ہوم << ریکارڈنگ آن ہے! عاطف ہاشمی

ریکارڈنگ آن ہے! عاطف ہاشمی

ہماری روزمرہ کی زندگی میں نگرانی (Surveillance) کا تصور اب نیا نہیں رہا۔ ہر جگہ کیمرے لگے ہیں، ہر کسی کے پاس موبائل فون ہے جو ہر گفتگو ریکارڈ کر سکتا ہے، اور ڈیجیٹل دنیا میں ہمارا ہر عمل کسی نہ کسی شکل میں محفوظ ہو رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم اکثر یہ حقیقت نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اس سے کہیں زیادہ جامع نگرانی بھی جاری ہے جس میں نہ صرف جسمانی اعمال بلکہ نیتیں، خیالات، اور ارادے تک بھی ریکارڈ ہو رہے ہیں۔ سورہ زمر، سورہ مومن، اور سورہ فصلت اسی خدائی نگرانی کے تصور کو تفصیل سے بیان کرتی ہیں، اور بتاتی ہیں کہ "ریکارڈنگ آن ہے!"
سورہ زمر: ایک اللہ کی پرستش یا لامحدود خواہشات ومختلف نظریات کی؟

سورہ زمر کا بنیادی پیغام اللہ کی وحدانیت اور خالص توحید کی دعوت ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اپنی قدرت کی نشانیاں دکھا کر یہ باور کرایا ہے کہ عبادت اور بندگی کا اصل حق دار صرف وہی ہے۔ سورت کی ابتدائی آیات میں زمین و آسمان کی تخلیق، دن اور رات کی تبدیلی، اور بارش کے ذریعے مردہ زمین کو زندہ کرنے جیسے دلائل پیش کیے گئے ہیں، تاکہ انسان غور و فکر کرے اور اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے یہ تسلیم کرے کہ اللہ ہی ہر چیز کا مالک ہے۔ اللہ کی معرفت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کائنات میں بکھری ہوئی ان نشانیوں پر تدبر کرے اور اپنی زندگی کو اسی کے حکم کے مطابق گزارے۔

سورہ زمر میں ایک نہایت مؤثر مثال کے ذریعے اخلاص اور شرک کا فرق واضح کیا گیا ہے اور انسان کے سامنے ایک اہم سوال رکھا گیا ہے کہ: وہ غلام جس کے کئی مالک ہوں، جو ہر وقت اسے مختلف احکام دیتے ہوں، اور وہ غلام جو ایک ہی آقا کے تابع ہو کیا ان دونوں میں کوئی فرق نہیں؟ یہ سوال ہمارے لیے ایک آئینہ ہے کہ کیا ہم دنیا کی مختلف طاقتوں، خواہشات، اور نظریات کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، یا اخلاص کے ساتھ صرف ایک اللہ کی بندگی کر رہے ہیں؟ "اللہ ایک مثال دیتا ہے: ایک آدمی جس کے کئی جھگڑالو مالک ہوں اور ایک آدمی جو صرف ایک ہی شخص کا غلام ہو، کیا دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟" (39:29). یہ مثال اس بات کو سمجھانے کے لیے دی گئی ہے کہ جو شخص خالص اللہ کی بندگی کرتا ہے، اس کا دل مطمئن ہوتا ہے، جبکہ جو شخص شرک میں مبتلا ہوتا ہے، وہ ہمیشہ الجھنوں کا شکار رہتا ہے۔ اسی لیے اللہ نے اپنے بندوں کو تاکید کی کہ وہ صرف اسی کی بندگی کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں، کیونکہ شرک انسان کی دنیا و آخرت دونوں کو برباد کر دیتا ہے۔

مزید برآں، اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو تسلی دی ہے کہ اگر وہ گناہ کر بیٹھیں، تو انہیں اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ خاص طور پر ان لوگوں کو امید دلائی گئی ہے جو اپنی زندگی میں بڑی خطائیں کر چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے! اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو، یقیناً اللہ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے۔" اس آیت میں اللہ کی وسیع رحمت کو بیان کیا گیا ہے اور گناہ گاروں کو بخشش کی بشارت دی گئی ہے، لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ سچے دل سے توبہ کریں اور اپنی اصلاح کریں۔
سورت کے اختتام پر ان لوگوں کے انجام کا ذکر کیا گیا ہے جو ایمان و اخلاص کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور ان کا بھی جو کفر اور شرک میں مبتلا رہتے ہیں۔ ایمان والے قیامت کے دن خوشی اور عزت کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے، جہاں انہیں کسی قسم کا خوف اور غم لاحق نہیں ہوگا، جبکہ کافر اور مشرک جہنم میں ڈالے جائیں گے، جہاں ان پر اللہ کا سخت غضب نازل ہوگا۔

2. سورہ مومن: قابل تقلید تبلیغی بھائی:
سورہ مومن میں اللہ تعالیٰ نے دعوتِ دین کے مختلف اسالیب بیان کیے ہیں، خاص طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے واقعے کو تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ اس سورت میں ایک عام تبلیغی بھائی کے حکمت سے بھرپور اندازِ دعوت کو نمایاں کیا گیا ہے، جسے "مردِ مومن" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ شخص فرعون کے دربار میں موجود تھا، لیکن اس نے اپنا ایمان چھپایا ہوا تھا۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کی سازش تیار کی جا رہی تھی، تو اس مردِ مومن نے اس قدر عقل مندی، حکمت و بصیرت اور ہمدردی کے ساتھ نہایت منطقی انداز میں فرعون کے درباریوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اس کا یہ انداز اللہ نے قرآن میں بطور مثال پیش کیا۔

اس مردِ مومن نے اپنی گفتگو کا آغاز نہایت حکیمانہ انداز میں کیا۔ اس نے سب سے پہلے عقل و منطق سے اس حقیقت کو واضح کیا کہ اگر موسیٰ علیہ السلام جھوٹے ہوئے، تو ان کا نقصان انہی کو ہوگا، لیکن اگر وہ سچے ہوئے، تو ان کی مخالفت کرنے والوں کو شدید نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اور اس عقلی دلیل کے ذریعے اس نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کو سوچنے پر مجبور کیا کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف جلد بازی میں کوئی ایسا اقدام نہ کریں جو ان کے حق میں نقصان دہ ثابت ہو۔ فان یک کاذبا فعلیہ کذبہ، وان یک صادقا یصبکم بعض الذی یعدکم

اس کے بعد مردِ مومن نے نہایت نرمی اور ہمدردی کے جذبات کے ساتھ اپنی قوم کو نصیحت کی۔اور اس مرتبہ تاریخی مثالیں پیش کیں تاکہ لوگوں کو متنبہ کرے کہ ماضی میں بھی جو قومیں اپنے رسولوں کو جھٹلاتی رہیں، وہ ہلاک ہو گئیں۔ اس نے کہا: "اے میری قوم! میں تمہارے لیے ڈرتا ہوں کہ کہیں تم پر پچھلی قوموں جیسا عذاب نہ آ جائے۔" یہاں اس شخص نے نہایت شائستہ انداز میں اپنی قوم کو سمجھایا کہ وہ اپنی ضد پر اڑے رہنے کے بجائے سچائی کو قبول کریں، ورنہ ان کا انجام بھی پچھلی نافرمان قوموں کی طرح ہوگا۔ اس کے بعد اس نے ان پر کوئی زور زبردستی نہیں کی، نہ ہی تشدد کی راہ اپنائی بلکہ اس انتہائی نرمی سے معاملے کو اللہ کے سپرد کرتے ہوئے کہا: "میں اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کرتا ہوں، بے شک اللہ اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے۔" (40:44)

اس سورت میں دعا کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔" اس آیت میں دعا کی طاقت کو بیان کیا گیا ہے اور انسانوں کو اللہ کی طرف رجوع کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ہر حال میں اللہ سے دعا کرتا رہے، کیونکہ اللہ ہی وہ ذات ہے جو ہر چیز پر قادر ہے اور ہر مشکل کو آسان کر سکتا ہے۔

3. سورہ فصلت (حم سجدہ): قیامت میں اعضا کی گواہی:
سورہ فصلت میں اللہ کی قدرت، ماضی کی نافرمان اقوام کا انجام، اور قیامت کے دن انسان کے اعضا کی گواہی کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس سورت میں خاص طور پر عاد اور ثمود قوموں کا تذکرہ کیا گیا ہے، جنہوں نے اپنی طاقت اور مادی ترقی پر غرور کیا اور اللہ کے احکامات کو نظر انداز کیا۔ اللہ نے ان پر ایسا عذاب نازل کیا کہ وہ نشان عبرت بن گئے۔

سورت کی سب سے اہم آیات میں سے ایک وہ ہے جس میں قیامت کا ایک ایسا منظر بیان کیا گیا ہے جو عقل پرستوں کے لیے حیران کن ہے، آیت میں ایک گہرا پیغام دیا گیا ہے کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہم کرتے ہیں، وہ سب کچھ محفوظ ہو رہا ہے، اور قیامت کے دن ہمارے اپنے جسم کے اعضا ہی ہمارے اعمال کا پردہ چاک کر دیں گے: "آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ وہ کیا کرتے رہے۔" (41:21)

یہ حقائق واضح کرتے ہیں کہ انسان کا ہر عمل، چاہے وہ اچھا ہو یا برا، کسی نہ کسی شکل میں محفوظ ہو رہا ہے اور قیامت کے دن اس کے اپنے اعضا ہی اس کے خلاف گواہی دیں گے۔ اس منظر نامے کو سامنے رکھتے ہوئے، قرآن ہمیں متنبہ کرتا ہے کہ: "تم اپنی کھالوں سے کیوں گواہی لے رہے ہو؟ وہ کہیں گے کہ ہمیں اللہ نے قوتِ گویائی دی، جس نے ہر چیز کو گویا کیا۔" (41:22)

آج کی جدید سائنس بھی اس حقیقت کو تسلیم کر رہی ہے اور Epigenetics [english] ، Skin Speech [/english]اور Neural Imprints کے نظریے کے مطابق انسانی جسم پر تمام الفاظ اور اعمال کے نشانات موجود ہوتے ہیں، جنھیں مستقبل میں سنا جا سکتا ہے، اور یہ کہ ہمارا دماغ تمام تجربات کو محفوظ رکھتا ہے، اور مستقبل میں یہ "ریکارڈنگ" دوبارہ چلائی جا سکتی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کا یہ بیان جدید سائنسی تحقیقات سے ہم آہنگ ہے اور قیامت کے دن جسم کے اعضا کے بولنے کا تصور کوئی اسطورہ نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ہے۔

یہ سورت ہمیں یہ احساس دلاتی ہے کہ اگر ہم اللہ کی نگرانی کو اپنی زندگی میں محسوس کریں، تو ہمارے لیے گناہ کرنا ناممکن ہو جائے گا۔ جب کوئی شخص یہ سمجھے کہ اس کا ہر عمل اللہ کے علم میں ہے اور اس کے اعضا خود اس کے خلاف گواہی دیں گے، تو وہ ہر لمحہ نیکی کی راہ پر چلنے کی کوشش کرے گا۔

سورہ زمر، سورہ مومن، اور سورہ فصلت ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ اللہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے، ہمارے اعمال محفوظ ہو رہے ہیں، اور ایک دن یہ سب ہمارے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔ لہذا اگر ریکارڈنگ آن ہے، تو ہمیں کیمرے کے سامنے محتاط رویہ اختیار کرنا ہوگا، کیونکہ یہ نگرانی وقتی نہیں، بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے۔

Comments

Avatar photo

عاطف ہاشمی

عاطف ہاشمی قطر میں مقیم محقق اور مترجم ہیں، سپریم جوڈیشل کونسل قطر میں ترجمانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں. اسلامی و سماجی علوم، عربی ادب اور ترجمہ دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ کتاب "تیس نشستیں: قرآن کریم کے ساتھ" قرآن کے موضوعات میں باہمی ربط کے حوالے سے ایک اہم تصنیف ہے، جو پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی شائع ہو چکی ہے۔

Click here to post a comment