جب سے لاہور میں ای چالان کاشورو غوغہ ہوا ہے اور سوشل میڈیا پر کچھ اس طرح کی ویڈیوز اپ لوڈ ہوئی ہیں، جن میں بتلایا گیا ہے کہ لاہور کے کئی رکشہ یا گاڑی ڈرائیور پر بیسیوں ای چالان ہو چکے ہیں اور انھیں اس بارے علم ہی نہیں۔ وہ جب کبھی پولیس کے ہتھے چڑھتے ہیں تو پھر ان کی گاڑی قبضے میں لے لی جاتی ہے اور اس وقت تک چھوڑی نہیں جاتی، جب تک وہ چالان کی رقم جمع نہیں کروا دیتے اور بلا مبالغہ وہ رقم کئی معاملوں میں پچاس ساٹھ ہزار ، حتٰی کہ لاکھ کی فگر کو بھی کراس کر جاتی ہے۔
یہ سب کچھ دیکھ کر پریشانی سی ہونے لگی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ میں اس سے پہلے دبئی میں ای چالان کا نظام دیکھ چکا تھا اور مجھے اس بارے ملک امجد اعوان اور ملک احسن نے کافی بریف کیا ہوا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی گاڑیوں کا اگر”ای چالان“ ہوتا ہے اور انھیں کسی وجہ سے اس کا علم نہیں ہو پاتا تو اس چالان کی رقم پر ایک مخصوص مدت کے بعداضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔اور پھر جب بھی یہ گاڑی سالانہ مینٹینس سرٹیفکیٹ کے لیے جاتی ہے یا یہ گاڑی بیچنا ہوتی ہے تو اس وقت سب سے پہلے ان چالانوں کی رقم کلیئر کروانا پڑتی ہے۔ دوسرا یہ کہ میں اکثر اوقات گاڑی پر لاہور جاتا رہتا ہوں اور صاف ظاہر ہے کہ علم نہ ہونے کے باعث ای چالان کی جانب تو ہمیں کچھ اندازہ بھی نہ ہے۔ اس لیے فکر ہونے لگی کہ کہیں ہماری گاڑی بھی اس چالان کی زد میں نہ چکی ہو۔ کچھ باخبر لوگوں سے معلومات لیں تو انھوں نے بتلایا کہ ای چالان کا پتہ چلانا کوئی مشکل کام نہ ہے۔ بس ایک ایپ ”e pay punjab“ انسٹال کرنا ہوگی اور اس میں تمام تفصیلات موجود ہوں گی۔ بہر حال پلے سٹو ر سے”ایپ“ڈاؤن لوڈ کر لی اور اپنی گاڑی کا نمبر ڈال کر چیک کیا تو یہ پتہ چلا کہ ہماری گاڑی ابھی تک اس چالان کی نعمت سے محروم ہے۔ تسلی ہو گئی۔
لیکن گزشتہ روز اس وقت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب میں نے اپنے موبائل پر ایک میسیج دیکھا۔ یہ میسیج 03704863622 نمبرسے آیا تھا۔ میسج انگلش میں تھا۔ اور پیغام کے شروع میں لفظ پولیس لکھا ہوا تھا۔ جس کا مطلب یہ ظاہر کرنا تھا کہ یہ میسیج پولیس کی جانب سے بھیجا گیا ہے۔ میسیج کا لب لباب یہ تھا کہ بحوالہ ریفرنس PK 3875785, آپ کا ایک تین سو روپے کا ٹریفک جرمانہ ابھی تک ادا نہیں ہوا۔اسے ہماری ویب سائیٹ کے ذریعے ادا کردیں تا کہ آپ سر چارج سے بچ سکیں۔ نیچے ویب سائیٹ کا پتہ بھی درج تھا۔ اب نہ تو اس میسیج پر کوئی تفصیل درج تھی کہ یہ چالان کب ہوا تھا؟؟ کہاں ہوا تھا؟ کسی گاڑی کا ہوا تھا یا موٹر سائیکل کا؟ سچی بات ہے کہ یہ میسیج پڑھ کر پتہ نہیں کیوں مجھے لگ رہا تھا کہ یہ میسج فیک ہے۔ اور اب اس میسیج کے ذریعے مجھ سے پیسے ہتھیانے کی کوشش کی جائے گی۔ میرے ذہن میں یہ بات بھی تھی کہ اگر یہ میسج درست ہے تو صرف تین سو روپے کا جرمانہ ہی تو ہے، ادا کردیں گے۔
بہر حال میں نے اس میسج کی تہہ تک جانے کی کوشش کی گو کہ مجھے یہ ڈر بھی لگ رہا تھا کہ کہیں تہہ تک جاتے جاتے میں اپنا بینک اکاؤنٹ ہی خالی نہ کروا لوں۔ میسیج میں دی گئی ویب سائیٹ کھولی تو اس پر گورنمنٹ آف پاکستان کا لوگو بنا ہوا تھا(لوگوں کو بے وقوف بنانے کا آسان طریقہ)۔ اس ویب سائٹ میں بتلایا گیا تھا کہ میں نے کسی پارکنگ میں گاڑی غلط کھڑی تھی۔اس لیے مجھے تین سو روپے کا جرمانہ فوری ادا کرنا ہو گا، ورنہ یہ جرمانہ چھ سور وپے ہو جائے گا۔ نیچے اس میسیج کو مزید قابل قبول بنانے کی خاطر ایک آٹھ ہندسوں پر مشتمل ”فائل نمبر“ بھی دیا گیا تھا۔اور میسیج کے بالکل آخر میں proceed with payment کے الفاظ درج تھے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اس بٹن پر کلک کی۔ تو ایک نئی ونڈو کھل گئی جس میں میرا نام، کارڈ نمبر، کارڈ کی ایکسپائری ڈیٹ اور کارڈ کا سیکورٹی کوڈ مانگا گیا تھا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر میرا اس بات پر یقین پختہ ہو گیا کہ یہ کوئی بہت بڑا سکیمرہے۔ اگر میں یہ تمام معلومات درج کر دیتا تو میرا اکاؤنٹ اس سکیمر کے قبضے میں چلا جاتا اور میں بے بسی کے عالم میں اپنے بینک اکاؤنٹ کو لٹتا ہوا دیکھتا رہتا اور کچھ کرنے کے قابل نہ ہوتا۔
میں نے اپنی تسلی کی خاطر اپنی”پنجاب ای پیمنٹ“ والی ایپ دوبارہ کھولی اور ایک بار پھر چیک کرنے کی کوشش کی کہ آیا میرے موجودہ لاہور کے وزٹ میں گاڑی کا کوئی چالان تو نہیں ہوا۔ یہ ایپ اب بھی یہی بتلا رہی تھی کہ میری گاڑی کا اب تک کوئی ای چالان نہیں ہوا۔ بہر حال مزید کنفرمیشن کی خاطر میرے ذہن میں ایک خیال آیا اور میں نے ”چیٹ جی پی ٹی“ کا سہار ا لینے کا فیصلہ کر لیا۔ ویسے مجھے قوی یقین تھا کہ چیٹ جی پی ٹی اس سلسلے میں میری کسی قسم کی کوئی مدد نہ کرپائے گی۔ بہر حال میں نے اپنے موبائل سے میسج ٹائپ کر کے چیٹ جی پی ٹی میں ڈال دیا اور چیٹ جی پی ٹی سے یہ استفسار کیا کہ آیا یہ میسج اصلی ہے یا فیک۔اب چیٹ جی پی ٹی نے مجھے جو کچھ بتلایا۔ وہ آپ بھی سنیں اور پھر سوچیں کہ چیٹ جی پی ٹی کا دم ہمارے لیے کس قدر اہمیت کا حامل ہے اور ہم اس کے ذریعے سے اپنے کتنے مسائل چٹکیوں میں حل کر کے اپنا وقت بچا سکتے ہیں۔
چیٹ جی پی ٹی کا کہنا تھا کہ
1۔ بادی النظر میں یہ میسیج ایک Scamدکھائی دیتا ہے۔کیوں کہ گورنمنٹ کی ایجنسیاں فائن کی اطلاع اس طرح کے ٹیکسٹ میسج سے نہیں دیتیں۔ یہ ایجنسیاں یا تو آفیشل لیٹر لکھتی ہیں یا کسی ویریفائیڈ ایپ کے ذریعے اس جرمانے کی اطلاع دی جاتی ہے۔
2۔ اس میسیج میں جو لنک دیا گیا ہے، وہ تصدیق شدہ نہیں ہے اور فیک دکھائی دیتا ہے۔
3۔ اس میسیج میں فائن کی رقم بہت کم ہے، اور سکیمر عمومی طور پر فائن کی رقم کم بتلاتے ہیں تا کہ کلائنٹ کو یہ رقم ادا کرنے میں کوئی ہچکٹاہٹ یا دشوار ی نہ ہو۔
4۔ اس فائن کے میسیج سے پہلے مجھے کسی قسم کا کوئی نوٹس نہیں دیا گیا جو کہ قانونی لحاظ سے قابل قبول نہیں۔
چنانچہ چیٹ جی پی ٹی کی ہدایت تھی کہ میں یہ جرمانہ ادا کرنے کی کوئی کوشش نہ کروں۔ اس نمبر بارے اعلیٰ حکام کو مطلع کروں اور سرکاری ویب سائٹ سے جرمانے کی تفصیل تلاش کرنے کی کوشش کروں۔ بہر حال چیٹ جی پی ٹی کی اس بات کو تو میں نے عمل کے قابل بالکل بھی نہیں سمجھا کہ میں اس نمبر بارے اعلیٰ حکام کو مطلع کروں کیوں کہ گزشتہ کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر اس قسم کے کاروبار کی دھڑلے سے پنپتا دیکھ کر میں نے تو یہ اندازہ لگا لیا ہے کہ اس کاروبار کو بڑھاوا دینے میں ہمارے اداروں کا پورا پورا ہاتھ شامل ہے اور ان اداروں کی آشیر باد کے بغیر اس قسم کے کاروبار کی اتنی تیزی سے ترقی کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔اگر میں نے یہ نمبر اعلیٰ اداروں کے حوالے کر بھی دیا تو انہوں نے اس پر کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کرنی، تو بہر حال چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے یہ فراڈ کی کوشش اپنے اختتام کو پہنچی۔
میرا یہ سب کچھ تحریر کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ آج کل سب سے زیادہ کامیاب کاروبار سوشل میڈیا کے ذریعے ہو رہے ہیں اور یہ دھوکہ دہی اور فراڈ پر مشتمل ہیں۔ سوشل میڈیا اس مزموم کاروبار کا سب سے بڑا پروموٹر ہے۔اس لئے کوشش کریں کہ سوشل میڈیا پر ہونے والے ایسے کسی بھی کاروبار سے کوسوں دور رہیں اور اس طرح اپنے بینک اکاؤنٹس کو اپنی غلطیوں سے خالی ہونے سے بچائیں.
تبصرہ لکھیے