جنگ کا نام سنتے ہی دل میں ایک نفرت آمیز سرگرمی کا خیال آتا ہے ۔ بلا شبہ جنگ ایک قابل نفرت عمل ہے۔ دنیا کے اکثر لوگ اس کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن ایک تعداد ایسی بھی ہے جو جنگ سے عشق کی حد تک محبت کرتی ہے، کہ ان کی پیدائش بارود کی خوشبو اور توپوں کی گھن گرج میں ہوئی ہوتی ہے. ان کا بچپن گھر سے زیادہ پہاڑوں میں بنے ہوئے مورچوں میں گزرا ہوتا ہے۔ انھوں نے کلاشنکوف، راکٹ لانچرز اور بموں کو کھلونوں کے طور پر استعمال کیا ہوتا ہے۔ غرض ان کی زندگی کا طویل عرصہ اس میں گزرا ہوتا ہے۔
جنگ کوانھوں نے خوشی اور رضا و رغبت سے نہیں اپنایا بلکہ مجبور ہو کر اس میں مہارت حاصل کرتے ہیں، کیونکہ عالمی استعمار نے ان کےلیے نارمل زندگی کو ناممکن بنا دیا ہے۔ ان کے جینے اور زندہ رہنے کا واحد راستہ جنگ ہی رہ گیا ہے، صرف جنگ۔ اس جنگ میں ان کی بقاء کا راز پوشیدہ ہے۔ یہ جنگ ان کی آبرو و عزت کی محافظ ہے، ان کا پسندیدہ کھیل اور مرغوب مشغلہ ہے، اس لیے اب وہ پوری دلچسپی اور مکمل شوق سے جنگ میں حصہ لیتے رہتے ہیں ۔ یہ جنگ ان کے زخمی دلوں کےلیے مرہم پٹی ہے جو اپنے پیاروں کے قتل و شہادت اور ابدی جدائی پر مجروح ہوئے ہیں ۔
بچپن میں ہم ایسے لوگوں کی واقعات اور کہانیاں سنتے کہ فلسطین میں ایک جوان لڑکی نے بارود سے بھری موٹر کار اسرائیلی فوج کی چوکی سے ٹکرا دی، متعدد فوجی ہلاک کیے اور خود شہادت کے اعلی مقام پر فائز ہوئی۔ کشمیر میں ایک مجاہد نے انڈین آرمی کے کیمپ میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کی، جس میں دس بارہ فوجیوں کو جہنم واصل کیا، آخر میں خود بھی جام شہادت نوش کیا۔ چیچن مجاہدین نے روسی فوج کے ساتھ ایک جھڑپ میں دو روسی ٹینک اور دس فوجی ہلاک کیے، پانچ مجاہد بھی شہید ہوئے۔
جب ہم ایسی خبریں سنتے تو ہمارے بزرگ شہداء کےلیے دعا کرتے اور فوجیوں کی ہلاکت پر خوشی کا اظہار کرتے۔ اس وقت میں سوچتا کہ لوگ کیوں ایک دوسرے کو قتل کرتے ہیں؟ یہ مجاہد، حریت پسند اور جنگجو کیوں منظم اور طاقتور فوجوں کے مقابلے میں لڑتے ہیں؟ کیا انھیں جنگ پسند ہے ؟ وہ موت سے محبت کرتے ہیں یا زندگی سے مایوس ہوئے ہیں ؟ ایسے کئی سوالات میرے ذہن میں جنم لیتے اور میں اپنی محدود فکرونظر سے ان سوالات کے جوابات اور حقیقت تلاش کرنے کی کوشش کرتا۔
یہ پوشیدہ راز اس وقت آشکارا ہوا جب سویت یونین نے افغانستان پر یلغار کی۔ ہزاروں بوڑھوں، بچوں اور خواتین کو بے دردی سے شہید کیا۔ لاکھوں لوگوں نے اپنے بچاؤ کےلیے گھربار چھوڑ کر پاکستان ہجرت کی اور قبائل کی آغوش میں پناہ لیا۔ مہاجر کیمپوں میں خیمے لگائے۔ دن بھر امداد کے حصول کےلیے قطاروں میں کھڑے رہتے، بے عزتی اور تھکاوٹ برداشت کرتے. یہ لوگ سارے غریب، کمزور اور مزدور نہیں تھے۔ ان میں بڑے سرمایہ دار، عزت مند اور خاندانی لوگ بھی تھے، ان کے مکانات، کاروبار، باغات اور زرخیز زمینیں ویسے ہی رہ گئے تھے، اور وہ زندگی بچانے کے لیے خالی ہاتھ وہاں سے نکلے تھے۔ دوران سفر کئی بزرگ، خواتین اور بچے راستے کی مشکلات کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے تھے۔ اپنے پیاروں کے ہجراور وطن چھوڑنے کی فکر کے ساتھ وہ ایک اجنبی دیس کے صحرا میں لگائے گئے ٹینٹ میں وہ کس طرح شب و روز گزارتے؟ ان کے بچے اپنے بڑوں کے چہروں پر غم و افسردگی کے آثار پڑھ کر کس طرح کھیلتے؟ وہ تو ہمیشہ سوال بہ زبان تھے کہ ہمیں کس نے اپنے گھروں سے نکالا؟ کیوں نکالا؟ ہمارے اوپر بم کیوں گرائے گئے؟ ہمارے ساتھی اور پیارے کیوں ایسے بے دردی سے قتل کیے گئے؟ ان دگرگوں حالات نے ان لوگوں کو جفاکش اور جنگجو بنایا۔ ان میں دشمن سے مقابلے کا حوصلہ پیدا کیا۔ ان کے بچے حریت پسند بن گئے۔
تب مجھے اس سوال کا جواب اور حقیقت معلوم ہوئی کہ لوگ جنگ سے محبت کیوں کرتے ہیں؟ وہ حریت پسند اور شدت پسند کیوں اور کیسے بنتے ہیں؟ اب بھی بعض تجربہ کار اور پیشہ ور صحافی اور سیاستدان سوال کرتے ہیں کہ یہ لوگ کیوں لڑتے ہیں؟ کیا ان کو پتہ نہیں کہ جب لوگ اپنے گھروں سے نکالے جائیں، ان کے مکانات مسمار اور باغات و کاروبار تباہ کیے جائیں، ان کے بچے ڈرون حملوں اور بمباریوں میں بے دردی سے شہید کیے جائیں، تو پھر لوگ یہ راستہ اختیار کرتے ہیں ۔ وہ اپنے حق کے لیے جنگ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ پھر وہ اتنے بہادر بن جاتے ہیں کہ سوویت یونین اور امریکہ جیسی طاقتور سپرپاور ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے. ان کا نشیمن شاہین کی طرح بلندوبالا پہاڑوں کے چٹانوں میں ہوتاہے۔ دنیا کے بڑے فوجی اور انٹیلی جنس ادارے ان کے سادگی و ہیبت سے لرزتے ہیں۔ ماہرین، دانشور اور تھنک ٹینکس ان کو دنیا کے رنگینیوں سے بے خبر ، جدیدیت کے اصولوں سے منحرف اور جنگلوں میں رہنے والے جانوروں کی طرح جاہل و بے قوف سمجھتے ہیں۔دنیا ان کو کچھ بھی کہے، لیکن یہ قابل قدر اور مخلص لوگ ہیں جنھیں اپنی آزادی سے محبت ہے۔
تبصرہ لکھیے