(جیل کی بیرک، اندھیرا، تھکن، اور ایک میز جس کے سامنے تفتیشی افسر اور ایک مہذب نظر آنے والا قاتل بیٹھا ہے)
سوال جواب کا آغاز:
تفتیشی افسر (بیٹھتے ہوئے، گہری نظروں سے ملزم کو گھورتے ہوئے):
"تم جانتے ہو نا کہ اگر تم پر قتل ثابت ہوگیا تو ساری زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنی ہوگی؟ تمہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید تم نے کبھی اے سی کے بغیر ایک دن بھی نہ گزارا ہو۔ اب بتاؤ، کیا ہوا تھا؟ تفصیل سے بیان کرو۔"
(افسر ہاتھ کے اشارے سے ریکارڈنگ کلرک کو اشارہ کرتا ہے، جو فوراً ٹیپ آن کر دیتا ہے۔)
ملزم (پُرسکون لیکن اندر ہی اندر ٹوٹا ہوا، دھیمی آواز میں):
"میں نے اسے زہر دیا تھا، پورے ہوش و حواس میں۔ اور کیا کرتا؟ کوئی اور راستہ نہیں تھا میرے پاس اسے تکلیف سے آزاد کرنے کا۔"
افسر (چونک کر):
"صرف زہر دیا تھا؟ اور وہ... وہ گنجا کس نے کیا تھا؟ برہنہ کر کے چادر میں لپیٹنے والا کون تھا؟ اور اس کے جسم پر جو گندگی لگی تھی، وہ کہاں سے آئی تھی؟"
ملزم (اچانک مشتعل ہو کر چلاتے ہوئے):
"ہاں! وہ سب میں نے ہی کیا تھا! وہ گندگی بھی میری ہی وجہ سے اس کے جسم پر تھی! میں تھک چکا تھا! بارہ سال... بارہ سال اس کی خدمت کی میں نے! اب مجھ سے اور نہیں ہوتا تھا!"
(چند لمحوں کے لیے خاموشی چھا جاتی ہے۔ افسر گھور کر اسے دیکھ رہا ہے، جبکہ ملزم کا چہرہ پسینے سے تر ہے۔)
ملزم (نظریں جھکاتے ہوئے، تھکے ہوئے لہجے میں):
"روز صبح اس کے ساتھ جاگتا تھا، خود سے پہلے اسے نہلاتا، ناشتہ کراتا... اور وہ کھاتی بھی کہاں تھی؟ چند لمحوں میں سب الٹ دیتی، پھر اسے صاف کرو۔ پھر کہتی، 'مجھے باتھ روم جانا ہے'، میں دفتر جاتا یا اس کی خدمتیں کرتا؟ میں نے اپنی تین نوکریاں چھوڑیں، تاکہ اس کے ساتھ رہ سکوں... مگر سب بیکار تھا۔ وہ اور ضدی ہوتی جا رہی تھی۔ بس چاہتی تھی کہ میں ہر وقت اس کے پاس بیٹھا رہوں۔ نہ کسی سے مل سکتا تھا، نہ کہیں جا سکتا تھا۔ جانے کتنے برس گزر گئے بغیر سکون سے کھائے، بغیر سکون سے سوئے... بس اس کی رونے کی آوازیں میرے کانوں میں سیسے کی طرح گرتی رہیں۔"
افسر (طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ):
"ہاں، ہاں، بہت قربانی دی تم نے! مگر شادی کے وقت تو محبت کے دعوے کیے ہوں گے نا؟ اور ویسے بھی، وہ تو صحت مند تھی... معذور بھی تو تمہاری ہی وجہ سے ہوئی تھی نا؟"
ملزم (ہلکی سی ہنسی کے ساتھ، جو درد اور بے بسی سے بھری ہوئی تھی):
"ہاں... اور اسی لیے میں اس کا ساتھ نبھاتا رہا، کیونکہ وہ میری وجہ سے اس حال میں پہنچی تھی۔ اس نے میری اولاد کو جنم دیا تھا اور اس کے بدلے میں وہ زندگی بھر کے لیے معذور ہو گئی۔ مگر میں بھی انسان ہوں، مرد ہوں، کب تک تنہا رہتا؟ میرا بھی دل چاہتا ہے کہ کوئی مجھے محبت سے دیکھے، کوئی مجھ سے بات کرے، میرے لیے کھانا بنائے۔ مگر میری زندگی تو ایک غلام کی سی بن چکی تھی۔ میں اس کے لمبے بالوں کو پسند کرتا تھا، مگر روز انہیں دھونا اور سنوارنا میرے لیے اذیت بن گیا تھا۔ میں تھک چکا تھا!"
قتل کا دن:
افسر (سخت لہجے میں):
"اب زیادہ جذباتی نہ بنو، مجھے وہ دن بتاؤ جب تم نے اسے زہر دیا۔ جب بارہ سال گزار ہی لیے تھے تو پھر اس دن ایسا کیا ہوا جو تمہارا صبر جواب دے گیا؟"
ملزم (گہرا سانس لیتے ہوئے، آنکھوں میں پرانی یادوں کا عکس):
"میں دفتر سے گھر آیا تو دیکھا، وہ فرش پر اوندھے منہ گری کراہ رہی تھی۔ جب میں نے اسے سیدھا کیا، تو وہ اپنی ہی الٹی میں لت پت تھی۔ مجھے بھی متلی آنے لگی۔ جیسے تیسے میں نے اسے بستر پر لٹایا، اس کا حلیہ درست کیا، فرش صاف کیا... مگر وہ مسلسل رو رہی تھی، اس کی آواز میرے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح لگ رہی تھی۔ اس دن باس نے بھی مجھے خوب سنائی تھی، کہا تھا کہ میری کارکردگی صفر ہے، روز دیر سے آتا ہوں، کام میں دھیان نہیں دیتا۔ میں چپ چاپ سنتا رہا، کیونکہ میں کیا کہتا؟ کس کو بتاتا کہ میری زندگی جہنم بن چکی تھی؟ میں کھانے کے لیے باہر گیا۔ جب واپس آیا تو وہ پھر سے گندگی میں پڑی رو رہی تھی۔ اس کا وہ حال دیکھ کر مجھے ایسا لگا جیسے میرے ضبط کا آخری کنارہ بھی ٹوٹ چکا ہو۔
میں نے صبر سے کھانا کھایا، پھر دودھ میں زہر ملایا اور اسے دیا۔ وہ مجبور تھی، بڑی معصومیت سے پی گئی۔ میں نے اسے بانہوں میں لے لیا، جیسے برسوں کی محبت کو الوداع کہہ رہا ہوں۔ جب اس کے منہ سے جھاگ نکلنا شروع ہوئے، اس کی آنکھوں میں خوف ابھرا، تو میں نے نرمی سے کہا، ‘اب سب ٹھیک ہو جائے گا، تمہاری ساری تکلیفیں ختم ہو جائیں گی۔ پھر میں نے اسے چادر میں لپیٹا، چھت پر چھوڑ آیا، اور سیدھا یہاں آ گیا۔"
افسر (غصے سے دانت پیستے ہوئے):
"شرم نہیں آئی تجھے؟ ایک مجبور کی بے بسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے؟ اب دیکھ، تیرا کیا ہوتا ہے!"
(افسر ہاتھ کے اشارے سے سپاہیوں کو بلاتا ہے۔)
بیرک کا اندھیرا:
(ملزم کو بیرک میں ڈال دیا جاتا ہے۔ وہ خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھا رہتا ہے۔ کچھ دیر بعد ایک سپاہی کھانے کی ٹرے لے کر آتا ہے، جس میں پیلے رنگ کا پانی جیسا کچھ ہے اور ایک سوکھی چپاتی۔ وہ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کھانا سرکاتا ہے۔)
سپاہی (زہرخند لہجے میں):
"لے، کھا لے۔ شاید دوبارہ یہ بھی نہ ملے!"
(ملزم بے تابی سے کھانے پر جھپٹتا ہے، شاید برسوں بعد کسی اور کے ہاتھ سے کھا رہا تھا۔ وہ جلدی جلدی نوالے نگلنے لگتا ہے۔ مگر اچانک، اسے کھانسی ہونے لگتی ہے۔ سانس اٹکنے لگتی ہے۔ وہ حیرت اور خوف کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ افسر کی طرف دیکھتا ہے۔)
(افسر اور دوسرے سپاہی قہقہے لگاتے ہیں)
افسر (مسکراتے ہوئے، دوسرے ساتھیوں سے):
"او شہزادے! شاید تیرے کھانے میں بھی زہر تھا.... شاید غلطی سے پڑ گیا ہوگا!"
(قہقہوں کی گونج میں ملزم کی آنکھیں خوف اور پچھتاوے سے پھیل جاتی ہیں، اور پھر دھیرے دھیرے بند ہو جاتی ہیں)
تبصرہ لکھیے