رمضان المبارک رحمتوں، برکتوں اور سعادتوں کے خزانے لٹا کر… مغفرت، رحمت اور جہنم سے نجات کی بخشش و عطا کے گراں قدر تحفے بانٹ کر رخصت ہورہا ہے!
شوال کا چاند ہلالِ عید بن کر ہر آنگن میں اتر رہا ہے۔ اے اللہ! اس چاند کو ہمارے لیے امن و سلامتی، خوش حالی و فراخی کا موجب اور ایمان میں اضافے اور استقامت کا باعث بنا۔ اور سلامتئ روح و جسم، فکر و شعور اور اطاعت و فرماں برداری، تسلیم و رضا کا پیغامبر بنا۔
اور اس چاند کے ذریعے طلوع ہونے والے مہینے میں اپنی رضا و پسند کے کاموں کی توفیق سے نواز۔
اے ہلالِ عید!
ہمارا اور تمہارا آقا، پروردگار اور پالنہار، مالک و مختار، صاحب ِشان و شوکت اللہ جلِ جلالہ ہی ہے۔
عیدالفطر کی روشن صبح طلوع ہورہی ہے۔
اہلِ ایمان کو مبارک ہو۔
عید تو فقط خوشی کا نام ہے،
مگر ’’عیدالفطر‘‘ اہلِ وفا اور مردانِ صدق و صفا کے لیے مسرتوں کا پیام بھی لائی ہے اور غم کے سندیسے بھی۔
خوشی تو یہ کہ اللہ کے عائد کردہ ایک فرض کی تکمیل ہوگئی، اطاعت و بندگی کا تقاضا پورا ہوا، قرآن سننے سنانے کی سعادت حاصل ہوئی، رحمتیں سمیٹنے، مغفرت کا سامان کرنے کے مواقع ملے…
یقیناً یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔
عید… غم کا سندیسہ ہے اُن لوگوں کے لیے جو اِن دنوں اپنے رب سے قریب اور اسی کے ہوکر رہے۔ اپنے خالق و مالک کو بارہا اپنے سامنے پایا، اس کی بارگاہ میں سجودِ نیاز خم کیے، اس کے حضور اپنے سب رنج و دکھ، سب ضرورتیں اور حاجتیں، سب مرادیں اور تمنائیں پیش کرتے رہے۔
وہ سناتے رہے اور شہ رگ سے قریب آقا ان کی دعائیں، صدائیں، آہ و زاری، منت و سماجت، توبہ و استغفار سنتا رہا، قبول کرتا رہا اور اپنے بندوں کو نوازتا رہا۔
ان بندوں کے لیے قرب کے مواقع… رمضان کے شب و روز ختم ہوگئے۔ ان کے لیے عید کی رات شبِ فراق سے کم نہ ہوگی۔ رمضان کی سعادتیں پھر نصیب ہوں یا نہیں… زادِ راہ جمع کرنے کا موقع مل سکے یا دفترِ عمل لپیٹ کر رکھ دیا جائے!!
لیکن اے بندۂ مومن!
ہلالِ عید کا تیرے نام پیغام یہی ہے کہ یہ جدائی تیری آتشِ شوق کو بھڑکانے، محبوب کی یاد دل میں سجائے رکھنے، آنکھوں میں گیارہ ماہ انتظار کے دیپ جلائے رکھنے اور رمضان سے حقیقی محبت کے اظہار اور اس میں کیے گئے وعدوں کو نبھاتے رہنے کے لیے ہے۔ بلاشبہ محبت کا چراغ وصل کے مسرور کن تصور سے روشن رہتا ہے اور اس کے مطالبات، تقاضوں اور تمناؤں کو پورا کرتے رہنا کس قدر مسرت انگیز عمل ہے۔
رمضان میں محبت کرنے والے اہلِ ایمان کو اب آئندہ گیارہ ماہ اسی تصورِ جاناں میں بسر کرنے ہیں، اور وصل کی اس امید میں تڑپتے رہنا ہے… مگر شرط یہ ہے محبت کرنے والوں کے لیے کہ ان گیارہ مہینوں، عرصۂ فراق میں رمضان سے وفاداری، محبت ا
تبصرہ لکھیے