23 مارچ کو قرارداد پاکستان منظور ہوئی. اس کی یادمیں ہر سال 23 مارچ کو جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے. اس دن بہت سے لوگوں کو ستارہ امتیاز دیا جاتا ہے. وزیراعظم اور صدرپاکستان کو پروٹوکول کے ساتھ پریڈ گراؤنڈ میں لایا جاتا ہے.وہ قوم سے خطاب کرتے اور اس ملک کی سلامتی کے لیے دعا کرتے ہیں.
23 مارچ ہمیں برصغیر کے ایک عظیم انقلابی کی بھی یاد دلاتا ہے، جسے انگریزوں نے ۲۳ مارچ کے دن پھانسی پر چڑھایا تھا.افسوس کہ اس عظیم انسان کو حکومت بھول گئی، جس کا نام بھگت سنگھ ہے. کیا حکمران نہیں جانتے کہ اس نے آزادی کے لیے کتنی بڑی قربانی دی تھی. بھگت سنگھ کا تعلق پنجاب سے ہے. یہ اس دن پیدا ہوا تھا جب اس کے باپ کرشن سنگھ کو انگریزوں کی جیل سے آزادی ملی تھی. اس خاندان میں ایک خاص بات یہ تھی کہ پورا خاندان انگریزوں کے خلاف احتجاج کرتا تھا۔بھگت سنگھ نے ابتدائی تعلیم لاہور سے حاصل کی. اس کے بعد 1923 میں نیشنل کالج میں داخلہ لے کر اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا. مذمتی شاعری کا شوق تھا، انگریز سرکار سے سخت نفرت تھی. اس نفرت نے ۲۳مارچ ۱۹۲۳ کو اسے دو دوستوں سکھدیو اور راج گرو کے ساتھ لاہور جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا۔پھانسی گھاٹ کی طرف جاتے اور پھندا گلے میں ڈالتے ہوئے بھی انقلاب زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے. ان کی آنکھوں میں خوف نہیں بلکہ جوش اور جنوں تھا۔ آج دنیا اس کو عظیم انقلابی کے طور پر یاد کرتی ہے.
افسوس کی بات ہے کہ اس انقلابی کی زندگی کو پاکستان میں پڑھایا جاتا ہے نہ بھارت میں. ویسے اس پر حق پاکستان کا بنتا ہے کیو نکہ اس کی پیدائش اور موت اسی خطے میں ہوئی تھی ۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت اس عظیم انقلابی کو اون کیوں نہیں کر رہی؟ کیا اس کے مذہب کی وجہ سے اسے بھلایا جا رہا ہے؟ پھر کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہاں سب برابر کے شہری ہیں اور سب کو برابر کے حقوق ملتے ہیں۔ پاکستان کی حکومت کو اس حوالے سےضرور سوچنا چاہیےاور اس نا انصافی کا ازالہ کرنا چاہیے. آج کی نوجوان نسل کو پتہ ہی نہیں کہ بھگت سنگھ کون تھا۔ ان کے بارے میں پڑھائیں تاکہ جنھوں نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر آزادی کی بنیاد رکھی اور تاریخ میں اپنا نام درج کروایا ، انھیں عزت و احترام اور مقام ملے، اور نوجوان ان کے تاریخی کردار کے بارے میں جان سکیں.
تبصرہ لکھیے