ہوم << اے ابنِ آدم، اپنا کائناتی شجرہ دیکھ - بلال شوکت آزاد

اے ابنِ آدم، اپنا کائناتی شجرہ دیکھ - بلال شوکت آزاد

سائنس اور مذہب، دونوں صدیوں سے انسان کی اصل پر بحث کرتے رہے ہیں۔ کچھ اسے ارتقاء کی پیداوار سمجھتے ہیں، تو کچھ کے نزدیک یہ ایک برتر ہستی کی تخلیق ہے۔ لیکن اگر انسان واقعی زمین کا باسی نہیں تو پھر وہ کون ہے؟ کہاں سے آیا؟ اور کیا اسے کسی جرم کی پاداش میں یہاں بھیجا گیا؟

یہ سوالات ہمیشہ فلسفہ، سائنس اور روحانیت کے مابین ایک گرما گرم بحث کا باعث رہے ہیں۔ مگر اب ایک امریکی ایکولوجسٹ، ڈاکٹر ایلس سلور، نے اپنی کتاب "Humans Are Not From Earth" میں ایک تہلکہ خیز نظریہ پیش کیا ہے کہ انسان زمین کا باشندہ نہیں، بلکہ اسے کسی دوسرے سیارے سے یہاں لایا گیا. یہ نظریہ محض قیاس نہیں، بلکہ اس کے پیچھے سائنسی مشاہدات، انسانی جسمانی ساخت، زمین کے ماحول سے مطابقت کے مسائل، اور تاریخ کے کچھ انتہائی پراسرار حقائق موجود ہیں۔

کیا زمین انسان کے لیے ایک جیل ہے؟
ڈاکٹر سلور کے مطابق، انسانی جسم اس سیارے کے لیے بالکل موزوں نہیں۔ زمین کے دوسرے جانداروں کی نسبت، انسان یہاں مسلسل بیماریوں، جسمانی کمزوریوں اور ماحولیاتی چیلنجز کا شکار رہتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "انسان کا جسم زمین کے قدرتی حالات کو پوری طرح قبول نہیں کرتا۔ وہ واحد مخلوق ہے جو اپنی بقا کے لیے مسلسل مصنوعی ذرائع پر انحصار کرتی ہے—چاہے وہ کپڑے ہوں، ادویات، گھر، یا ٹیکنالوجی۔" یہ دلیل اس نظریے کو تقویت دیتی ہے کہ زمین شاید ہمارے لیے قدرتی مسکن نہیں، بلکہ ایک "کالا پانی" جیسی جیل ہے، جہاں ہمیں کسی جرم کی پاداش میں جلاوطن کیا گیا۔

انسانی جسم اور زمین کا تضاد
ڈاکٹر سلور نے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کچھ سائنسی نکات پیش کیے ہیں:
1. کششِ ثقل کا مسئلہ:
انسان کو اکثر کمر درد، جوڑوں کے مسائل اور وزن بڑھنے کی شکایات ہوتی ہیں، جبکہ زمین کے دوسرے جانداروں میں یہ مسائل نہیں پائے جاتے۔ کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ زمین کی کششِ ثقل انسان کے لیے بہت زیادہ ہے۔ اگر انسان واقعی یہیں پیدا ہوا ہوتا، تو اس کا جسم کششِ ثقل کے مطابق ڈھل چکا ہوتا۔ مگر اس کے برعکس، ہم دیکھتے ہیں کہ انسان اکثر تھکاوٹ، جوڑوں کے مسائل اور کمزور ہڈیوں کی شکایت کرتا ہے۔

2. سورج کی روشنی اور انسانی جلد:
زمین کے تمام جاندار سورج کی روشنی میں بغیر کسی مسئلے کے رہ سکتے ہیں۔ مگر انسان واحد مخلوق ہے جو زیادہ دیر سورج میں رہنے پر سن اسٹروک، جلدی امراض، اور یہاں تک کہ کینسر کا شکار ہو سکتا ہے۔ اگر زمین واقعی ہمارا آبائی سیارہ ہوتا، تو ہمارا جسم سورج کی روشنی کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا۔ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔

3. بیماریاں اور انسانی مدافعتی نظام:
زمین پر پائے جانے والے بیشتر جاندار اپنے قدرتی ماحول میں بہت کم بیمار ہوتے ہیں۔ مگر انسان؟ وہ پیدائش سے لے کر بڑھاپے تک ہزاروں بیماریوں کا شکار رہتا ہے۔ یہی نہیں، بلکہ ہمارے جسم میں بہت سی ایسی الرجیز ہیں، جو زمین پر کسی اور مخلوق میں نہیں پائی جاتیں!

4. ماحولیاتی حساسیت:
زمین کے دوسرے جاندار سردی، گرمی، برفباری اور تیز ہوا میں بغیر کسی مسئلے کے زندہ رہتے ہیں۔ مگر انسان؟ اسے گرمی میں ایئر کنڈیشنر، سردی میں ہیٹر، اور برسات میں چھتری چاہیے۔ یہاں سوال اٹھتا ہے—اگر یہ سیارہ ہمارا اصل وطن ہوتا، تو ہمیں ان سب مصنوعی سہولیات کی ضرورت کیوں پیش آتی؟

5. پردیسی پن کا احساس:
کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ اکثر انسان بغیر کسی وجہ کے اداسی، بےچینی اور بےقراری کا شکار رہتے ہیں؟ ڈاکٹر سلور کے مطابق، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری روح کہیں اور سے آئی ہے۔ ہماری جینیاتی یادداشت ہمیں بار بار یہ احساس دلاتی ہے کہ یہاں ہمارا گھر نہیں!

کیا آدم علیہ السلام کو زمین پر سزا کے طور پر بھیجا گیا؟
ڈاکٹر سلور کے اس نظریے پر اگر مذہبی نقطۂ نظر سے غور کریں، تو ہمیں قرآن، بائبل اور دیگر الہامی کتابوں میں اس کا واضح ذکر ملتا ہے۔ قرآن میں اللہ فرماتے ہیں: "ہم نے آدم اور حوا کو جنت میں رکھا، مگر جب انہوں نے ممنوعہ درخت کا پھل کھا لیا، تو انہیں زمین پر بھیج دیا گیا!"

کیا زمین واقعی سزا کے طور پر دی گئی ایک جیل ہے؟
اگر ہم اس نظریے کو تسلیم کر لیں، تو یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا اصل وطن کہاں تھا؟

کیا ہم کسی دوسرے سیارے سے آئے ہیں؟
بہت سے سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ انسان کے ڈی این اے میں ایسی علامات موجود ہیں، جو کسی دوسرے سیارے کی مخلوق کے ساتھ تعلق ظاہر کر سکتی ہیں۔ ناسا کے ماہرین نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ انسانی جینیات میں کچھ ایسے اجزاء ہیں، جو زمین کے کسی بھی دوسرے جاندار میں نہیں پائے جاتے۔

کیا زمین ہمارے لیے ایک آزمائشی مرکز ہے؟
اگر مذہب کی روشنی میں دیکھیں، تو ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ دنیا ایک آزمائش ہے۔ اگر ڈاکٹر سلور کے نظریے کو ان مذہبی تعلیمات کے ساتھ جوڑا جائے، تو ایک دلچسپ تصویر بنتی ہے. انسان کی اصل جنت میں تھی, کسی غلطی کی وجہ سے اسے زمین پر بھیجا گیا, یہاں زندگی ایک آزمائش ہے, انسان کو دوبارہ اپنے اصل مقام پر واپس جانے کے لیے نیکیوں کا راستہ اپنانا ہوگا!

ارتقاء یا تخلیق؟
یہ نظریہ ایک اور بڑی بحث کو جنم دیتا ہے—کیا انسان ارتقاء کا نتیجہ ہے، یا کسی اعلیٰ مخلوق نے اسے تخلیق کیا؟ ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے مطابق، انسان بندر کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے، مگر ڈاکٹر سلور کی تحقیق اس کے برعکس کچھ اور کہتی ہے۔ اگر ہم انسانی ذہانت، زبان، آرٹ، اور سائنس کو دیکھیں، تو یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ سب محض ارتقائی عمل کا نتیجہ ہیں۔

کیا سائنس مذہب کے قریب ہو رہی ہے؟
یہ بات دلچسپ ہے کہ آج جدید سائنس ان چیزوں کو تسلیم کر رہی ہے، جو ہزاروں سال پہلے مذہبی کتابوں میں لکھی گئی تھیں۔ سائنس کہہ رہی ہے: "انسان زمین کا نہیں، اسے کہیں اور سے یہاں لایا گیا!" مذہب کہتا ہے: "انسان جنت میں تھا، اور اسے زمین پر بھیجا گیا!" کیا یہ محض اتفاق ہے، یا پھر سائنس اور مذہب ایک ہی منزل کی طرف جا رہے ہیں؟

ڈاکٹر ایلس سلور کے نظریے پر جتنا بھی غور کریں، یہ مزید گہرے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ کیا انسان واقعی کسی اور سیارے سے آیا؟ کیا زمین ایک جیل ہے؟ کیا ہم کسی بڑی مخلوق کی تخلیق ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر—کیا ہم اپنے اصل گھر واپس جا سکتے ہیں؟

یہ وہ سوالات ہیں، جن پر ابھی تحقیق جاری ہے، اور شاید مستقبل میں سائنس کے پاس ان کے جوابات ہوں!

نوٹ: یہ تحریر سائنسی تحقیقات، مذہبی تعلیمات، اور مختلف نظریات پر مبنی ہے۔ حتمی حقیقت کیا ہے، اس کا فیصلہ وقت کرے گا!

Comments

Avatar photo

بلال شوکت آزاد

بلال شوکت آزاد تجزیاتی و فکری طور پر بیدار اور بے باک، مصنف، کالم نگار اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں۔ ان کی تحاریر معاشرتی، سیاسی اور عالمی امور پر گہری تحقیق، منطقی استدلال اور طنزیہ انداز کے امتزاج سے مزین ہوتی ہیں۔ اپنے قلم کو ہمیشہ سچائی، انصاف اور فکری آزادی کا علمبردار سمجھتے ہیں

Click here to post a comment