ایک بات میں نے سکول ایج میں سیکھ لی تھی کہ بغیر انتہائی ضرورت کے کسی کی مدد نہیں لینی۔ شہر کے دوسرے کونے پر کام ہو تو بھی کسی کی جاب سے چھٹی کروا کر اس کی ہمراہی میں نہیں جانا۔ میرا کام ہے مجھے کرنا ہے۔ اس ایک عادت کی وجہ سے میں منتیں ترلے کر کر کے اپنے کاموں کے لئے دوسروں کا وقت لینے کی التجائیں کرنے سے آ زاد ہو گئی تھی۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ ہم بغیر انتہائی ضرورت کے مدد مانگتے ہیں۔ مدد تو مل جاتی ہے لیکن کوشش کریں کہ جتنا ممکن ہو کسی کو زحمت نہ دیں ۔ ہاں جہاں بالکل ہی عاجز ہوں وہاں مدد کی درخواست کر سکتے ہیں۔ آ پ کو پیاس لگی ہے کسی کو آ واز دے کر اس سے پانی نہ منگوائیں۔۔اللہ تعالیٰ نے آ پکو سکت دی ہے خود اٹھ کر پانی پی لیں۔ جب سکت نہیں ہو گی تب پی لینا دوسروں کے ہاتھوں سے۔ یہ بہت چھوٹی مثال ہے۔۔اسے آ پ اپنی زندگی کے ہر گوشے پر اپلائی کر سکتے ہیں۔
چھوٹی چھوٹی باتیں جو متعلقہ گروپس میں پوچھی جا سکتی ہیں ان کے لئے کسی کو ڈائریکٹ میسج کر کے نہ پوچھیں۔ گوگل اور انٹرنیٹ موجود ہے , سب سے پہلی مدد اسی سے لیں ۔ جتنا ممکن ہے جتنا خود کو مشقت میں ڈال سکتے ہیں اتنا ڈالیں۔ سیکھنے کا بہترین طریقہ ایکٹوٹی بیسڈ لرننگ ہے۔ ہاتھ سے کیا ہوا کام نہیں بھولتا۔ کوشش کریں بار بار کریں۔ جب سو بار کوشش کر کے بھی سمجھ نہ آ ئے تب پوچھیں۔ اس وقت آ پکا سوال ایک ذہین سوال ہو گا۔ جواب دینے والے کو بھی اچھا لگے گا۔
کجا یہ کہ دریافت کریں میں کچھ کرنا چاہتا ہوں بتائیں میں کیا کروں؟ آ پ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آ پ کیا کر رہے ہیں اور اس سفر میں کس جگہ ڈیڈ لاک ہے اور اس ڈیڈ لاک کو توڑنے کے لئے مدد مانگیں ۔ مدد مانگنے کا بھی وقت ہوتا ہے، ہر وقت بلا ضرورت مانگنے والا اپنا احترام کھو دیتا ہے۔
مالی مدد بھی انتہائی ضرورت کے لئے مانگیں ۔عزیزوں کی شادی میں جانا ، شادی کرنا ، شاپنگ کرنا ، مہمانداری کرنے کے لئے رقم درکار ہےیہ سب ایمرجنسی نہیں ہے۔ اچانک کوئی صحت کا مسئلہ ہو گیا یہ ایمرجنسی ہے۔ بغیر ایمرجنسی مالی مدد نہ لیں ۔ مدد مل بھی گئی تو احترام جاتا رہے گا۔
تبصرہ لکھیے