ہوم << میرا احساس کمتری - ڈاکٹر حسیب احمد خان

میرا احساس کمتری - ڈاکٹر حسیب احمد خان

عالم دین نہ ہونا ہمیشہ میرے لیے احساس کمتری کا موجب رہا ہے. نوجوانی میں جب دینی کتب کا بے اختیار مطالعہ شروع کیا تو دل میں یہ شدید خواہش ابھری کہ عالم بنا جائے. اسی خواہش کی تکمیل کےلیے مختلف مدارس کے چکر لگائے علماء کی خدمت میں حاضری دی مگر

ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تا نہ بخشَد خدائے بخشندہ

جب بھی علماء کو دیکھا رشک کے ساتھ اور سچ پوچھیے تو کسی نہ کسی درجے میں حسد بھی محسوس ہوا کہ کاش میں بھی عالم ہوتا، کاش مجھے بھی مدارس کا متبرک ماحول ملا ہوتا، کاش میں بھی ان منور محافل میں ہوتا، کاش مجھے بھی اللہ والوں سے اکتساب کا موقع ملتا ، اور یقین جانیے اس احساس کے اظہار میں کبھی بخیلی سے کام نہیں لیا. شاید وقت و حالات یا شاید میری کم ہمتی و بے توفیقی نے مجھے اس مبارک صف میں شامل ہونے سے دور رکھا ، جانے انجانے کہیں مجھے علماء کی نقالی کا شوق ہوا شاید کہ کسی لاشعوری احساس نے شعور کے پردے پر خاموشی سے دستک دے کر اپنی تصویر بنادی ، ویسا ہی لباس ویسا ہی لبادہ، وہی انداز وہی چال ڈھال، ویسی ہی بود و باش، بولنے کا ویسا ہی انداز یا اس انداز کی نقالی مگر اندر کی سچائی تو یہ کہ

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

کتابوں کا بوجھ کاندھوں پہ لادے خود کو اس دھوکے میں رکھا کہ شاید میں بھی علماء کی کسی صف کا کوئی آخری بندا کہلا سکوں مگر سچائی تو کچھ یوں کہ

خرِ عیسٰی اگر بمکہ رود
چوں بیاید ہنوز خر باشد

پھر یہ خیال ہوا کہ چلو علماء کی صحبت اختیار کی جائے ان کی محافل میں بیٹھا جائے، اور اگر کبھی گستاخی کا موقع مل جائے تو دو ایک جملے بول کر خود کو اپنی ہی نگاہوں میں اپنے تئیں عالم محسوس کروایا جائے ، ہائے یہ خود فریبی ہائے یہ غم نارسائی۔

پھر نجانے کہاں سے سوشل میڈیا کی دنیا میں چلایا آیا، رومن سے ابتدا کی اور آہستہ آہستہ اردو تحریر سیکھی. مذہب تو موضوع تھا ہی لکھنا شروع کیا تو لوگ باگ یہ سمجھے کہ مولوی ہے. بہت خوشی ہوئی کہ چلو حقیقت میں نہ سہی اس مصنوعی دنیا میں تو مولوی بن گئے. ابھی کالر کھڑے ہی ہوئے تھے کہ کان کتر دیے گئے. ہوا یہ کہ کچھ مولویوں سے دوستی ہوگئی تو اپنی حقیقت ظاہر ہوئی. عقدہ یہ کشا ہوا کہ میاں مولوی اگر کوٹ پتلون میں بھی آجاوے تو تمہاری اس دکھاوے کی ہیئت پر اس کی گمشدہ علمیت بھاری ہے ، تو جب ادراک کے در وا ہوئے تو بار بار یہ اظہار کیا ، ہر جگہ کیا، ہر محفل میں کیا ، کہ میں مولوی نہیں ہوں، بلکہ " خدا کی قسم میں مولوی نہیں " کے نام سے تحریر لکھ کر اتمام حجت بھی کردیا کہ جناب مجھے مولوی نہ سمجھا جائے . ابھی اس مخمصے سے نکلا ہی تھا کہ ایک نئے انکشاف نے اپنے در وا کیے اور وجدان نے سمجھایا کہ خود مولوی کا مولوی ہونا بھی آگے کا مقام ہے کہ

مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلام شمس تبریزی نہ شد

مجھے یاد ہے کہ ایم فل کے انٹرویو میں مجھ سے یہ پوچھا گیا ، دیکھو تمہارے ساتھ یہ سارے علماء ہیں، درس نظامی پڑھے ہوئے، عربی دان فصیح اللسان، ان کا مطالعہ حقیقی مطالعہ ہے، ان کے اساتذہ عظیم ہیں، ان کے پیچھے معتبر درسگاہیں ہیں، اور ان کے پاس مستند اسانید ہیں، کیا تم ان کے ساتھ چل پاؤ گے اور میری پیشانی پر عرق ندامت اور سر احساس کمتری سے جھکا ہوا کہ تو کجا من کجا۔

کبھی ایسا ہوا کہ اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی دانی کا مظاہرہ کیا اور کسی محترم ہم درس نے کہا کہ آپ کی انگریزی تو اچھی ہے، ہماری انگریزی کیسے اچھی ہو گی، اور میں دل ہی دل میں کہ اجی اس موئی فرنگن کی کیا اوقات، آپ کے پاس تو جنت کی عربی ہے اور میرا سینہ اس سے خالی۔
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي * وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي آمین ثم آمین

تو آج جب میں علماء کی زبان پر گلا دیکھتا ہوں، انھیں شکوہ کناں پاتا ہوں، تو سوچتا ہوں کہ شاید انھیں معلوم ہی نہیں کہ ان کے پاس کیا دولت ہے، یا شاید جب کسی کے پاس دولت آجاوے تو اس کے دل سے اس کی قدر نکل جاتی ہے. اب یہ تو کوئی کسی فقیر سے پوچھے کہ جس کے دل سے ہمیشہ یہ دعا نکلتی ہو
فَقَالَ رَبِّ اِنِّىْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَىَّ مِنْ خَيْـرٍ فَقِيْرٌ اور علم دین سے بڑی خیر بھی کیا کوئی ہو سکتی ہے !

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر حسیب احمد خان

ڈاکٹر حسیب احمد خان ہمدرد یونیورسٹی کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ قرآن و سنت سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے الحاد، دہریت، مغربیت اور تجدد پسندی کے موضوعات پر لکھ رہے ہیں۔ شاعری کا شغف رکھتے ہیں، معروف شاعر اعجاز رحمانی مرحوم سے اصلاح لی ہے

Click here to post a comment