سب رنگ ڈائجسٹ پاکستان کا مقبول ترین رسالہ رہا ہے۔ بد قسمتی سے یہ اب کئی سال سے شائع نہیں ہو رہا، بند ہو چکا ہے۔ یہ 1970ء میں شروع ہوا تھا اور 2007ء تک شائع ہوتا رہا۔ سب رنگ ڈائجسٹ ہر ماہ ملکی و غیر ملکی ادب سے اعلیٰ اور بے مثال افسانوں کا انتخاب پیش کرتا تھا۔ سب رنگ کے قارئین شدت سے اس کا انتظار کرتے تھے اور مارکیٹ میں آتے ہی یہ چند دن میں سارا فروخت ہو جاتا تھا۔ پھر جب اس اعلیٰ انتخاب میں زیادہ وقت لگنے لگا تو یہ تاخیر سے شائع ہونے لگا۔ حتیٰ کہ آخری دنوں میں یہ پہلے تو سال سال بھر میں ایک ہی اشاعت تک محدود ہوا اور بالآخر 2007ء میں آخری شمارہ آنے کے بعد بند ہو گیا۔ سب رنگ ڈائجسٹ کے ایڈیٹر شکیل عادل زادہ ہوتے تھے۔
1995ء سے 1999ء تک میں جنگ گروپ میں کام کرتا تھا۔ سب رنگ ڈائجسٹ کا دفتر کراچی میں آئی آئی چندریگر روڈ پر جنگ بلڈنگ کے برابر والی عمارت پریس چیمبرز میں ہوتا تھا۔ میں اکثر وہاں چلا جاتا تھا۔ شکیل عادل زادہ جنہیں ہم صرف شکیل بھائی کہتے تھے، ہم سے بڑی محبت کرتے تھے، اور آج تک کرتے ہیں۔ ان کے پاس اکثر شہر کے ادب پسند و ادب شناس لوگوں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ یہاں ادبی، معاشرتی، سماجی، معاشی ہر طرح کے موضوعات پر گفتگو ہوتی تھی اور بہت کچھ سیکھنے کو ملتا تھا۔ ایک دن میں نے شکیل بھائی سے کہا کہ میں کبھی کبھی ایک بڑی عجیب کیفیت سے گزرتا ہوں۔ کہنے لگے کیا؟… تو میں نے بتایا کہ اکثر آدھی رات کے وقت میری آنکھ کھل جاتی ہے اور بستر پر لیٹے لیٹے عجیب عجیب خیالات ذہن میں آتے ہیں۔
”مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے یہ پوری دنیا ایک بہت بڑا خاکی گولہ ہے جو ایک لا محدود خلاء میں تیر رہا ہے، اور لرزہ خیز بات یہ ہے کہ اس پورے کرّے پہ صرف ایک پلنگ ہے، جس پر میں لیٹا ہوا ہوں۔ کائنات کے سارے ستارے اور سیارے میری آنکھوں کے سامنے گردش کر رہے ہیں اور اس بے پناہ وسعت میں مجھے اپنا وجود ایک ذرّے سے بھی کمتر لگ رہا ہے۔ چنانچہ میں ایک شدید قسم کے احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتا ہوں … لیکن میرا یہ احساسِ کمتری کچھ ایسا حیرت انگیز بھی نہیں، کیونکہ انسان اگر کچھ دیر کیلئے اس کائنات میں خود کو تنِ تنہا تصور کرے اور سوچے کہ وہ اس لامحدود خلاء میں تیرتی زمین پر اکیلا ہے، تو وہ یقیناً ڈر جائے گا اور لازماً ایک شدید احساسِ کمتری کا شکار ہو جائے گا۔“
میں بولتا جا رہا تھا اور شکیل بھائی بغیر کوئی لقمہ دیئے میری بات سن رہے تھے۔
”جب یہ خیال میرے دل میں آیا کہ یہ کائنات تو بہت بڑی ہے اور میں محض ایک مختصر سا ذرّہ ہوں اور میں یہ متعیّن ہی نہیں کر سکتا کہ میری حیثیت کیا ہے، تو میں اس احساسِ کمتری میں چلا گیا کہ میں تو بہت ہی چھوٹا، بڑا حقیر ہوں، ایک ناقابلِ ذکر شئے ہوں اور اس لامحدود کائنات میں میری کوئی حیثیت ہی نہیں … تو شکیل بھائی یہ تو بڑی پریشانی کی بات ہے۔“
”ہاں بھائی … یہ تو واقعی بڑی پریشانی کی بات ہے“ شکیل بھائی بولے۔ ”تو پھر تم نے کیا سوچا؟“
”جی میں نے اس پر بہت زیادہ سوچا ہے“ میں بولا۔
”پھر کیا سمجھ آیا؟“
شکیل بھائی میری طرف دیکھنے لگے۔
”جی میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جس وقت ہم اپنے بارے میں سوچتے ہیں تو ہم دراصل اپنے بارے میں نہیں، بلکہ اپنے جسمانی وجود کے بارے میں سوچتے ہیں۔ مثلاً اگر میں کہوں کہ یہ میرے ہاتھ ہیں، تو یہ میں تو نہ ہوا … ہاتھ ہوئے۔ اسی طرح اگر میں کہوں کہ یہ میرے پیر ہیں، تو یہ تو صرف پیر ہوئے، میں تو نہ ہوا … اسی طرح میری آنکھیں، میری ناک، میرے کان، حتیٰ کہ میرا سر، یہ سب چیزیں میرے جسمانی وجود کا حصہ ہیں، یہ میں نہیں ہوں۔ یہ پورا جسم اور اس کے اعضاء، یہ سب میرے اوزار ہیں۔ میرے ہاتھ، پاؤں، سر، آنکھیں وغیرہ یہ سب میرے ٹُولز ہیں۔ تو اگر یہ ساری چیزیں میرے ٹُولز ہیں، جو کہ واقعی ہیں، تو پھر آخر میں کیا ہوں کہ جسے یہ سب ٹُولز دیئے گئے ہیں؟… پھر مزید غور کیا اور سوچا کہ اگر یہ سارا جسم صرف ٹُولز ہی ہیں تو میں خود صرف یہ جسم نہیں ہوں، بلکہ ایک روح ہوں۔ میری ذات وہ روح ہے جو اِن ٹُولز کی مالک ہے۔ پھر ان ٹُولز کی ایک ایکسپائری ڈیٹ بھی ہے جس پر یہ سب بیکار ہو جائیں گے، ختم ہو جائیں گے۔ البتہ ان اعضاء کی مالک ”روح“ لافانی ہے اور موجود رہے گی۔ چنانچہ سمجھ میں یہ آیا کہ اگر ہم کائنات کے حجم اور وسعت کا موازنہ اپنے ان اعضاء، اپنے اس فانی جسم سے کریں گے، تو یقیناً احساسِ کمتری میں مبتلا رہیں گے۔ لیکن اگر ہم اپنے آپ کو صرف جسم نہیں، روح سمجھیں گے، تو روح کے سائز کا تو ہمیں علم ہی نہیں … عین ممکن ہے کہ اس روح کا سائز پوری کہکشاں کے برابر ہو اور یہ ایک ہی جست میں کروڑوں نوری سالوں کا فاصلہ طے کر جاتی ہو … چنانچہ یہ بات ذہن میں آنے پر میں اس نتیجے پہ پہنچا کہ مجھے اس طرح کے احساسِ کمتری کا شکار ہونے کی کوئی ضرورت نہیں جو صرف میرے اعضاء کے سائز کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے۔ کیونکہ جب ہمیں اپنی لافانی روح کے سائز کا علم نہیں، تو فانی جسم کے سائز کا سوچ کر کیوں پریشان ہوں، کیوں احساسِ کمتری کا شکار ہوں؟… ہمارے جسم کا سائز ہمارا نہیں بلکہ ان ٹُولز کا سائز ہے جو ہمیں دیئے گئے ہیں، ہماری روح کا تو ہمیں معلوم ہی نہیں کہ یہ کتنی بڑی ہے۔“
میں نے بات ختم کی تو شکیل بھائی کچھ دیر مجھے خاموشی سے دیکھتے رہے، پھر مسکرائے اور سامنے بیٹھے سب رنگ کے نائب مدیر حسن ہاشمی سے بولے :
”ارے حسن، جلدی جاؤ، برنس روڈ سے ایک کلو اصلی گھی کی جلیبیاں لے آؤ“
”وہ کس خوشی میں؟“ حسن ہاشمی بولے۔
”ارے … تم دیکھ نہیں رہے؟… ہمارا کیہر ولی ہوگیا ہے … اس کی باتیں سنو … روح کا سائز اور جسم کا سائز … کیا کہنے، اچھی بات کی ہے۔ اس خوشی میں جلیبی کھاتے ہیں“
حسن ہاشمی فوراً اٹھے اور ہماری تازہ تازہ ولایت کی خوشی میں فریسکو سویٹس کی اصلی گھی والی جلیبیاں لینے برنس روڈ چلے گئے۔
تبصرہ لکھیے