آئیے آپ کو بتاتا چلوں وہ رات جسے ہم چاند رات کہتے ہیں۔ جب ہم رمضان المبارک کو الوداع کر کے بازاروں میں نکل جاتے ہیں۔ عیاشیاں واپس آ جاتی ہیں۔ نظریں گھومنا شروع ہو جاتیں ہیں۔ بائکس کے سائلنسر نکال دئیے جاتے ہیں گویا کہ اندر کا شیطان واپس آ جاتا ہے۔ شاپنگ کے نام پہ وقت کا ضیاع اور نمازیں قضا۔ جو کچھ رمضان میں پریکٹس کیا ہوتا ہے سب بھلا بیٹھتے ہیں۔ نہیں یہ رات اس لیئے نہیں ہے بلکہ آپ کے پورے مہینہ کی عبادت و ریاضت اور روزوں کا اجر لینے کی رات ہے۔
اس رات کو لیلتہ الجائزہ کہا گیا ہے ایک ایسی رات ہے جو رمضان المبارک کے اختتام پر آتی ہے، یہ عید الفطر کی شب ہوتی ہے جس کے بڑے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ لیلۃ الجائزہ کا معنیٰ انعامات کی رات ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میری امت کو رمضان شریف کے بارے میں پانچ چیزیں مخصوص طور پر دی گئی ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں ملیں اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ رمضان کی آخری رات میں روزے داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا ’’کیا یہ شب مغفرت ’’شب قدر‘‘ ہے۔آپﷺ نے فرمایا، نہیں بلکہ (اللہ کا) دستور یہ ہے کہ مزدور کا کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دے دی جاتی ہے۔ (مسند احمد، بزار،بیہقی)
ابن ماجہ کی ایک اور قیمتی حدیث پیش کرتا ہوں کہ نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’جو شخص ثواب کی نیت کرکے دونوں عیدوں (عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ) میں جاگے (اور عبادت میں مشغول رہے) اس کا دل اس دن نہ مرے گا جس دن سب کے دل مرجائیں گے (یعنی فتنہ و فساد کے وقت اور قیامت کے ہول ناک اور دہشت ناک دن میں یہ محفوظ رہے گا)
اب آپ خود سوچئے کہ ایک مزدور سارا مہینہ مزدوری و محنت کرکے مزدوری لینے کے وقت مزدوری دینے والے کے پاس ہی نہ جائے اور اس سے بہت دور چلا جائے تو اسے مزدوری ملے گی یا جو مزدوری دینے والے کے در پہ ہو گا اسے ملے گی؟؟؟
تھوڑا نہیں پورا سوچئے. اس دفعہ اپنا رویہ بدلئیے اور اس پیغام کو پھیلائیے تاکہ معاشرے میں ایک بدلاؤ آئے۔
تبصرہ لکھیے