ہوم << دوسروں کے لیے استعمال ہونے سے بچیں! مولانا نورعالم خلیل امینی

دوسروں کے لیے استعمال ہونے سے بچیں! مولانا نورعالم خلیل امینی

بعض دفعہ ایک شخص کسی دوسرے شخص کے ذریعے استعمال ہوجاتا ہے اور اسے اپنے استعمال یا استحصال کا ادراک ہی نہیں ہوپاتا؛ کیوں کہ استعمال کرنے والا انسان غیر معمولی ہوشیاری،عیاری اور دیدہ ریزی سے کام لیتا ہے اور اس طرح ایک انسان غیر شعوری طورپر خود کو دوسرے کے لیے نفع بخش معاملات میں الجھا لیتا ہے، وہ خود کو گھلاکر دوسرے کے تعیشات کا سامان کرتا ہے اور اپنی صلاحیتیں دوسرے کے لیے لذائذِ حیات مہیا کرنے اور اس کے اہداف کی تکمیل میں صرف کرتا ہے۔

کبھی تو اس مستعمَل انسان کو تا حیات اپنے استعمال و استحصال کی بھنک نہیں لگتی اور بعض دفعہ اسے اس وقت پتا لگتا ہے کہ اس کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے، جب استعمال کرنے والا اسے استعمال کرکے اپنے تمام یا اچھے خاصے اہداف حاصل کرلیتا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ایسے معاملات میں استعمال ہونے والا شخص بھی فی الحقیقت تو دوسرے کے مفادات کے تحفظ کے لیے سرگرمِ عمل رہتا ہے، مگر وہ سمجھتا یہ ہے کہ اپنی بھلائی کے لیے مصروفِ عمل اور زندگی میں کسی بڑے نصب العین کو پانے کے لیے کوشاں ہے؛ چنانچہ وہ غایتِ اخلاص اور سخت جدوجہد کے ساتھ مفوضہ امور انجام دیتا ہے اور جو بھی ذمے داری اسے سونپی جائے، پوری تن دہی سے نبھاتا ہے اور اس کے نتیجے میں اس دوسرے(استعمال کرنے والے) شخص کو بے پناہ فوائد حاصل ہوتے ہیں؛ کیوں کہ کسی نے اس کے لیے اپنی جان لڑائی ہوتی ہے۔

بعض دفعہ تو یہ استعمال کرنے والا شخص استعمال ہونے والے شخص کا دشمن یا نرا بندۂ اغراض ہوتا ہے؛ چنانچہ اس کے کیے گئے ہر کام کو اپنے کھاتے میں ڈالتا جاتا اور لوگوں کو یہ تاثر دیتا رہتا ہے کہ سارے کارنامے وہی انجام دے رہا ہے اور اس طرح ایک انسان گویا خود اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کرتا ہے اور اس سے زیادہ کسی کی شومیِ قسمت کیا ہوسکتی ہے!

اگر کسی کو یہ معلوم ہے کہ فلاں شخص اس کا اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہا ہے اور اس کے باوجود وہ ایسے کام کرتا ہے، تو ظاہر ہے کہ اس کے لیے حسرت و تاسف کی کوئی بات نہیں؛ کہ وہ اپنی مرضی سے اور جانتے بوجھتے دوسرے کے لیے استعمال ہورہا ہے؛ لیکن اگر کوئی شخص لاعلمی میں کسی کے حق میں استعمال ہورہا ہو اور کچھ عرصے بعد اسے اس کا علم ہوجائے، تو اسے شدید رنج و افسوس سے گزرنا پڑتا ہے؛ کیوں کہ اس سے قبل تو وہ یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذات یا مذہب یا ملت کے فائدے کے لیے سرگرمِ عمل ہے، مگر کچھ وقت بعد اسے معلوم ہوتا ہے کہ نہیں، وہ فلاں سمت میں اپنی مرضی سے نہیں چل رہا؛بلکہ چلایا جارہا ہے اور وہ اپنے حق میں نہیں؛ بلکہ اپنے خلاف کام کر رہا ہے ، اپنے ہی دشمنوں کی صف میں شامل ہے اور اس کا ہر قدم خود اس کے خلاف اٹھ رہا ہے۔

مثال کے طورپر تحریکِ آزادی کے دوران بہت سے ہندوستانیوں کو برطانوی حکومت مجاہدینِ آزادی کے خلاف استعمال کرتی تھی؛چنانچہ وہ لوگ مقررہ وظائف کے عوض حکومت کے لیے جاسوسی کرتے تھے ،جس کی وجہ سے مجاہدینِ آزادی کے منصوبے ناکام ہوجاتے اور ان کی تنفیذ سے پہلے ہی انگریزوں کو ان کا سراغ لگ جاتا تھا جیسے شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کی تحریکِ ریشمی رومال یا آزادی پسندوں کی دوسری بہت سی تحریکوں کے ساتھ ہوا۔

اکیسویں صدی میں امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف اپنی نام نہاد عالمی جنگ میں بہت سے لوگوں اور ملکوں کو اسی طرح استعمال کیا اور اس کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ’جو ہمارے ساتھ نہیں ہے،وہ لامحالہ ہمارے خلاف ہے‘ جس کے نتیجے میں بہت سے مسلم ممالک کے سربراہان اور سیاست دان اس کے تابع ہوگئے اور امریکہ کو اپنے ملکوں کے وسائل،وہاں کی زمینوں، سمندروں اور خلاؤں تک کے استعمال کی کھلی اجازت دے دی،اسے لوجسٹک وسائل فراہم کیے اور اس طرح انھوں نے خود اپنے ممالک ،عوام،ثقافتی،تاریخی و دینی وراثت کی تباہی کا سامان کیا۔مگر انھیں اپنے کیے پر کوئی افسوس نہیں ہوا؛کیوں کہ انھیں اپنے آقاؤں کی طرف سے خوب خوب نوازا گیا۔انھیں اپنے ملک یا مذہب یا عوام سے کچھ لینا دینا نہیں تھا،انھیں تو صرف اپنا دنیاوی مفاد عزیز تھا،جو انھیں بھربھر کے حاصل ہوا۔

کچھ اغراض پسند تو ایسے ہوتے ہیں،جن کے پیشِ نظر اپنے خاص مفادات ہوتے ہیں،مگر وہ خود ان کے حصول کی صلاحیت نہیں رکھتے،البتہ دوسرے کو وسیلہ بناکر ان کے حصول میں پوری مہارت رکھتے ہیں۔ایسا سانحہ خود میرے ساتھ پیش آچکا ہے،کہ بعض لوگوں نے اپنی مقصد برآری کے لیے مجھے استعمال کرلیا اور مجھے اس کا ادراک تب ہوا جب پتا چلا کہ انھوں نے میرے کام کو اپنے نام سے کیش کروا لیا ہے۔

چند برس قبل ایک ’حضرت جی‘ نے مشورہ دیا کہ مجھے فلاں فلاں اردو کتابوں کا عربی ترجمہ کرنا چاہیے؛ کیوں کہ وہ عصرِ حاضر میں مسلمانوں کے سلگتے مسائل کی نشان دہی کرتی ہیں اور ان کے موضوعات ایسے ہیں کہ ان سے اہلِ عرب کو بھی واقف کروانا چاہیے۔یہ بات انھوں نے ایسے لہجے میں کہی کہ لگا ان کی بات میں سچائی اور خلوص ہے اور وہ واقعی اپنے دل میں مسلمانوں کا درد رکھتے ہیں؛چنانچہ میں نے متعلقہ کتاب کا ترجمہ کردیا ،جو قسط وار ’الداعی‘ کے شماروں میں بھی شائع ہوا۔کچھ دنوں بعد پتا چلا کہ انھی حضرت جی نے اس ترجمے پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے موضوع سے متعلق دیگر عربی کتابوں کےکچھ مباحث اس میں بڑھادیے اور ایک ٹھیک ٹھاک اشاعتی ادارے نے اسے شائع بھی کردیا۔مجھے جب وہ کتاب ملی اور میں نے الٹ پلٹ کر دیکھا،تو پتا چلا کہ اس کا زیادہ تر حصہ تو میرے ترجمے پر مشتمل ہے، جو میں ’الداعی‘ میں شائع کرواچکا ہوں ۔یہ دیکھ کر میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ مصنف بننے کا یہ تو بڑا دلچسپ طریقہ ہے کہ ایک شخص خود تو کچھ بھی نہ لکھے،بس یہاں وہاں سے چیزیں جمع کردے اور صاحبِ کتاب بن جائے۔میں نے اس سانحے کا اپنے بعض دوستوں سے تذکرہ بھی کیا،تو معلوم ہوا کہ اس بندے کو عربی لکھنا آتی ہی نہیں،چند سطریں بھی نہیں لکھ سکتا،مگر اسی استادانہ مہارت سے کام لے کر وہ کئی کتابوں کا مصنف بنا ہوا ہے، یعنی وہ مختلف کتابوں سے موضوعاتی یکسانیت رکھنے والی عبارتیں جمع کرکے ایک کتاب بناتا ہے،پھر اسے اپنے نام سے شائع کروالیتا ہے اور لوگ اس کی عربی دانی اور وسعتِ مطالعہ کی منھ بھر بھر کر تعریفیں کرتے رہتے ہیں۔

ہم نے اپنی طویل تدریسی زندگی میں ایسے بہت سے طالب علموں کو بھی دیکھا ہے،جنھیں تحریر و تصنیف کا ذرا تجربہ نہیں ہوتا،نہ وہ کتابوں کے مطالعے اور اخذِ معلومات کی صلاحیت رکھتے ہیں ،مگر عرصۂ طالب علمی میں ہی وہ صاحبِ کتاب بن جاتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ دورانِ سبق استاذ کے درسی افادات کو نوٹ کرتے ہیں،بعد میں ان میں کچھ حک و فک کرتے ہیں ، پھر ان سے ایک کتاب بنالیتے ہیں اور اپنے نام سے شائع کروالیتے ہیں،جن اساتذہ کے درسی افادات انھوں نے جمع کیے ہیں،ان کی طرف اشارہ بھی نہیں کرتے،نہ ان کا شکریہ ادا کرتے ،نہ انھیں اس کی اطلاع دیتے ہیں؛بلکہ کوشش کرتے ہیں کہ انھیں اس کی خبر بھی نہ لگنے پائے۔آجکل ایسی حرکتیں عام ہوچکی ہیں؛کیوں کہ نسلِ نو مروت و شرافت سے عاری ہے،خود رائی اور غرض پسندی اس کی فطرت بن چکی ہے؛چنانچہ کسی میں بھی احسان شناسی کا جذبہ نہیں پایا جاتا،بہت سے لوگ تو دنیا میں اپنی آمد کے حوالے سے اپنے والدین کا بھی احسان نہیں مانتے۔

ایسے بہت سے صلاحیت مند لوگ گزرے ہیں،جنھیں مختلف النوع انقلابات برپا کرنے، حکومتوں کو گرانے، اداروں کی انتظامیہ کو تبدیل کرنے اور قیادت کے طور طریقے میں بدلاؤ لانے کے نام پر استعمال کیا گیا اور ایسی سرگرمیوں میں غیر شعوری طور پر انھوں نے کلیدی کردار ادا کیا،جو ایک طرف تو ان کے اخلاص و بےغرضی کا ثبوت تھا اور دوسری طرف ان کی حوصلہ مندی اور بڑی بڑی مہمات کو سرکرلینے کی صلاحیتوں کا بھی نمونہ تھا،مگر یہ سب کرتے ہوئے انھیں ذرا بھی ہوا نہیں لگ سکی کہ انھیں کوئی شخص یا ادارہ اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ استعمال کرنے والے(شخص یا ادارے ) نے ان کے دل میں یہ بات جاگزیں کردی تھی کہ وہ ایسا نیک کام کررہے ہیں،جو ملک و ملت دونوں کے لیے نفع بخش ہے،جس کا اللہ تعالیٰ انھیں بڑا اجر دے گا اور عوام ان کی جدوجہد اور قربانیوں پر ان کے ممنون ہوں گے۔مگر بالآخر جب یہ مہمیں سرہوگئیں،ان کے پسِ پشت جو اہداف تھے وہ حاصل کرلیے گئے،تو انھیں اس طرح نکال باہر کیا گیا جیسے دودھ میں سے مکھی نکالی جاتی ہے یا ان کا قصہ ہی پاک کردیا گیا یا وہ زندہ تو رہے، مگر گمنام و بے نشان ہوکر۔

اس لیے ہمیں اپنے حوالے سے نہایت سنجیدہ و حساس رہنا چاہیے،اپنی آنکھیں ہی نہیں،ذہن و دل بھی کھلے رکھنے چاہئیں ؛تاکہ جانے ان جانے میں ہم کسی کی عیاری و مکاری کے ہتھے نہ چڑھ جائیں اور ایسی فہم و فراست و بصیرت کے حصول کے لیے کوشاں رہنا چاہیے ،جو حقائقِ اشیا تک پہنچائے ،خود شناسی کا شعور بخشے اور شخصی و گروہی ملمع کاریوں سے حفاظت کا وسیلہ بنے۔

(ماخوذ از : من‌ وحی الخاطر ، جلد چہارم ، ص: 264-269- ترجمہ: نایاب حسن)