ہوم << سفرِ دانش: الکندی کی آپ بیتی - اخلاق احمد ساغر ایڈووکیٹ

سفرِ دانش: الکندی کی آپ بیتی - اخلاق احمد ساغر ایڈووکیٹ

نام: یعقوب بن اسحاق الکندی
پیدائش: 801ء، کوفہ، عباسی خلافت
وفات: 873ء، بغداد، عباسی خلافت
میدانِ علم: فلسفہ، ریاضی، طب، فلکیات، موسیقی، نفسیات، کیمیا

میں، یعقوب بن اسحاق الکندی، عباسی خلافت کے سنہری دور میں 801ء میں کوفہ میں پیدا ہوا۔ میرے والد اسحاق بن الصباح کندہ قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور کوفہ کے گورنر تھے۔ گھر کا علمی ماحول میرے لیے ابتدائی تعلیم کا سبب بنا۔ کوفہ اور بصرہ کے علمی مراکز میں نحو، منطق، فلسفہ اور طب کی بنیادی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد بغداد کا رخ کیا، جو اس وقت علم و حکمت کا مرکز تھا۔ یہاں میں نے دارالحکمت میں داخلہ لیا اور یونانی، فارسی اور سنسکرت علوم کا مطالعہ کیا۔

میری زندگی کا سب سے بڑا مقصد علومِ عقلیہ کو فروغ دینا اور قدیم یونانی فلسفے کو اسلامی نظریات سے ہم آہنگ کرنا تھا۔ میں نے ارسطو، افلاطون، جالینوس اور بقراط کی تصانیف کا مطالعہ کیا اور ان کے خیالات پر تنقیدی نظر ڈالی۔

مجھے "عربوں کا ارسطو" کہا جاتا ہے کیوں کہ میں نے یونانی فلسفے کو عرب دنیا میں متعارف کروایا۔ میں نے ثابت کیا کہ دین اور عقل میں کوئی تضاد نہیں بلکہ دونوں ایک دوسرے کے تکمیل کرتے ہیں۔

میں نے ریاضی اور فلکیات میں بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ میں نے ہندسہ (جیومیٹری) اور جبر پر کئی کتابیں لکھیں اور ریاضی کو فلسفیانہ استدلال کے لیے ضروری قرار دیا۔ میں نے سورج اور چاند کے گرد زمین کی حرکت پر بھی تحقیق کی۔
میں نے ادویات کے اجزاء اور ان کے اثرات پر کتابیں لکھیں۔ میں اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ جسمانی بیماریوں کا علاج عقلی اصولوں اور مشاہدے کی مدد سے ممکن ہے۔

میرا موسیقی پر بھی کام قابلِ ذکر ہے۔ میں نے موسیقی کے سُروں اور ان کے انسانی جذبات پر اثرات کا مطالعہ کیا اور اسے ریاضی سے جوڑنے کی کوشش کی۔

میری تصانیف کی تعداد 260 سے زائد ہے، جن میں سے چند مشہور کتابیں درج ذیل ہیں:
1. "الفلسفۃ الاولیٰ" : ارسطو کی فلسفیانہ تعلیمات پر مبنی
2. "رسالہ فی استعمال الہندسہ" : جیومیٹری پر تحقیق
3. "کتاب المدخل الیٰ ارستوطالیس" : ارسطو کے فلسفے کا تعارف
4. "رسالہ فی الطب" : طب کے اصولوں پر مقالہ
5. "کتاب فی الموسیقی" : موسیقی اور اس کے اثرات پر تحقیق

میرے نظریات بعض قدامت پسند علماء کو پسند نہ آئے اور میرے خلاف سازشیں کی گئیں۔ عباسی خلیفہ المتوکل کے دور میں میرے علمی کاموں پر پابندی لگا دی گئی اور مجھے علمی تنہائی میں دھکیل دیا گیا۔ مگر میں نے ہمت نہ ہاری اور آخری وقت تک تحقیق و تصنیف میں مصروف رہا۔ 873ء میں بغداد میں میری وفات ہوئی، مگر میرے نظریات صدیوں تک علم و تحقیق کی بنیاد بنتے رہے۔

میں ہمیشہ اس بات کا قائل رہا ہوں کہ علم کسی ایک قوم یا مذہب کی جاگیر نہیں بلکہ پوری انسانیت کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ میں نے کوشش کی کہ اسلامی دنیا میں عقل و دانش کی روشنی پھیلاؤں اور فلسفہ و سائنس کو ایک نئی جہت دوں۔ میری زندگی کا مشن یہی تھا کہ علم کے ذریعے دنیا کو بہتر بنایا جائے۔

"سچائی وہ روشنی ہے جو جہالت کے اندھیروں کو مٹا دیتی ہے، اور میں نے ہمیشہ اسی روشنی کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔"