پاکستان کی سیاست کے سمندر میں شہباز شریف کا جہاز ہمیشہ سے طوفانوں کا مقابلہ کرتا آیا ہے۔ ایک طرف معیشت کی تباہ حال کشتی،دوسری طرف سیاست کے خونخوار شارک، اور اوپر سے عالمی دباؤ کے بادل۔ ایسے میں جب وہ 2022 میں کپتان کی کرسی پر بیٹھے، تو ملک کا ہر شہری یہی سوال پوچھ رہا تھا: "کیا یہ شخص ہمیں ڈوبنے سے بچا پائے گا؟"
ان کے ہاتھ میں پہلا چیلنج تھا آئی ایم ایف کا وہ خوفناک چیک بک، جس پر دستخط کرتے ہی مہنگائی نے عوام کا خون چوسنا شروع کر دیا۔ بجلی، گیس، پیٹرول کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔ عام آدمی کی چیخیں حکمرانوں کے کانوں تک نہ پہنچ سکیں۔ مگر شہباز صاحب نے چین اور سعودی عرب سے جو قرضے لے کر معیشت کو سنبھالا، وہ ایسے ہی تھا جیسے کسی ڈوبتے کو کچھ دیر کے لیے تیراکی کی ٹیوب تھما دی جائے۔
سیاست کے میدان میں تو ان کا ہر قدم بارود کے ڈھیر پر چلنے جیسا تھا۔ عمران خان کے خلاف چلائی گئی کارروائیوں نے ملک کو دو حصوں میں بانٹ دیا۔ ایک طرف "عمران خان کو انصاف دو" کے نعرے، دوسری طرف "ملک بچاؤ" کے دعوے۔ شہباز شریف کے لیے سب سے مشکل کام یہ تھا کہ اتحادی جماعتوں کو خوش رکھتے ہوئے ملک چلانا۔ جیسے کسی نے کہا تھا: "یہ ایسے ہی ہے جیسے دس بلیوں کو ایک ہی ٹوکری میں بند کر دیا جائے۔"
بین الاقوامی محاذ پر شہباز شریف نے امریکہ سے تعلقات کو نرم کرنے کی کوشش کی، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس دوران پاکستان کا سب سے بڑا دوست چین کبھی کبھی خاموشی سے ناراض بھی ہوا؟ سی پیک کے منصوبے سست روی کا شکار ہوئے، لیکن اسلام آباد میں کوئی اس پر بات کرنے کو تیار نہیں تھا۔
توانائی کے بحران نے تو پاکستان کو اندر سے کھوکھلا کر دیا تھا۔ شہباز شریف نے سولر انرجی پر توجہ دینے کی بات کی، مگر زمینی حقیت یہ ہے کہ آج بھی لاکھوں پاکستانی گھنٹوں لوڈ شیڈنگ کا شکار ہیں۔ ایران سے گیس پائپ لائن کا منصوبہ، جو پاکستان کو توانائی کے بحران سے نکال سکتا تھا، سفارتی مصلحتوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہباز شریف کی قیادت کو کیسے جانا جائے؟ کیا وہ واقعی ملک کو طوفانوں سے نکار پائے؟ سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے جہاز کو ڈوبنے سے تو بچا لیا، لیکن اسے کسی محفوظ بندرگاہ تک نہیں پہنچا سکے۔ ان کا دور ایک ایسے ڈاکٹر کی طرح رہا جو مریض کو فوری طور پر ڈیڈھیوٹس تو لگا دیتا ہے، لیکن اصل بیماری کا علاج نہیں کرتا۔
آج پاکستان کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، وہ ہے ٹیکس نظام کی اصلاح، غیر پیداواری اخراجات میں کمی، اور سب سے بڑھ کر تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان حقیقی مکالمہ۔ کیا شہباز شریف یا ان کے بعد آنے والا کوئی بھی لیڈر یہ تاریخی کام کر پائے گا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب آنے والا وقت ہی دے گا۔
لیکن ایک بات طے ہے - پاکستان کے عوام اب خالی نعروں، جھوٹے وعدوں اور دکھاوے کی سیاست سے بیزار ہو چکے ہیں۔ انہیں چاہیے روزگار، سستی بجلی، اور امن۔ اب یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمارے حکمران عوام کی اس پکار کو سنتے ہیں یا پھر اپنی پرانی روش پر چلتے رہتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے