہ استقامت و پامردی اللہ کے ولی حضرت مونگیری کی اولاد میں نظر آسکتی ہے ۔ حضرت مولانا منت اللہ رحمانی کے پوتے اور مرحوم حضرت مولانا ولی رحمانی کا فرزند اپنے آباؤاجداد کی بےخوفی کی روایتیں آگے بڑھا رہا ہے ۔

جب دھمکیاں ناکام ہوگئیں تو پھر نتیش کمار کے وفاداروں اور ملت اسلامیہ کے غداروں نے امارت شرعیہ پر پولیس کی مدد سے حملہ کیا تاکہ موجودہ قیادت کو برطرف کیا جائے. ٹائمنگ ملحوظ رکھیے، جمہوری دنیا میں ہر واقعے اور واردات کی منشا اس کی ٹائمنگ پر منحصر ہوتی ہے۔ امارت شرعیہ پر پولیس لے جانے کا یہ واقعہ افطار پارٹی کے بائیکاٹ اور امیر شریعت کی جانب سے بہار سرکار کو وارننگ جاری کرنے کےبعد پیش آیا، اور رمضان المبارک میں ہی اس کارروائی کو انجام دیا گیا۔ اس کارروائی میں محتاط اندازے کے مطابق کم از کم 40 سے زائد پولیس فورس نے امارت شرعیہ بہار کے ہیڈکوارٹر کو گھیرے میں لے لیا، اب آپ اس پر غور کریں، کسی بھی جگہ اتنی بڑی تعداد میں پولیس فورس کبھی بھی وزیراعلی اور وزیر داخلہ کو اعتماد میں لیے بغیر جا ہی نہیں سکتی، اسے ریاست کی چھاپہ مار کارروائی کہہ سکتے ہیں آپ۔

اور سنیے اس کارروائی کو انجام دینے میں ان بےشرم مولویوں کے ساتھ آر ایس ایس کے قریبی خود شریک تھے، یہ بےشرم لوگ خواہ کتنی ہی تاویل کرلیں لیکن حقیقت پر پردہ نہیں ڈال سکتے ان کےساتھ جو لوگ امارت شرعیہ پر دھاوا بولنے گئے ان میں آر ایس ایس سے گٹھ جوڑ رکھنے والے لوگ بھی تھے، کون نہیں جانتا کہ بہار میں مسلمانوں کے ایمانی وجود کو کمزور کرنے اور ان کی ادارہ جاتی سماجی حیثیت کو خراب کرنے کے لیے آر ایس ایس کا دیرینہ خواب ہےکہ امارت شرعیہ کو یا تو بند کردیا جائے یا اس کے متوازی ادارے بنائے جائیں یا تو کٹھ پتلی مولویوں کو اس کا ذمہ دار بنایا جائے، چنانچہ آر ایس ایس لیڈر کے قریبی لوگ اس کارروائی کو تقویت پہنچانے کے لیے ان مولویوں کا ساتھ دینے کے لیے امارت شرعیہ پر پولیس دھاوے کے وقت موجود تھے، آگے اگر آپ سمجھدار ہیں تو سمجھ لیجیے۔

اتنی بڑی تعداد میں سرکاری مدد اور فورس کا تعاون امارت شرعیہ پر قبضہ کرنے کے لیے ان مولویوں کو کیسے مل گیا؟* اگر اس کےباوجود آپ نہیں سمجھے کہ وقف معاملے میں بہار سرکار پر قائم امارت شرعیہ کے اثر کو کمزور کرنے کے لیے کتنی بڑی غداری کی گئی تو پھر آپ آگے بھی ایسی ہی غداریوں کے ذریعے ڈسے جاتے رہیں گے، بہار اور جھارکھنڈ میں مسلمانوں کا رعب و دبدبہ امارت شرعیہ کے نام سے ہی جانا جاتا ہے یہ سورج کی طرح سچائی ہے۔ *امارت شرعیہ پر کوئی بھی سرکاری ایجنسی یا فورس چھاپہ نہیں مار سکتی تھی لیکن اس کی قیادت چند ضمیر فروش مولویوں نے کی جن کی وفاداریاں نتیش کےساتھ وابستہ ہیں لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ سرکاری مولوی پرسنل لاء بورڈ کے رکن بھی ہیں.

اب جب رمضان المبارک کے موقع پر بہار سرکار امارت شرعیہ پر دھاوا بولنے میں کامیاب ہوگئی تو نتیش کمار کی جان میں جان آئی اور اس واردات کے بعد ہی اس نے وقف بل پر مودی سرکار کی حمایت کا فیصلہ کیا ۔ میں پھر کہتا ہوں کہ نتیش کمار ویسے بھی وقف بل کی حمایت کرتا لیکن جب تک امارت شرعیہ کے ذریعے اس پر دباؤ بنا ہوا تھا تو اس پر دوطرفہ دباؤ تھا امارت شرعیہ نے جو پالیسی اختیار کی تھی اس کے نتیجے میں نتیش کمار کی پارٹی کے اندر سے بھی اور بہار کے مختلف مسلم و غیر مسلم اثردار حلقوں کی جانب سے بھی نتیش پر سخت دباؤ تھا لیکن جب یہ خبر آئی کہ امارت شرعیہ کے ہی مولویوں نے موجودہ امیر شریعت کے خلاف سرکشی کرکے تختہ پلٹ دیا ہے اور پولیس نے امارت شرعیہ کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے تو ایک جھٹکے میں امارت شرعیہ کا بنایا ہوا سارا پریشر ریلیز ہوگیا، پارٹی کے اندر بھی مخالفت کی آوازیں دب گئیں. اس کے بعد ذرا اطمینان سے نتیش کمار نے وقف بل پر مودی سرکار کو حمایت دی.

ہم لوگ اب الحمدللہ بہت اچھے سے ان معاملات کو جان چکے ہیں کہ کس طرح ظالم سرکاروں کو ضرورت کے وقت فائدہ پہنچایا جاتا ہے، یہ سارا ڈرامہ اسی قبیل سے تھا، امارت شرعیہ اور فیصل رحمانی کےخلاف شورش برپا کرکے غداروں نے نتیش کمار کی اخلاقی اور سماجی حوصلہ افزائی کی ۔
ساؤتھ انڈیا کے واقف کاروں کے مطابق اگر نتیش کمار وقف قانون پر مسلمانوں کی حمایت کرتا تو نائیڈو بھی اس بارے میں سوچتا لیکن جب نتیش مودی کے پالے میں چلاگیا تو نائیڈو بھی پیچھے نہیں رہا۔

اس طرح وقف قانون کے معاملے میں مسلمانوں کے ساتھ دشمنوں، منافقوں اور غداروں نے مل کر کھیل کھیلا، امارت شرعیہ پر قبضہ کرنے کے لیے تڑپنے والے بےضمیر مولویوں اور نتیش کمار کی عبادت کرنے والے جےڈی یو کے منافق مسلم سیاستدانوں نے مسلمانوں کو آزاد بھارت میں ایک اور دردناک زخم دیا ہے، ہر دفعہ اسی طرح ہوتا ہے کچھ غدار اور مخبر مسلمانوں کے خلاف سرکاروں کا ظالمانہ کام آسان کر دیتے ہیں اور وہی غدار اور مخبر قوم کے بھولے بھالے لوگوں کو تکنیکی وجوہات فراہم کرکے اور تاویلیں کر کر کے بیوقوف بناتے رہتے ہیں، تاکہ وہ اپنے آقاؤں کی خاطر غداری کی اگلی واردات انجام دے سکیں۔

اس پورے معاملے میں اس مسئلے سے کوئی بحث کسی بھی عقلمند یا کسی بھی باشعور شخص کو نہیں ہوسکتی کہ یہ مسئلہ فیصل رحمانی صاحب کی امارت کے خلاف تھا ؟ یہ صرف ایک بہانہ ہے تاکہ وہ اپنی غداری اور مخبری پر پردہ ڈال سکیں غداروں کے پیادے چند کوڑیوں کے عوض سوشل میڈیا پر اس بہانے کو اور فیصل رحمانی صاحب کے خلاف الزامات کو پھیلا رہے ہیں جبکہ اصل غدار اب دولت کے دریا میں غوطے لگائیں گے �