میں اللہ کے حضور دعا کرتا ہوں کہ اس تحریر میں ، میں جو کچھ بھی لکھوں اس پر پورا انصاف کر سکوں آمین انسان ہوں خطا کار ہوں سیاہ کار ہوں اللہ کی رحمت ، فضل ، مغفرت کا متلاشی ہوں ۔ اس لئے کہ میں شافع محشر ، شفیع المذنبین ، امام المتقین والمرسلین والآخرین ، امام الانبیاء والصالحین ، رحمۃ للعالمین ، خاتم النبیین سیدنا ومولانا محمد ﷺ کی عزت و ناموس کے حق پر لکھنے جا رہا ہوں ۔ وہ شخصیت جس کے آنے سے تاریکیوں کی ہر قسم میں علم وحی کا نور جگمگانے لگا ، جہالتوں کی تمام انواع زیر ہوئیں ، اور انسانیت جو امن و آتشی کی متلاشی تھی ، اپنے حقوق و فرائض سے معدوم خالی معاشروں ، اقوام میں جی رہی تھی اس کو جینے کا سلیقہ اور ڈھنگ سیکھایا گیا ۔ رحیمی و کریمی ، ایثار و قربانی ، ادب و احترام کا ہر قرینہ پیغمبر امن رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں پیدا ہوتا چلا گیا اور پھر کائنات نے یہ منظر بھی دیکھا کہ سرزمین حجاز سے محمد رسول اللہ ﷺ کی ختم نبوت و ناموس رسالت ﷺ کا علم سپین تک جا پہنچا ۔ اور چودہ صدیاں بیت جانے کے بعد آج یہ امت پوری دنیا کے دو سو سے زائد ممالک میں تقریبا 2 ارب کی آبادی کے ساتھ اتباع سنت محمدی ﷺ کی زندگی گزارنے کی کوشش کر رہی ہے۔
یوں تو تاریخ شاھد ہے کہ قانون ناموس رسالت تب سے موجود ہے جب سے اللہ کا قرآن اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان موجود ہے یعنی اس کا اطلاق رسول اللہ ﷺ کے دور میں ہی سب سے پہلے ہوا تھا ۔
عن ابن عباس: ان اعمى كان على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وكانت له ام ولد، وكان له منها ابنان، وكانت تكثر الوقيعة برسول الله صلى الله عليه وسلم , وتسبه فيزجرها، فلا تنزجر، وينهاها فلا تنتهي، فلما كان ذات ليلة ذكرت النبي صلى الله عليه وسلم , فوقعت فيه فلم اصبر، ان قمت إلى المغول فوضعته في بطنها، فاتكات عليه فقتلتها , فاصبحت قتيلا , فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فجمع الناس، وقال:" انشد الله رجلا لي عليه حق , فعل ما فعل إلا قام"، فاقبل الاعمى يتدلدل، فقال: يا رسول الله، انا صاحبها , كانت ام ولدي، وكانت بي لطيفة رفيقة , ولي منها ابنان مثل اللؤلؤتين , ولكنها كانت تكثر الوقيعة فيك وتشتمك، فانهاها فلا تنتهي وازجرها فلا تنزجر , فلما كانت البارحة ذكرتك , فوقعت فيك , فقمت إلى المغول فوضعته في بطنها , فاتكات عليها حتى قتلتها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الا اشهدوا، ان دمها هدر".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک نابینا آدمی تھا، اس کی ایک ام ولد (لونڈی) تھی، اس سے اس کے دو بیٹے تھے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت برا بھلا کہتی تھی، وہ اسے ڈانٹتا تھا مگر وہ مانتی نہیں تھی، وہ اسے روکتا تھا مگر وہ باز نہ آتی تھی (نابینا کا بیان ہے) ایک رات کی بات ہے میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا تو اس نے آپ کو برا بھلا کہا، مجھ سے رہا نہ گیا، میں نے خنجر لیا اور اس کے پیٹ پر رکھ کر اسے زور سے دبایا اور اسے مار ڈالا، وہ مر گئی، اس کا تذکرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا: ”میں قسم دیتا ہوں اس کو جس پر میرا حق ہے! جس نے یہ کیا ہے وہ اٹھ کھڑا ہو“، تو وہ نابینا گرتا پڑتا آیا اور بولا: اللہ کے رسول! یہ میرا کام ہے، وہ میری ام ولد (لونڈی) تھی، وہ مجھ پر مہربان اور رفیق تھی، میرے اس سے موتیوں جیسے دو بیٹے ہیں، لیکن وہ آپ کو اکثر برا بھلا کہتی تھی اور آپ کو گالیاں دیتی تھی، میں اسے روکتا تھا تو وہ باز نہیں آتی تھی، میں اسے ڈانٹتا تھا تو وہ اثر نہ لیتی تھی، کل رات کی بات ہے میں نے آپ کا تذکرہ کیا تو اس نے آپ کو برا بھلا کہا، میں نے خنجر لیا اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر زور سے دبایا یہاں تک کہ وہ مر گئی، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنو! تم لوگ گواہ رہو اس کا خون رائیگاں ہے“ (سنن ابی داود/الحدود 2 ، 4361)
سنن ابی داوءد کی اس حدیث میں کچھ نکات ایسے ہیں جو سمجھنے لائق ہیں ۔
1: نابینہ صحابی رضی اللہ عنہ جنہوں نے اپنی لونڈی(ام ولد) کا قتل کیا اس کا یہ معمول تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی ہجو کیا کرتی ان کو برا بھلا کہتی ۔
2: اس واقعے کو بیان کرنے والی شخصیت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ہیں جو آپ کے چچا زاد ہیں ۔
3: سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے علم فضل کا یہ عالم تھا کہ وہ عہد سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی دور امارت میں چھوٹی عمر میں ہی ان کے مشیر مقرر ہوئے ۔
4: نابینہ صحابی رضی اللہ عنہ نے کئی بار اس شاتم رسول کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ باز نہ آتی تھی ۔ جس کی وجہ سے صحابی رسول ﷺ نے اس کا خاتمہ کر دیا ۔
5: یہ معاملہ رسول اللہ ﷺ کی عدالت میں لے جایا گیا ، رسول اللہ ﷺ اس وقت نبی و رسول ہونے کے ساتھ حاکم بھی تھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس کا خون رائیگان ہے ۔ یعنی اس عمل پر مہر نبوت لگ گئی ۔ یعنی حاکم وقت کی منظوری شامل حال ہو گئی ۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«وَتَحْرِیْرُ الْقَوْلِ فِیْهِ: أَنَّ السَّابَّ إِنْ کَانَ مُسْلِماً فَإنَّه یُکَفَّرُ وَ یُقْتَلُ بِغَیْرِ خِلَافٍ وَهُوَ قَوْلُ الْآئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ وَ غَیْرِهِمْ وَ قَدْ تَقَدَّمَ مِمَّنْ حَکَیٰ الْاِجْمَاعُ عَلى ذَلِكَ اِسْحَاقُ ابْنُ رَاهْويَهِْ وَ غَیْرُه، وَ إِنْ کَانَ ذِمِّیّاً فَإنَّه یُقْتَلُ أَیْضاً فِي مَذْهَبِ مَالِكٍ وَ أَهْلِ الـْمَدِیْنَةِ وَ هُوَ مَذْهَبُ أَحْمَدَ وَ فُقَهَاءِ الْحَدِیْثَ» الصارم المسلول: ص 3،4
'' اس مسئلہ میں فیصلہ کن اور طے شدہ بات یہ ہے کہ نبیﷺ کو گالی دینے والا اگر مسلمان ہو تو اسے کافر قرار دیتے ہوئے بلا اختلاف قتل کیا جائے گا۔یہ ائمہ اربعہ و غیرہ کا قول ہے اور یہ بات گزر چکی ہے کہ امام اسحاق بن راہویہ رحمھما اللہ و غیرہ نے اس پر اجتماع نقل کیا ہے ۔ اور اگر گالی دینے والا ذمّی ہو تو وہ بھی امام مالک رحمہ اللہ اور اہلِ مدینہ کے مذہب میں قتل کیا جائے گا اور امام احمد و فقہاے حدیث کا بھی یہی مذہب ہے ۔''
امام ابو بکر جصاص رحمہ اللہ نے مسلمان شاتمِ رسولﷺ کے بارے میں لکھا ہے : «وَ لَا اِخْتِلَافَ بَیْنَ الـْمُسْلِمِیْنَ أَنَّ مَنْ قَصَدَ النَّبِّي ﷺ بِذٰلِكَ فَهُوَ مِمَّنْ یَّنْتَحِلُ الْاِسْلَامَ وَ أَنَّه مُرْتَدّ یَسْتَحِقُّ الْقَتْلَ» احکام القرآن للجصّاص: 3؍ 86 '' مسلمانوں میں اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ جس نے نبیﷺکو قصداً گالی دی وہ اسلام کا محض لبادہ اوڑھے ہوئے ہے اور وہ مرتد ہے اور قتل کا سزا وار و مستحق ہے ۔''
غرض یہ ہے امت محمدیہ میں اہل سنت والجماعت کے تمام مکاتب فکر کا یہ ماننا ہے کہ اگر کسی مسلمان یا ذمی پر توھین رسالت کا جرم ثابت ہو جائے تو حاکم وقت اس کو قتل کی سزا سنا کر اس پر عمل درآمد کروائے گا۔
برصغیر پاک وہند میں اس قانون کا اطلاق سب پہلے اس وقت ہوا جب ایک گستاخ ہندو ، "مہاشے راجپال" لعین نے رسالہ (رنگیلا رسول) شائع کر کے رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس میں توہین کی ۔ " عبدالرشید عراقی صاحب " غازی علم دین شہید" میں لکھتے ہیں: "اسی دوران لاہور کے ایک غازی خدابخش نے24 ستمبر 1928 کو اس گستاخ کو اس کی دکان پر نشانہ بنایا، تاہم وہ خبیث بھاگ کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگيا. غازی خدابخش کو گرفتاری کے بعد 7 سال کی سزاسنائی گئی. اسی طرح ایک اور مرد مجاہد گھر سے کفن باندھ کر نکلا، جو افغانستان کا ایک غازی عبدالعزیز تھا، جس نے لاہور آکر اس شاتم رسول کی دکان کارخ کیا مگر یہ بدبخت دکان میں موجود نہیں تھا اس کی جگہ اس کا دوست سوامی ستیانند موجود تھا۔ غازی عبدالعزیز نے غلط فہمی میں اس کو ہی راجپال سمجھ کر ٹھکانے لگا دیا. غازی عبدالعزیزکو حکومت وقت نے چودہ سال کی سزا سنائی. راج پال ان دو حملوں کے بعد نہایت خوفزدہ رہنے لگا. حکومت نے اس کی پشت پناہی کرتے ہوئے دو ہندو سپاہیوں اور ایک سکھ حوالدار کو اس کی حفاظت پر متعین کردیا."
یہاں سے اندازہ کیجئے کہ برصغیر میں ایک طرف گاندھی جیسے لبرل سیاستدان " ینگ انڈیا " جیسے میگزین میں " گستاخ راجپال " کا رد کر رہے تھے ۔ دوسری جانب ، عدالتیں راجپال کی سہولتکاری کر رہی تھیں۔ تو کیسے ممکن تھا کہ اپنے محبوب پیغمبر کی محبت میں جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہ کرنے والے مسلمان اس قدر گھنائونی سازش کا مقابلہ اپنے تائیں نہ کرتے ۔
غازی علم دین شہید رحمہ اللہ اپریل 1929میں لاہور میں " ملعون راجپال " کی دکان جو کہ قطب الدین ایبک کے مزار کے قریب واقع اس کے پریس پر پہنچے ، راجپال نے درمیانے قدکے گندمی رنگ والے جوان کو اندر داخل ہوتے دیکھ لیا لیکن وہ سوچ بھی نہ سکا، کہ موت اس کے اتنے قریب آچکی ہے۔اور آپ نے راج پال کو للکارا اور کہا ”اپنے جرم کی معافی مانگ لو اور دل آزار کتاب کو تلف کردو اور آئندہ اس قسم کی حرکتوں سے باز آ جاؤ۔“ راج پال اس انتباہ کوگیڈر بھبکی سمجھ کر خاموش رہا ۔اس پر غازی علم الدین نے پلک جھپکتے میں ہی چھری نکالی، اور ہاتھ فضا میں بلند ہوا اور راجپال کے جگر پر جالگا۔ چھری کا پھل سینے میں اترچکا تھا۔ ایک ہی وار اتنا کارگر ثابت ہوا کہ راجپال کے منہ سے صرف ہائے ہاۓ کی آواز ہی نکلی اور وہ اوندھے منہ زمین پر جاپڑا۔اس کی دکان کے ایک ملازم نے قریبی تھانے انارکلی کو خبر دی جس پر پولیس نے آپ کو گرفتار کرلیا.
7 جولائی 1929ءکو غازی علم دین کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا، جسے اپیل کے بعد 15 جولائی 1929 کو ہائی کورٹ کے دو ججوں نے بھی سیشن کورٹ کی سزا کو بحال رکھا. اور غازی کی اپیل خارج کردی. اپیل خارج ہونے کی اطلاع جب جیل میں غازی علم دین کو ملی تو آپ نے مسکرا کر فرمایا " شکر الحمداللہ ! میں یہی چاہتا تھا. بزدلوں کی طرح قیدی بن کر جیل میں سڑنے کے بجائے تختہ دار پر چڑھ کر ناموس رسالت پر اپنی جان فدا کرنا میرے لیۓ ہزار ابدی سکون وراحت ہے." اس قتل کی جزا کے طور پر 31 اکتوبر 1929 بروز جمعرات کو میانوالی جیل میں عمل درآمد کیا گیا۔ آپ کی شہادت کے بعد علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ " لوہاراں دا منڈا بازی لے گیا ۔۔۔ "
آج ہمارے ملک میں لبرل لوگ پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ ہمارے خلاف قانون ناموس رسالت ﷺ کا غلط استعمال کیا جاتا ہے ۔ لیکن تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ اس قانون کا کبھی بھی مسلمانوں کو وہ فائدہ نہیں ہوا جس کا یہ قانون متقاضی ہے ۔ شاتمین توہین کرتے رہے ، عدالتوں سے بری ہوتے رہے ۔ اور مسلمان قانون ہاتھ میں لیتے رہے۔ محمد اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ اپنی کتاب " قانون ناموس رسالت اور تحفظ ناموس رسالت میں" رقمطراز ہیں: ''ماہ جولائی 1984ء میں ایک خاتون ایڈووکیٹ عاصمہ جہانگیر(asma jahangir) نے‘ اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار میں تقریر کرتے ہوئے معلم انسانیت حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کچھ ایسے نازیبا الفاظ استعمال کیے جو سامعین اور امت مسلمہ کی دل آزاری کا باعث تھے‘ جس پر سیمینار میں ہنگامہ برپا ہو گیا‘ جب یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو ورلڈ ایسوسی ایشن نے اپنے خصوصی اجلاس میں پاکستان کے تمام سربرآوردہ علماء اور وکلا کی جانب سے اس کی پرزور مذمت کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سزائے موت کا قانون منظور کرے اور فیڈرل شریعت کورٹ سے بھی درخواست کی گئی کہ وہ شریعت پٹیشن پر اپنا فیصلہ صادر کرے۔ اسلامی جذبہ سے سرشار خاتون مرحومہ آپا نثار فاطمہؒ نے اس قابل اعتراض تقریر کا قومی اسمبلی میں سختی سے نوٹس لیا اور پھر راقم الحروف کے مشورے سے قومی اسمبلی میں تعزیرات پاکستان میں ایک مزید دفعہ‘ 295 سی کابل جس کی رُو سے شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا‘ سزائے موت تجویز کی گئی‘ پیش کیا گیا۔ "
قومی اسمبلی میں طویل جدو جہد کے بعد یہ بل 295 c پاکستان پینل کوڈ میں 1986 میں شامل کر لیا گیا جس کے تحت اب رسول اللہ ﷺ کی توہین کا مجرم قابل مواخذہ اور سزائے موت کا سزاوار قرار پایا گیا ۔ تب سے یہ قانون پاکستان میں قابل عمل تو ہے ، لیکن کیا یہ پروپیگنڈا بھی درست ہے کہ اس سے مسلمانوں کو فوائد ہوئے اور لبرلز یا اقلیتوں کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کا جائزہ بھی حالات کے تناظر میں لے لیتے ہیں ۔ مشہور زمانہ کیس " رمشا مسیح کیس " جس میں ملزمہ پر قرآن مجید فرقان حمید کو دانستہ طور پر جلانے کا الزام تھا ، 16 اگست 2012 کو حافظ خالد چشتی کی درخواست پر اس کو مقامی تھانے نے گرفتار کیا ، عدالت میں اس کی نا بالغی یا کم عمری کا بہانا بنایا گیا ، اس کو انٹرنیشنل میڈیا پر ہائی لائٹ کیا جانے لگا 20 نومبر 2012 کو رمشا مسیح کو ضمانت دے دی گئی ۔ کینیڈا کی حکومت نے اسے اسائلم دے کر پاکستان سے بلا لیا ۔ کیا ایسی سہولیات اور ایسی تیزی انصاف کے حصول اور عدل کے لئے پاکستانی عدالتوں اور قوانین میں مسلمانوں کو بھی مسیر آتی ہیں ۔ ؟ ہر گز نہیں ۔
یہ وہ دور تھا جب پاکستان کے سوشل میڈیا پر اقلیتوں اور لبرلز کی طرف سے لا محدود بنیادوں پر توہین آمیز مواد اپ لوڈ کیا جاتا تھا ۔ سوشل میڈیا پر ، مشہور زمانہ ملعونین ، گستاخان رسول کے خلاف مارچ 2017 میں مقدمہ درج کیا گیا ، اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج ، جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے عبوری فیصلہ سنایا ، اور ان تمام ملزمان کے نام ایگزٹ کنٹرول ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم نامہ جاری کیا ، پھر اچانک یوں ہوا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرینس چلایا گیا ، جسٹس شوکت عزیز صدیقی 6 ماہ کے لیے ملک چھوڑ کر چلے گئے ، اسی دوران میاں محمد نواز شریف کو عدالت نے نا اہل قرار دے دیا اور ان کی حکومت ختم ہو گئی ، جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جو جے آئی ٹی بنائی تھی اس میں ایف آئی نے نے دسمبر 2017 میں بیان دیا کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملے ، جس پر ان کو ضمانت پر رہائی ملی۔ لیکن کیا ہوا ، پانچوں ملزمان بیرون ملک فرار ہو گئے ۔ ان میں سے دو نے سوشل میڈیا پر بیرون ملک سے بدستور توہین آمیز مواد اپ لوڈ کرنا جاری رکھا ، جبکہ ان کو نہ سزا دلوائی جا سکی ، اور نہ قانون پر عمل درآمد ہو سکا ۔ جب ایسے حالات بن جائیں تو لوگ کیا کریں ، جب قانون اور عدالتیں مؤثر انداز میں ملزموں اور مجرموں کی تحقیقات ہی نہ کر سکیں یا تحقیقات ہونے کے باوجود ان مجرموں کا کچھ نہ بگاڑ سکیں تو اہل اسلام کہاں جائیں ، کس سے فریاد کریں ؟
یہاں بس نہیں ہوتی ۔
یہ 2017 کے اواخر کی بات ہے ، جب سوشل میڈیا پر ملحدین انتہائی غلیظ توھین آمیز مواد پھیلا رہے تھے ، کہ ان کے خلاف 2018 کے اوائل میں مقدمہ درج ہوا ، ناصر احمد سلطانی ، جس کا تعلق جھنگ سے تھا ، اس نے سوشل میڈیا پر نبوت کا دعویٰ کیا ، دوسرا ملزم ، پروفیسر انوار احمد تھا جس نے اسلام آباد کے ایک نجی کالج میں شعائر اسلام پر توہین آمیز زبان استعمال کی ۔ جس کی طلبہ نے ویڈیو بنائی ، اور ایف آئی کے سامنے ثبوت بھی پیش کر دیئے گئے ۔ تیسرے اور چوتھے ملزمان ، رانا نعمان اور عبدالوحید (ایاز نظامی) جو ایک دینی ادارے میں بہروپیا بن کر بطور استاذ حدیث پڑھا رہا تھا دنیا کے کئی ممالک سے فنڈنگ لیتا تھا ، رانا نعمان اس کا رائٹ ہینڈ تھا ، ملزمان بیرونی فنڈنگ سے سوشل میڈیا پر الحادی اور توھین آمیز مواد اپلوڈ کرتے تھے ، انہوں نے ایک توھین آمیز ویب سائٹ " ارتقائے فہم و دانش " بنا رکھی تھی ۔ اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج راجہ جواد عباس نے 2018 میں درج کیے جانے والے اس مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے جن تین مجرمان کو موت کی سزا سنائی ہے ان میں ناصر احمد سلطانی ،عبدالوحید اور رانا نعمان شامل ہیں جبکہ پروفیسر انوار کو دس برس قید کی سزا دی گئی ہے۔( بی بی سی اردو ) سزا تو سنا دی گئی ، عدالت میں 40 سے زائد گواہان پیش ہوئے ، لیکن ساتھ فیصلے میں جج کی جانب سے یہ لکھ دیا گیا کہ سزا پر عمل درآمد اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اسلام آباد ہائی کورٹ فیصلے کی توثیق نہیں کر دیتی ۔ آج 2025 ہے ، یہ چاروں گستاخان رسول اس وقت بھی حیات جیل میں سڑ رہے ہیں ۔ سزا پر عمل درآمد کروانے کے لئے کونسی چیز آڑے آ رہی ہے ؟ سمجھ سے بالاتر ہے ۔ کیا یہ وکلاء ، یہ جج ، یہ سیکیورٹی افسران ، اسٹبلشمنٹ افسران اور حکام بالا اور سیاستدان ، سب مسلمان نہیں؟ کیا ان کو رسول اللہ ﷺ سے محبت نہیں ؟ یا پاکستان کا قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ جو ثابت شدہ مجرمان ہیں ان کو سنائی گئی سزا پر عمل درآمد کروایا جائے ؟
عاصیہ ملعونہ کا کیس کس سے ڈھکا چھپا ہے ؟ پیپلز پارٹی کی حکومت کے گورنر سلیمان تاثیر نے اس قانون کو کالا قانون کہا تو اسی کے گارڈ " ممتاز قادری " نے طیش میں آ کر اسے گولیوں سے بھون ڈالا ، اقلیتی وزیر " شہباز بھٹی عاصیہ ملعونہ کے کیس کو انٹرنیشنل فورمز پر اٹھا رہا تھا ۔ مارچ 2012 میں اسے قتل کر دیا گیا ۔ 2009 میں اس پر توھین رسالت کا الزام لگا اور یہ گرفتار ہوئی اور 7 نومبر 2018 میں اس کو رہا کر دیا گیا ۔ 9 سال تک یہ ملعونہ پاکستان کی دو عدالتوں سیشن کورٹ شیخوپورہ اور لاہور ہائی کورٹ سے سزا کی توثیق کروا چکی تھی ۔ پھر اچانک صرف 4 گھنٹوں کی سماعت کے بعد اس کو بغیر گواہان کو سنے " چیف جسٹس ثاقب نثار " نے رہا کر دیا ۔ جب اس کی رہائی ہوئی ۔ تو ملک میں کہرام مچ گیا ۔ ادھر " جمیعت علماء اسلام س کے سربراہ نے عاصیہ بی بی کی سہولتکاری کا پردہ چاک کرنے کا اعلان کیا ادھر " مولانا سمیع الحق " کو اسلام آباد میں شہید کر دیا گیا ۔ وقت کے حاکم عمران نیازی نے تاریخ میں پہلے بار بی بی سی اور امریکی ادارہ برائے آزادی رائے کے فورم پر کھلے عام اس کی سہولتکاری کا اقرار کیا ۔ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت گئی تو یہ پورے ملک میں تحریک چلانے لگے۔
سیالکوٹ کے ایک چرچ سے ملحقہ گراؤنڈ پر ان کی قیادت کا چرچ انتظامیہ سے پھڈا ہو گیا تو پی ٹی آئی قیادت نے فواد چوہدری سمیت ان کی اقلیتی رہنما کو لا بٹھایا . یہ پریس کانفرنس 14 مئی 2022 کو کی گئی جس میں شہنیلا روتھ نے مسیحیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : " تم لوگ جن لوگوں کی سپورٹ میں ہمیں جگہ دینے سے انکار کر رہے، ان لوگوں نے تم پر پہلے سے بھی زیادہ ظلم کرنے ہیں ، (سوال کیا) بتاؤعاصیہ بی بی کو کس نے رہا کروایا ، ؟ ساون مسیح کو کس نے رہا کروایا ؟ سانحہ یوحنا آباد کے متاثرین ( حقیقت میں جن 40 لوگوں نے ایک حافظ قرآن کو زندہ جلا دیا تھا ) کو کس نے رہا کروایا ؟ (بولی) عمران خان نے رہا کروایا."
اس کے علاوہ بہت سے کیسز جس میں ان اقلیتوں کو ہر طرح کے قانون ، انصاف اور عدل کو بالائے طاق رکھ کر سہولیات دی گئیں ، مسلمانوں کے دلوں کو خون کے آنسو رلایا گیا ، جگر کاٹ دئیے گئے ۔ لیکن ان گستاخوں میں سے کسی ایک کو سزا نہ دی جا سکی سزائوں پر عمل درآمد نہ کروایا جا سکا۔ شگفتہ مسیح ، شفقت ایمانویل کی 11 سال قید رہنے کے بعد رہائی کر دی گئی ۔ کوئی پوچھنے والا نہ تھا ۔ ملک کی دو بڑی عدالتوں سے سزا کی توثیق پانے والے اچانک رہا کر دئیے گئے ؟ کیا ایسی قانونی امداد مسلمان رہنمائوں کے حصے میں بھی آتی ہے ؟ کیا ان کے لئے بھی سرکاری ذرائع استعمال کئے جاتے ہیں ؟
یہاں پر مسلمان علماء روتے ہیں کہ مدارس ایکٹ ظلم ہے ، لائوڈ سپیکر ایکٹ میں نرمی برتی جائے ۔ مسلمان مسجد سے خطبہ نہیں دے سکتا ۔ لیکن ایک ہندو یا عیسائی اس وطن عزیز میں ناچ گانے پر بڑے بڑے سپیکر لگا کر مسلمان ہمسائیگی کو تنگ کر سکتا ہے ۔ قادیانیوں کی طرف سے مسلمانوں پر حملے کئے جائیں ان کو قتل کر دیا جائے ، قادیانی مسلمان بچیوں کو جھانسے میں لا کر دھوکہ دہی سے مسلمان بتا کر شادی کریں اولاد ہو جانے کے بعد اپنی حقیقت سامنے رکھیں اور چھوڑ کر فرار ہو جائیں یا پولیس ان کو عدالتی کاروائی کے بغیر چلتا کر دے ۔ فیصل آباد میں عقیدہ ختم نبوت کے لئے کانفرنس کی اجازت نہ دی جائے اور قادیانیوں کو اپنی عبادت گاہوں کے تحفظ کے لئے مکمل سیکیورٹی فراہم کی جائے ۔ یعنی اسلام اور مسلمان وطن عزیز میں اتنے مظلوم بنا دیئے گئے اور یہ لوگ کہتے ہیں ہیں کہ ناموس رسالت کے قانون کا نفاذ ہی درست نہیں۔ نومبر 2017 میں شکور قادیانی کو اے ٹی سی نے ربوہ سے گرفتار کیا ۔ اور 2019 میں اس کو سزا پوری کئے بغیر رہا کر دیا گیا کس طرح ؟ سلمان تاثیر کے بیٹے شان تاثیر نے اس کو اپنے ہمراہ لیا اور صدر ٹرمپ کے سامنے پیش ہو گیا ۔ جہاں پر اس نے پاکستانی عوام اور حکام کی شکایتیں کیں ؟ کیا کسی مسلمان عالم کو انصاف اور عدل کے حصول کے لئے ایسے مواقع اور سہولیات میسر ہیں ؟
یہ قانون ایسا قانون ہے جو اغیار پر بم بن کر برستا ہے کہ یہ لوگ اپنے آقائوں سے اپنی قانون ساز اسمبلیوں میں قرار دادیں پاس کرواتے رہے ۔ اقوام متحدہ کے ایک ادارے نے 2023 میں پالیسی بیان دیا کہ پاکستان سے قانون ناموس رسالت یعنی 295 سی کو ختم کر دیا جائے ۔ اسی طرح 28 اپریل 2021 میں یورپین پارلیمان نے قرار داد منظور کی کہ پاکستان سے ناموس رسالت کا قانون مکمل طور پر ختم کر دیا جائے ۔ کیا کبھی پاکستان نے بھی پورپی ممالک کے بنائے گئے قوانین پر بھی اس طرح کی قرار دادیں پاس کی ہیں کہ فلاں ملک کے فلاں قانون کو ختم کیا جائے یہ انسانیت پر ظلم ہے ۔ یورپ اور امریکہ میں انسانیت کی خلاف ورزی سب سے زیادہ پاکستانیوں کے ساتھ ہوتی ہے اسلامو فوبیا کا اصل محرک یہی ممالک ہیں ، ٹومی رابنس کی ہائوس آف لارڈز کے سامنے توھین آمیز نعرے بازی ، امریکہ کے پادری کی قرآن جلانے کی مہم جوئی ، ہالینڈ کے گستاخ پارلیمینٹیرین "گیرٹ ویلڈرز" کا توھین آمیز تصویری مقابلہ ، پھر فرانس میں چارلی ہیبڈو میں رسول اللہ ﷺ کے شان میں مسلسل توھین آمیز خاکوں کی اشاعت ۔ کیا معاذ اللہ اس سب کی پاکستان میں بھی اجازت دے دی جائے ۔؟ کیا یہ نام نہاد آزادی اظہار رائے جسے وہ قانون کا احترام سمجھتے ہیں ۔ پاکستان کی عوام کی اکثریت کے بنائے گئے قانون کا احترام نہیں کر سکتے ؟
اصل مسئلہ استعمار ہے ، اصل مسئلہ صلیبیت ہے، اصل مسئلہ قادیانی اور عیسائی مشنری ہے ۔ جو اپنی تبلیغ کو پرموٹ کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس پر جھوٹے پروپیگنڈے کرتے ہیں ۔ الزامات ، بہتانات اور اتہامات لگاتے ہیں ۔ اور ہم سے توقع کرتے ہیں کہ اسلام اور اہل اسلام اقلیتوں کو تحفظ دے اور اقلیتوں کا خیال رکھے ۔ کیا ایسا ہی خیال رکھا جائے گا ان کا ؟ کہ جب مرضی جہاں مرضی ان کو سرکاری مشینری تحفظ بھی دے اور حکام رہا کر کے بحفاظت باہر بھی چھوڑ آئیں ۔ اور اہلیان اسلام خاموش تماشائی بنے رہیں ۔۔
پاکستان نے اس برس 15 مارچ 2025 کو یوم تحفظ ناموس رسالت منانے کا اعلان کیا جو کے بہت اچھی بات ہے ۔ لیکن ان مسائل کا تدارک کون کرے گا ؟ پیکا ایکٹ بنا دیا گیا یہ انتہائی اچھا اقدام ہے لیکن اس ایکٹ پر عمل درآمد کس طرح کیا جائے گا ؟ آج بھی سوشل میڈیا پر جعلی آئی ڈیز سے مسلمانوں والے نام رکھ کر توہین آمیز مواد شئیر کیا جاتا ہے؟ کیا حکومتی ایجنسیاں رسول اللہ ﷺ کی عزت و ناموس کے لئے کوئی " فائر وال " نہیں خرید سکتیں یا انٹر نیٹ پر اس کو لاگو کر سکتیں ؟ کیا کوئی ایسا میکانزم نہیں بن سکتا کہ سوشل میڈیا پر صرف وہی شخص مواد اپ لوڈ کر سکے جس کا شناختی کارڈ نمبر اور اوریجنل تصویر سوشل میڈیا پروفائل پر لگی ہو ۔ بہت سے مسائل ہیں جن پر ابھی مزید لکھا جا سکتا ہے جو اسی قانون سے متعلقہ ہیں ۔ باقی جب انسان بے بس ہو جاتا ہے تو اس پر بھی قرآن نے واضح اعلانات کر رکھے ہیں ۔
شیخ منیر قمر سیالکوٹی حفظہ اللہ" سیرت رسول مقبول ﷺ " پر لکھتے ہیں: گستاخانِ رسول ﷺمیں سے کتنے ہی لوگ ہیں جنہیں ایک ایک کرکے قتل کروادیا گیا تھا اور یہ بھی قانونِ قدرت ہے کہ جسے اہلِ ایمان اس کی اہانت و گستاخی کی سزا نہ دے سکیں تو اُس سے خود اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺکا انتقام لیتا ہے اور وہ ہی کافی ہوجاتا ہے جیسا کہ کسریٰ ایران نے نبی اکرم ﷺکے مکتوبِ گرامی کو چاک کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کے پورے خاندان کو ملیا میٹ کردیا اور اس کی حکومت تو کیا رہتی، اچھائی سے نام لیوا بھی کوئی نہ بچا تھا. کیا ان حکام یا سرکاری کارندوں کی اللہ رب العزت کے ساتھ جنگ کرنے کی استطاعت ہے ؟ اگر نہیں تو پھر کیوں ان معاملات پر ترجیحی بنیادوں پر مسلمانوں کی امنگوں کے مطابق فیصلے نہیں کئے جاتے ۔۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں (محمد ﷺ ) اس کو اس کی جان ، مال ، اولاد ، ماں باپ حتیٰ کہ ہر چیز سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں." کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رسول اللہ ﷺ کے محبین کو وہ دن بھی دیکھنا نصیب ہو گا جب گستاخان رسول جو اصل میں حقیقی مجرم ہیں حکومت پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے پھانسی کے پھندے پر لٹکے ہوئے ہوں اور مسلمانوں کا کلیجہ ٹھنڈا ہو؟
تبصرہ لکھیے