ہوم << ترقی کا محرک - محمد کامران اتمان خیل

ترقی کا محرک - محمد کامران اتمان خیل

دنیا نے آج تک جتنی ترقی کی ہے اس کے پیچھے جن چیزوں کا ہاتھ ہے اس میں پہلے نمبر پر تجسس اور محرک آتے ہیں اور ان دونوں کا کام سب سے زیادہ ہے۔ یہ تجسس ہی ہے جو سوال کو جنم دیتا ہے اور پھر ہم اس سوال کے جواب ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ یہ تجسس ہی ہے جس کی وجہ سے آدم دنیا میں بھیجے گئے۔

انسان جب غاروں میں رہتا تھا اور اس کے پاس پہنے کے لیے کپڑے نہیں تھے تو موسم کے اثرات سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے وہ اس پر مجبور ہو گیا کہ وہ اپنے لیے لباس بنائے تو اس نے درخت کے پتوں کا سہارا لیا اور ترقی کرتے کرتے وہ ریشم اور ململ سے کپڑے بنانا سیکھ گیا۔

ان سب چیزوں کے پیچھے یہی دو چیزیں تجسس اور محرک کار فرما تھے، سردی، گرمی، کیڑے مکوڑے وغیرہ یہ سب محرکات تھے جس نے انسان کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنی بقا کے لیے کچھ کرے۔ اور جب وہ کوئی کام کرتا، کوئی اسٹیپ لیتا تو اس کو مزید کام کرنے، مزید دریافت و ایجاد کرنے کا تجسس ہوجاتا، اس کا ذہن سوال جنم لیتا اور وہ اس سوال کے جواب تلاش کرنے میں لگ جاتا، وہ غاروں سے نکل کر باہر کے دنیا میں باغات، جھیلیں، صحرائے، حسین وادیاں اور جزیرے دریافت کرنے لگا اور آخر کار چاند پر قدم رکھ گیا۔ اور یہ تجسس اب بھی ہے۔

محرک کیا ہے؟ اور یہ تجسس کیوں ہے؟

محرک کے لیے مہیج کا لفظ بھی مستعمل ہے۔ محرک کو انگریزی میں اسٹیمولس (stimulus ) کہتے ہیں جس کا مطلب ہے تحریک دینے والی چیز۔ ابھارنے اور اکسانے والی چیز، وہ شے جس سے ہیجان پیدا ہو یا جو کام کرنے پر اکسائے وغیرہ۔

نفسیات اور نیرو سائنس کی اصطلاح میں اس سے مراد وہ سگنل ٹریگر یا ان پُٹ ہے جو ہمارے حواس، دماغ اور سارے نروس سسٹم کو بیدار کرتا ہے، معلومات کو منتقل کرتا ہے وغیرہ لیکن یہاں ہماری بحث سائنس نہیں اور نہ ہی میں سائنسی مباحث میں پڑنا چاہتا ہوں۔

یہاں میں ارد گرد موجود محرکات پر بحث کرنا چاہتا ہوں۔

آپ نے دیکھا ہو گا کہ جب ایک بچہ چھوٹا ہوتا ہے اور وہ بیٹھنا سیکھ پاتا ہے تو ہم اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھ کر اس کو اپنے پاس آنے کا اشارہ (محرک) دیتے ہیں، پھر جب وہ کھڑا ہونا سیکھ لیتا ہے تو ہم اس سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہو کر اپنی طرف کا اشارہ (محرک) دیتے ہیں۔ اس طرح تحریک دینے اور ابھارنے کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور انسان نشو نما پاتا رہتا ہے۔ کچھ لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں کہ اُن کو زندگی میں انسان کی شکل میں اچھے محرکات مل جاتے ہیں اور کچھ سے بدنصیب کہ وہ غلط محرکات کے شکار ہو جاتے ہیں۔

میں اسکول کے زمانے سے شاعری کرتا اور لکھتا تھا، میرے استاد میرے محرک بن گئے اور میں لکھتا گیا۔ کالج جانا شروع ہوا تو اسکول کے استادوں نے ایسا متحرک کیا تھا کہ میں ہر روز کچھ نہ کچھ لکھنے لگا اور لکھنے کا یہ حال تھا کہ دن کو تین تین، چار چار نظمیں لکھتا تھا۔ استاد مجھ سے روزانہ شاعری سنتے تھے، پھر ایک دن انہوں نے میری تعریف دوسرے استاد سے کی تھی، ایک دن وہ (جس سے سر نے تعریف کی تھی) آئے اور مجھ سے نظم سنا، اس میں بہت غلطیاں نکالیں، سر کے انداز سے میرا حوصلہ کافی پست ہوا اور میرا وہ سلسلہ کچھ تھم سا گیا، وقت گزرتا گیا اور جب میں نے اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور میں داخلہ لیا تو میں اردو سے پشتو میں منظوم تراجم کرنے لگا، کئی غزلوں کے اردو سے پشتو میں ترجمہ کیا، پھر تین چار افسانے بھی ترجمہ کیے لیکن جب میں اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی آ گیا تو میرا یہ سلسلہ اور بھی تیز ہوا، میں زیادہ لکھنے لگا۔ مگر میری یہ تحریریں طبع زاد نہیں تھیں، میں تراجم تک ہی محدود تھا، لیکن میرے اساتذہ میرے طبع زاد لکھنے کے محرک بنے۔ جس طرح عبد الباری علیگ سعادت حسن منٹو کے لکھنے کا محرک بنے تھے کہ عبد الباری علیگ نے ایک دن انہیں فرانسیسی اور روسی ادب پڑھنے کی ترغیب دی اور خاص طور پر وکٹر ہیوگو کی کتاب ”لیس میزرابل“ پڑھنے کو کہا۔ جس کو پڑھنے کے بعد منٹو کے اندر کہانی لکھنے کا جذبہ پیدا ہوا بالکل اسی طرح۔

میں نے ارادہ کیا کہ میں لکھوں گا، بہت زیادہ لکھوں گا، مگر میں کیا لکھوں؟ کیسے لکھوں؟ کیا لوگ میری تحریروں کو پسند کریں گے؟ ، اگر میں نے کچھ غلط لکھا تو لوگ کیا کہیں گے؟ میرے دوست، ہم جماعت، رشتہ دار وغیرہ۔

میں سوچ میں پڑ گیا، میرے زمین کے پردے پر یہی ایک سوال نمودار ہوا کہ ”ہم کیوں نہیں لکھتے؟ یا ہم کیوں لکھنے سے ڈرتے ہیں؟“

ہم میں سے بہت سے لوگ ہیں جو لکھتے ہیں لیکن وہ اپنے تحریروں کو دوسرے لوگوں سے شیئر نہیں کرتے یا وہ سرے سے لکھتے نہیں، ایسا کیوں ہے؟ کیونکہ ہمیں ایک چیز ڈراتی ہے اور وہ یہ کہ ہم خود کو باہر رکھنے سے ڈرتے ہیں، ہم مسترد ہونے سے ڈرتے ہیں، ہم اپنی مذاق اڑنے سے ڈرتے ہیں، یہ خوفناک ہے اور خوف ناکامی کی طرف سیڑھی ہے۔ ہم کیا لکھتے ہیں؟ وہ سب کچھ جو ہم پہ گزرتا ہے، احساسات، جذبات! ہم کس کے لیے لکھتے ہیں؟ انسانوں کے لیے! تو اگر ہم انسانوں کے لیے لکھتے ہیں اور وہی کچھ لکھتے ہیں جن کا ہر شخص تجربہ کرتا ہے تو پھر ان چیزوں کو شیئر کرنے میں یہ گھبراہٹ کیوں؟ یہ بے چینی کیوں؟ شاید اس لیے کہ ہم نے زندگی کا بیشتر حصہ اس کو ظاہر نہ کرنے میں گزارا ہے، ہم اپنے جذبات و احساسات کو دوسروں سے شیئر کرنے سے ڈرتے ہیں، لوگ ان جذبات و احساسات کو پڑھیں گے تو ہم پر طرح طرح کے لیبل لگائیں گے مگر لگانے دیں، ہم لوگوں کی پرواہ کیوں کریں بھئی؟ منٹو پر مقدمے چلے تھے ہم پہ لیبل لگا تو کیا ہوا؟ کوئی ہمیں پسند نہ کرے تو کیا ہوا؟ کتنے ہی لوگ ہیں جن کی میں نے کتابیں پڑھی ہیں لیکن مجھے بالکل بھی پسند نہیں تو کیا وہ لکھنا چھوڑ دیں؟ نہیں ایسا نہیں ہے۔

Comments

Avatar photo

محمد کامران اتمان خیل

محمد کامران اتمان خیل شاعر اور افسانہ نگار ہیں۔ شاعری پشتو زبان میں کرتے ہیں۔ ترجمہ نگاری میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ اردو میں پشتو افسانوں کے تراجم اور اردو سے پشتو میں منظوم تراجم کیے ہیں۔ اورینٹل کالج، جامعہ پنجاب لاہور سے بی ایس اردو کیا ہے۔ ادب، زبان اور ثقافت کے میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ اپنی تخلیقی صلاحیت اور ترجمہ نگاری کے ذریعے ادب کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔

Click here to post a comment