ہوم << آئیڈیل عالم دین آخر کون ؟ ڈاکٹر حسیب احمد خان

آئیڈیل عالم دین آخر کون ؟ ڈاکٹر حسیب احمد خان

آج کل ایک پوسٹ بہت زیادہ وائرل ہے. مولانا ڈاکٹر حسین عبد الستار صاحب کی بابت ہمارے محترم دوست ضیاء چترالی صاحب لکھتے ہیں۔

" ایک آئیڈیل عالمِ دین!
ہیں تو وہ ایک مولوی، لیکن بڑے بڑے امریکی ڈاکٹرز انھیں استاذ مانتے ہیں۔ علم طب پر ان کی لکھی گئی کتاب Pathoma ڈاکٹروں کےلیے مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔ امریکی میڈیکل طلبہ اور ڈاکٹرز انہیں Sir Husain Sattar کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ مشہور امریکی یونیورسٹی جامعہ شکاگو Pritzker School of Medicine University of Chicago) میں Pathology کے ایسوسی ایٹ پروفیسر بلکہ MD مولانا ڈاکٹر حسین عبد الستار ہیں۔ The science of surgery میں پی ایچ ڈی ہیں۔ خاص کر کے امراضِ پستان ونسواں (Diseases of the breast and women) کےلیے یہ مرجع الاطباء شمار ہوتے ہیں۔ اسی طرح یہ میڈیکل کالج میں Pathophysiology اور Clinical Treatments کے بھی استاذ، بلکہ associate director ہیں اور طلبہ کے ایڈوائزر اور سپر وائزر بھی۔ علم الامراض Pathology میں یہ امریکا کے سب سے بہترین پروفیسر شمار ہوتے ہیں۔ ان کی دوسری کتاب Fundamentals of Pathology بھی بہت مقبول ہے، جو 2019ء میں چھپی ہے"۔

اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ مولانا ڈاکٹر حسین عبد الستار صاحب کی مساعی قابل تعریف ہیں اور ایسے لوگ امت کا سرمایہ ہوتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ یہی حضرات آئیڈیل کیوں شمار کیے جاتے ہیں ؟

کیا مولانا اشرف علی تھانویؒ آئیڈیل عالم دین نہیں تھے ؟ کیا پیر کرم شاہ الازہریؒ آئیڈیل عالم دین نہیں تھے؟ کیا صفی الرحمان مبارکپوریؒ آئیڈیل عالم دین نہیں تھے؟ کیا سید مودودیؒ آئیڈیل عالم دین نہیں تھے؟ کیا مفتی تقی عثمانی صاحب آئیڈیل عالم دین نہیں ہیں؟ یہ تمام وہ لوگ ہیں کہ جنھوں نے قرآن و حدیث فقہ و تفیسر تصوف و سلوک کے شعبہ جات میں بے شمار علمی کام کیا ہے. حدیث کو لیجیے مولانا انور شاہ کشمیریؒ کا کام ، غلام رسول سعیدیؒ کا کام ، حافظ زبیر علی زئیؒ کا کام ، مناظر احسن گیلانیؒ کا کام کیا کسی سے کم ہے ؟

اسی طرح وہ حضرات جنہوں نے مدارس اور جدید تعلیمی اداروں ہر دو سے پڑھا اور خاص دینی علوم پر کام کیا جیسے ڈاکٹر حمید اللہ خانؒ ، ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ ، ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک شہید، اور اسی شعبے کے دیگر افراد. پھر اور آگے بڑھیے ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم میڈیکل ڈاکٹر تھے، اس شعبے کو چھوڑ کر دعوت دین کی طرف آئے ، ڈاکٹر ذاکر نائیک میڈیکل ڈاکٹر ہیں اس شعبے کو چھوڑ کر دین کی دعوت میں مشغول ہوئے ، مولانا طارق جمیل صاحب میڈیکل کا شعبہ چھوڑ کر دین کی دعوت کی طرف آئے۔

مولانا ڈاکٹر حسین عبد الستار صاحب ہوں ، معروف سرجن ڈاکٹر امجد صاحب ہوں یا ڈاکٹر نوشاد صاحب ہوں، ان حضرات نے اپنے اپنے شعبہ علم میں رہتے ہوئے دین کی بڑی خدمت کی، لیکن کیا ان کے مقابلے میں مفتی نظام الدین شامزئی شہید ، مولانا احسان الہٰی ظہیر شہید ، مولانا طالب الہاشمی صاحب مرحوم ، حکیم محمود احمد برکاتی شہید کم آئیڈیل تھے کہ ان کا مجموعی کام خالص دینی علوم پر تھا۔

بلاشبہ حکیم محمد سعید شہید جیسے حضرات بھی آئیڈیل تھے لیکن مولانا یوسف لدھیانوی شہید ، عبد الرحمان کیلانیؒ ، سائیں مہر علی شاہ صاحب ؒ مولانا گوہر رحمان ؒ کم آئیڈیل تھے کہ انہوں نے خالص دینی علوم کےلیے خود کو وقف کیا . آخر ہمارے پیمانے کیوں تبدیل ہوگئے اور ہم نے اپنا رخ کیو تبدیل کرلیا ؟

کیا جابر بن حیان آئیڈیل تھا اور امام ابو حنیفہؒ نہیں تھے ؟
کیا الخوارزمی آئیڈیل تھا اور امام بخاریؒ نہیں تھے ؟
کیا عمر خیام آئیڈیل تھا اور ابن تیمیہؒ نہیں تھے ؟
کیا یعقوب الکندی آئیڈیل تھا اور امام غزالیؒ نہیں تھے ؟
کیا ابن الہیثم آئیڈیل تھا اور جلال الدین سیوطیؒ نہیں تھے ؟
کیا الفارابی آئیڈیل تھا اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ نہیں تھے ؟
کیا حکیم مقنع خراسانی آئیڈیل تھا اور حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ نہیں تھے ؟

آخر یہ احساس کمتری کیوں ہے ؟
میں پچھلے کئی سال سے مختلف مدارس میں تخصص کی سطح پر لیکچر دیتا ہوں، اسی طرح سوشل میڈیا پر ہزاروں نوجوان علماء سے میرا رابطہ رہتا ہے، جب بھی ان سے یہ سوال ہوا کہ آپ کو کیا بننا ہے ؟
جواب آیا کہ ہمیں یوٹیوبر بننا ، ٹک ٹاکر بننا ہے ، کرپٹو پر کام کرنا ہے ، بینکار بننا ہے ، صحافی بننا ہے ، کالم نگار بننا ہے ، ادیب بننا ہے ، شاعر بننا ہے اور آج کل کی ہوا کہ جناب ہمیں تو اینکر بننا ہے ، موٹیویشنل اسپیکر بننا ہے ، متکلم اسلام بننا ہے اور الحاد کے میدان میں جھنڈے گاڑنے ہیں (کیونکہ یہ ٹرینڈ میں ہے) کسی کو تاجر بننا ہے ، کسی کو فلسفی بننا ہے کسی کو ڈاکٹر و پروفیسر بننا ہے۔ نہیں بننا تو مفسر نہیں بننا ، محدث نہیں بننا ، فقیہ نہیں بننا ، مورخ نہیں بننا ، داعی نہیں بننا ، صوفی نہیں بننا۔

جو باقی بچے وہ آسان دین تحریک کا شکار ہوکر ڈسکورسی ، فکری ، سیاسی اور نجانے کیا کیا بن گئے۔ افسوس کہ ہمارے آئیڈیل کے پیمانے ہی بدل گئے۔ اور میں کون ایک غیر مولوی تو میری بات کس نے سننی ہے اور کیوں سنے گا۔ مگر کیا کیجیے کہ دینی طبقے سے محبت لکھنے پر مجبور کردیتی ہے اور روایت پسندوں (جو خود جدت کی طرف مائل ہیں) سے زیادہ روایت پسند بننا پڑتا ہے۔

اذیت ، مصیبت ، ملامت ، بلائیں
ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر حسیب احمد خان

ڈاکٹر حسیب احمد خان ہمدرد یونیورسٹی کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ قرآن و سنت سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے الحاد، دہریت، مغربیت اور تجدد پسندی کے موضوعات پر لکھ رہے ہیں۔ شاعری کا شغف رکھتے ہیں، معروف شاعر اعجاز رحمانی مرحوم سے اصلاح لی ہے

Click here to post a comment