پوڈ کاسٹ جو انٹریو کی ایک نئی شکل ہے، عوام و خواص میں مقبول ہوتی جا رہی ہے اور ہر بندہ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے پر تول رہا ہے۔ حال ہی میں ایک معروف صحافی نے علماء کرام کے ساتھ پوڈ کاسٹ کا نیا سلسلہ شروع کیا جو کم وقت میں ہی دور تک پھیل گیا اور ہزاروں لوگوں تک اس کی باز گشت سنائی دی، مذہبی طبقہ اس پہ اپنی فتوحات کے شادیانے بجاتے ہوئے خوشی سے نہال ہو رہا ہے، بندہ کے خیال میں اس کیفیت سے نکل کر اس سارے معاملے کو گہرائی سے دیکھنا چاہئے اور اس کی نزاکت کا بر وقت ادراک کرتے ہوئے تدارک کی جانب قدم بڑھانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ ذیل میں ہم چند امور کی جانب نشاندہی کرنے کی کوشش کریں گے۔
1۔ معروف صحافی بنیادی طور پر ایک سیاسی پس منظر رکھتے ہیں اور ملکی سیاسی حالات و واقعات پہ تبصرہ اور تجزیہ نگار کے طور پر معروف ہیں، علاوہ ازیں سیاسی وابستگی بھی رکھتے ہیں جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور نہ ان کا لب و لہجہ اور انداز کسی سے مخفی ہو سکتا ہے۔ اب ایک ایسا بندہ راتوں رات اٹھ کر علماء کرام کو سامنے بٹھائے جس کا مقصد دین کی تفہیم و تشریح نہ ہو بلکہ علماء کرام کو اور ان کے اسلاف کو عدالت کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کرنا ہو جو کہ اب تک کی تمام پوڈ کاسٹ سے ظاہر ہے، علماء کرام کو زیب دیتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے سامنے خود کو بلا چون و چرا پیش کر دیں اور اپنی مذہبی شناخت کی صفائیاں دینے لگیں ؟ کیا یہ علماء کی بے توقیری نہیں ہے ؟
2۔ موصوف کے تعارف و پس منظر سے واضح ہے کہ ان کا دینی موضوعات پہ گہرا مطالعہ و مہارت نہیں ہے اور نہ ہی مذہب کبھی ان کا اختصاصی مضمون رہا۔ پھر یہ سب آنا فانا کیسے ہو ممکن ہو سکتا ہے کہ موصوف نے مخلتف مسالک کی کتب کا اتنی گہرائی اور باریک بینی سے مطالعہ کر لیا اور اس کے اہل ہو گئے کہ عبارات پہ قد عن لگا سکیں۔ لازماً اس کے پیچھے کچھ تو ایسے عناصر ہیں جو پورا مواد فراہم کر کے تیاری کراتے ہیں اور موصوف ایک منصف بن کر اپنے مخصوص لب و لہجے میں اہل مذہب کو اپنے کٹہرے میں کھڑا کئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس پہ تو موصوف سے بھی تحقیق کرنی چاہیے کہ یہ سب راتوں رات کیسے ہو گیا؟ خود مطالعہ کیا تو کیسے ورنہ پس پردہ عناصر کی نشان دہی کریں۔
3۔ کیا یہ اعتراضات پہلی بار ہو رہے ہیں؟ علماء و محققین بارہا اپنی تحریر و تقریر میں ان سب کے مدلل جواب نہیں دے چکے ؟ ایسا کون سا اعتراض تھا کہ جس کا جواب پہلے نہ دیا گیا ہو اور وہ آج موصوف کے سامنے آیا ہو؟
4۔ یہ بات بھی اہل علم سے مخفی نہیں ہے کہ اس نوعیت کی مباحث کو سمجھنے کے لیے دینی علوم و فنون پہ کس قدر مہارت درکار ہے، ہر عام آدمی نہ ان مباحث کو سمجھنے کا مکلف ہے اور نہ ہی ان کو سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ کیا علماء کرام کو یہ فرق نہیں کرنا چاہیے کہ یہ مباحث کس فورم پہ کرنے کی ہیں اور کس کے سامنے کرنے کی ہیں؟
5۔ ان تمام مباحث کو از سر نو عوام کے سامنے لانے کا مقصد کیا ہوسکتا ہے سوائے اس کے نسل نو کے سامنے اس دینی ورثے کو مشکوک کر دیا جائے اور اسلاف سے اعتماد ختم کر کے ان کی شخصیت کو مجروح کر دیا جائے؟ اگر خدا نخواستہ یہی مقاصد پس پردہ ہوں تو ہم ہی اس کی ترویج میں بطور آلہ کار استعمال ہوں تو کس قدر بد نصیبی اور محرومی کی بات ہے۔
گزارش یہ ہے کہ فاتح و مفتوح کی گردان سے باہر آ کر سنجیدگی سے اس رخ سے بھی اس منظر کو دیکھیں، اگر مناظر تشویشناک معلوم ہوں تو اس سلسلے کی روک تھام کے لیے اور مذہبی طبقے کو اس جانب متوجہ کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اگر کوئی بات قابل اصلاح ہو تو اس کی نشان دہی میرے لئے باعث سعادت ہوگی۔
تبصرہ لکھیے