یورپ کے حالیہ دورے میں صدیوں پرانے قصبوں میں بنے ہوئے عظیم الشان گرجا گھروں کو دیکھنے کا موقع ملا۔ یہ عمارات نہ صرف تعمیراتی عظمت کا شاہکار ہیں، بلکہ اس وقت کی مذہبی جڑت، روحانی وابستگی اور معاشرتی مرکزیت کی علامت بھی ہیں۔ ہر فرقے نے اپنے نظریات کے مطابق گرجا گھر بنائے، جن میں عبادت، تعلیم، فیصلہ سازی اور سماجی ہم آہنگی کی سرگرمیاں ہوا کرتی تھیں۔
یورپ کے صدیوں پرانے چرچز نہ صرف مذہبی تاریخ کے گواہ ہیں بلکہ اعلیٰ طرزِ تعمیر اور انجینئرنگ مہارت کا شاہکار بھی ہیں۔ ان عظیم الشان عمارات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اُس دور میں، جب نہ مشینی ٹیکنالوجی تھی نہ جدید آلات، معماروں، فنکاروں اور کاریگروں نے کس قدر دقت، مہارت اور جمالیاتی بصیرت سے یہ چرچز تعمیر کیے۔ گوتھک، رومنزک، اور باروک طرزِ تعمیر میں بنے یہ گرجا گھر بلند محرابوں، رنگین شیشوں، سنگِ مرمر کی نقش نگاری اور کشادہ گنبدوں کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یورپ صدیوں پہلے ہی معماری اور فنِ تعمیر کی بلندیوں کو چھو چکا تھا۔ یہ عمارات نہ صرف مذہبی مرکز تھیں بلکہ سماجی اور فکری زندگی کی علامت بھی تھیں۔
لیکن آج وہی گرجا گھر اکثر خالی یا سیاحتی مراکز بن چکے ہیں۔ مذہب جو کبھی معاشرتی نظام کا محور تھا، اب بیشتر یورپی معاشروں میں صرف ثقافتی علامت بن کر رہ گیا ہے۔ سائنس، سیکولر ازم، اور روشن خیالی کے اثرات نے مذہب کو نجی معاملہ بنا دیا۔
یہ مشاہدہ میرے ذہن میں ایک تکلیف دہ تقابل لے آیا—اور وہ ہے مسلمان معاشروں میں موجودہ مذہبی بحران۔ آج ہمارے ہاں بھی دین اپنی اصل روح سے دور ہو چکا ہے۔ مسلکی ملا دین کو بیچنے اور فرقہ واریت کو بڑھانے میں سرگرم ہیں۔ ہر فرقہ خود کو “حق” اور دوسروں کو “گمراہ” یا “کافر” قرار دیتا ہے۔ عوام الناس کے دل میں دین کی جگہ کنفیوژن اور بے زاری نے لے لی ہے۔
اس سب کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نوجوان نسل دین کو صرف رسومات یا پرانی روایتوں کا مجموعہ سمجھنے لگی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے جو انسان کو انفرادی، اجتماعی، معاشی، اخلاقی اور سیاسی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ دین دنیا پر اثر انداز ہونے کے لیے آیا تھا، نہ کہ صرف کچھ مخصوص عبادات تک محدود رہنے کے لیے۔
اس فکری بحران کا حل “اقامتِ دین” کے تصور کو زندہ کرنا ہے۔ اقامت دین کا مطلب ہے دین کو بطور نظام نافذ و غالب کرنے کی جدوجہد۔ اس کی شروعات فکری، اخلاقی اور تعلیمی میدانوں سے ہونی چاہیے۔
یہاں علماء حق، باشعور سیاسی قیادت، اور سماجی شخصیات کا کردار بہت اہم ہے۔ اسی طرح اساتذہ، محققین اور جامعات میں بیٹھے دانشوروں کو نئی نسل کو دین کی اصل فکری، انقلابی اور عملی صورت سے آشنا کرنا ہوگا۔
یورپ سے سیکھنے کی سب سے بڑی بات یہی ہے کہ اگر ہم نے بھی مذہب کو صرف رسومات تک محدود کر دیا، اور اس کے اصل پیغام کو نظرانداز کیا، تو ہم بھی وہی زوال دیکھیں گے جو مغرب نے کئی صدیوں پہلے دیکھا۔
اب وقت ہے کہ دین کو دوبارہ زندگی کے مرکز میں لایا جائے، فکری بیداری کو عام کیا جائے، اور وحدت، عدل اور علم پر مبنی معاشرہ تشکیل دیا جائے
تبصرہ لکھیے