ہوم << فرقہ واریت کا خاتمہ: ایک مدلل تجزیہ - عمر فاروق

فرقہ واریت کا خاتمہ: ایک مدلل تجزیہ - عمر فاروق

فرقہ واریت امت مسلمہ کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے جو اتحاد اور بھائی چارے کو نقصان پہنچاتی ہے۔ یہ مسئلہ صدیوں سے موجود ہے اور مسلمانوں کو فکری، سیاسی اور سماجی لحاظ سے تقسیم کرچکا ہے۔ لیکن اگر ہم قرآن و سنت کی روشنی میں اس کا جائزہ لیں تو اس کا خاتمہ ممکن ہے۔ اس تحریر میں فرقہ واریت کے اسباب، اس کے نقصانات اور اس کے حل کے لیے مدلل طریقے سے روشنی ڈالی جائے گی۔

فرقہ واریت کے اسباب

1. دینی معاملات میں غلو اور انتہا پسندی: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ٱلَّذِينَ فَرَّقُوا۟ دِينَهُمْ وَكَانُوا۟ شِيَعًۭا كُلُّ حِزْبٍۢ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ" (الروم: 31-32) اس آیت میں واضح کیا گیا کہ دین میں تفرقہ ڈالنے والے مشرکوں کی مانند ہیں۔ غلو اور انتہا پسندی فرقہ واریت کا سبب بنتی ہے، جو امت کو تقسیم کرتی ہے۔

2. علم کی کمی اور جہالت: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"الْعُلَمَاءُ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ" (سنن ابی داؤد، حدیث: 3641) جب علم کا صحیح فہم نہ ہو اور لوگ اپنی مرضی سے دین کی تشریح کرنے لگیں تو اختلافات شدت اختیار کرلیتے ہیں، جو بعد میں فرقہ واریت کا روپ دھار لیتے ہیں۔

3. مفاد پرستی اور سیاسی مقاصد: تاریخ میں کئی بار ایسا ہوا ہے کہ سیاسی و ذاتی مفادات کے لیے فرقہ واریت کو ہوا دی گئی۔ اگر حکمران اور علما ذاتی فائدے کی بجائے دین کی اصل تعلیمات کو اپنائیں تو یہ مسئلہ کم ہوسکتا ہے۔

فرقہ واریت کے نقصانات

1. امت کا انتشار: قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا" (آل عمران: 103)
فرقہ واریت سے امت مسلمہ کمزور ہوتی ہے اور دشمنوں کو موقع ملتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو مزید تقسیم کریں۔

2. نفرت اور تشدد کا فروغ: جب لوگ ایک دوسرے کے خلاف بغض و عداوت رکھتے ہیں تو یہ اختلافات نفرت اور تشدد کو جنم دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں معاشرے میں بدامنی پھیلتی ہے۔

3. دین کی اصل تعلیمات سے دوری: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"میری امت کے بہتر (72) فرقے بن جائیں گے، اور صرف ایک فرقہ جنت میں جائے گا۔" (سنن ترمذی، حدیث: 2641)
یہ حدیث اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اصل دین کی پیروی چھوڑ کر اگر ہم فرقوں میں بٹ جائیں گے تو نقصان اٹھائیں گے۔

فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات

1. قرآن و سنت کو بنیاد بنانا: اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
"فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ" (النساء: 59) اگر تمام مسلمان کسی بھی مسئلے میں قرآن و سنت کو ہی حتمی معیار مان لیں تو فرقہ واریت ختم ہوسکتی ہے۔

2. علماء کا مثبت کردار: علما کو چاہیے کہ وہ امت کو جوڑنے کا کام کریں، نہ کہ فرقہ واریت کو ہوا دیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ" (فاطر: 28) جو واقعی عالم دین ہوگا، وہ امت میں اختلاف نہیں بلکہ اتحاد پیدا کرے گا۔

3. تکفیر سے اجتناب: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"جو کسی مسلمان کو کافر کہے، اگر وہ حقیقت میں ایسا نہیں تو کہنے والا خود کفر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔" (صحیح بخاری، حدیث: 6104)
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ کسی کو کافر یا گمراہ کہنے میں احتیاط برتنی چاہیے تاکہ فرقہ واریت کی آگ کو مزید نہ بھڑکایا جائے۔

4. تعلیم و تربیت کا فروغ: اگر بچوں کو ابتدائی تعلیم سے ہی یہ سکھایا جائے کہ تمام مسلمان ایک امت ہیں، تو فرقہ واریت خود بخود کم ہوسکتی ہے۔

5. میڈیا اور سوشل میڈیا پر ذمہ داری: سوشل میڈیا پر فرقہ وارانہ بیانات اور اشتعال انگیزی کو کنٹرول کرنا ضروری ہے تاکہ نفرت پھیلانے والوں کو روکا جا سکے۔

6. بین المسالک مکالمہ: مسالک کے درمیان مکالمے کے ذریعے غلط فہمیوں کو دور کیا جا سکتا ہے۔ ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے اور برداشت کرنے کی فضا پیدا کرنے سے امت کا اتحاد ممکن ہے۔

فرقہ واریت کا خاتمہ ممکن ہے اگر ہم قرآن و سنت کو اپنائیں، علم کو فروغ دیں، علما مثبت کردار ادا کریں، تکفیری سوچ سے بچیں اور امت کے اتحاد کو اپنی اولین ترجیح بنائیں۔ امت مسلمہ کو چاہیے کہ وہ اختلافات کو نظر انداز کر کے ایک دوسرے کو اپنائے اور اسلامی بھائی چارے کو فروغ دے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اتحاد و یگانگت عطا فرمائے اور فرقہ واریت سے محفوظ رکھے۔ آمین۔