ہوم << یروشلم خیر وبرکت والی سرزمین - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

یروشلم خیر وبرکت والی سرزمین - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

‎فلاویس کے مطابق یروشلم کو پرانی مصری تختیوں میں Urusalim یروشالم کے نام سے لکھا گیا ہے، جس کا مطلب ہے شالم کا شہر . شالم قدیم کنعانیوں کا اندھیرے کا خدا تھا ۔ ولیم ایف البرائیٹ William F Albright نے اپنی کتاب Yahweh and the gods of Canaan میں لکھا ہے کہ ”کنعانی دو خداؤں کی پوجا کرتے تھے Salim اندھیرے کا خدا ‏(God of Dust)تھا اور شحر Shahar روشنی کا خدا ‏ god of the dawn تھا .“ یہودیوں کی مقدس کتاب توریت (عبرانی بائبل ) کی پہلی جلد ” کتاب پیدائش Book of Genesis “ میں اسے سالم Salem کہا گیاہے جس کے معنی ”سلامتی کے شہر “ کے ہیں ۔

اسے پیغمبروں کا شہر بھی کہا جاتا ہے ۔قرآن میں بار بار اس کا ذکر برکت اور خیر والی سرزمین کے طور پر آیا ہے۔یہاں کم از کم پندرہ پیغمبروں کے مزار ہیں۔ یہ شہر تینوں الہامی اور ابراہیمی مذاہب یہودیوں عیسائیوں اور مسلمانوں کے لئے یکساں طور پر مقدس ترین شہر کی حیثیت رکھتا ہے ۔

یہودیت میں یروشلم کی اہمیت
یہودیوں کے لیے یروشلم ان کے مقدس ترین شہر کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام نے پہلا ہیکل (Temple) تعمیر کیا تھا، جو یہودیوں کے لیے عبادت کا سب سے مقدس مقام تھا۔ بعد میں دوسرا ہیکل بھی یہیں تعمیر کیا گیا، جسے 70 عیسوی میں رومیوں نے تباہ کر دیا۔ آج بھی یہودی ”دیوارِ گریہ“ (Western Wall) کو مقدس سمجھتے ہیں، جو دوسرے ہیکل کی باقیات میں سے ہے اور جہاں وہ عبادت کرتے ہیں۔

عیسائیت میں یروشلم کی اہمیت
عیسائیوں کے نزدیک یروشلم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی، ان کی تعلیمات، مصلوب ہونے اور قیامت کے بعد دوبارہ جی اُٹھنے کا مقام ہے۔ ”کلیسائے مقبرہ مقدس“ (Church of the Holy Sepulchre) عیسائیوں کے لیے ایک نہایت مقدس مقام ہے، کیونکہ یہ وہ جگہ سمجھی جاتی ہے جہاں حضرت عیسیٰ کو مصلوب کیا گیا اور دفن کیا گیا تھا۔

اسلام میں یروشلم کی اہمیت
اسلام میں یروشلم کو تیسرا مقدس ترین شہر مانا جاتا ہے، مکہ اور مدینہ کے بعد۔ قرآن اور حدیث کے مطابق، رسول اللہ ﷺ نے معراج کی رات مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ کا سفر کیا اور وہاں سے آسمانوں کی سیر کی۔ اسی لیے مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس مقامات ہیں۔ بیت المقدس اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں کا پہلا قبلہ بھی رہا، یہاں تک کہ قبلہ مکہ مکرمہ کی طرف منتقل کر دیا گیا۔

ہجرت سے دو سال پہلے اور نبوت ملنے کے دس سال بعد غالباً 621ء میں نبی کریم ﷺ واقعہ الاسراء کے موقع پر براق پر سوار ہو کر مکہ سے بیت المقدس پہنچے، اور پھر وہاں سے معراج پر تشریف لے گئے تو اس وقت یروشلم پر ایرانیوں کی حکومت تھی اور ماؤنٹ ٹمپل پر کوئی عمارت یا عبادت گاہ نہیں تھی، بلکہ اس وقت وہ ایک چٹیل میدان یا بہت بڑا چبوترہ تھا جس کے عین درمیان میں وہ چٹان تھی جس پر کبھی تابوت سکینہ رکھا ہوتا تھا اور سکینڈ ٹمپل کی کچھ باقیات کھنڈرات کی صورت میں موجود تھیں۔

ماؤنٹ ٹمپل پر تمام انبیاء اکرام نے آپ ﷺ کی امامت میں نماز ادا کی. یہ تو تاریخ کی سب کتابوں میں ثابت ہے اور ہمارے ایمان کا حصہ ہے لیکن کہاں ادا کی اور کیا اس وقت وہاں پر کوئی عبادت گاہ موجود تھی، اس پر اختلاف ہے، لیکن تاریخی اعتبار سے یہی ثابت ہے کہ وہاں صرف سکینڈ ٹمپل کی باقیات تھیں۔ معراج کی رات اسی چٹان پر چڑھ کر براق نے آسمان کی طرف جست بھری تھی اس لیے مسلمان اس چٹان کو صخرہ معراج کے نام سے یاد کرنے لگے ۔

قرآن کریم میں اس رات کا ذکر خیر اس طرح آیا ہے ﴿سُبْحَانَ الَّذِی اَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصیٰ الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ﴾ (سورہٴ الاسراء آیت 1) پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندہ کو رات ہی میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا، جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے۔

(میری آنے والی کتاب ”اہل وفا کی بستی “ سے اقتباس)