ہوم << قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے - محمد کامران خان

قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے - محمد کامران خان

کیا آپ نے کوئی بھی ڈیجیٹل اکاؤنٹ جیسا کہ فیس بک، ایکس(سابقہ ٹوئٹر) انسٹاگرام، ٹک ٹاک یا سنیپ چیٹ وغیرہ بناتے ہوئے کبھی "ٹرمز اینڈ کنڈیشنز" پڑھنے کی زحمت کی؟ ہم میں سے بہت سے لوگ ان کو بنا پڑھے ہی ان سے "متفق" ہونے کا اعلان کر دیتے ہیں۔ ہم روزانہ نہ جانے کتنی ایپس ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں، اکاؤنٹس بناتے ہیں، اور شرائط و ضوابط پڑھے بغیر "I Agree" کے بٹن پر کلک کر دیتے ہیں اور یہی سب سے بڑی غلطی ہے۔ جیسے ہی ہم یہ بٹن دباتے ہیں، ہم جانے انجانے میں ایپ کو اپنے فون تک رسائی دے دیتے ہیں، چاہے وہ ہماری لوکیشن ہو، مائک ہو، کیمرہ ہو، یا ہماری تصاویر اور کانٹیکٹس۔ یہ سب کچھ ایک بار نہیں، بلکہ ہمیشہ کے لیے ان کے پاس محفوظ ہو جاتا ہے۔

یہ صرف ایپس تک محدود نہیں۔ انٹرنیٹ پر ہم جس ویب سائٹ پر بھی جاتے ہیں، وہ ہم سے کوکیز قبول کرنے کا مطالبہ کرتی ہے، اور ہم بغیر سوچے سمجھے "Accept All" پر کلک کر دیتے ہیں۔ لیکن یہی کوکیز خاموشی سے ہماری آن لائن سرگرمیوں کا مکمل نقشہ بنا رہی ہوتی ہیں۔ یہ صرف ہمیں لاگ ان رکھنے کے لیے نہیں ہوتیں، بلکہ ہماری سرچ ہسٹری، براؤزنگ پیٹرنز، اور یہاں تک کہ ہماری شخصیت کو بھی ٹریک کرتی ہیں۔ یہی وہ اجازت ہے جس کا تذکرہ میں سابقہ تحریر میں کر چکا کوں کہ کیسے یہ ڈیٹا ہماری مرضی کے اشتہارات دکھانے میں کام لایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اگر ہم ایک بار کسی پروڈکٹ کو سرچ کر لیں، تو پھر ہمیں ہر جگہ اسی سے متعلق اشتہارات دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اس تحریر میں ٹیکنالوجی کے اس شطر بے مہار کاریگری کا کام اور اس کے نقصانات کا جائزہ آپ کی خدمت میں پیش کروں گا اور اس سے بچنے کی بھی تدابیر زیر بحث لاؤں گا۔ اب واپس کوکیز کی طرف چلتے ہیں، ویب سائٹ پر آپ کی معلومات و معمولات کی نگرانی ناصرف عام کوکیز بلکہ اس سے بڑھ کر ٹریکر کوکیز اور ڈیجیٹل فنگر پرنٹنگ کی مدد سے کی جاتی ہے، جو نہ صرف ہماری ایک ویب سائٹ سے دوسری ویب سائٹ تک نگرانی کرتی ہیں بلکہ اگر ہم کوکیز ڈیلیٹ بھی کر دیں، تو بھی ہمیں ٹریک کیا جا سکتا ہے اور اس سب کی ہم خود انجانے میں اجازت دیتے ہیں۔ 2019 میں گوگل نے خود تسلیم کیا کہ 80% سے زیادہ ویب سائٹس ایسی کوکیز استعمال کر رہی ہیں جو صارف کی تمام آن لائن سرگرمیوں کو فالو کرتی ہیں۔ کچھ ویب سائٹس تو براہ راست اشتہاری کمپنیوں اور ڈیٹا بروکرز کو یہ معلومات بیچ دیتی ہیں، جس سے ہمیں نہ صرف ہدف بنا کر اشتہارات دکھائے جاتے ہیں بلکہ ہمارا ڈیٹا کسی بھی نامعلوم مقصد کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔

یہ سب صرف ایک مفروضہ نہیں، بلکہ ڈیجیٹل دنیا کی ایک بھیانک حقیقت ہے، اس کی ایک مثال کیمرج اینالیٹکا اسکینڈل ہے جس میں 87 ملین صارفین کا ڈیٹا غیر قانونی طور پر لیا گیا اور سیاسی مقاصد کے لیے بیچا گیا۔ فیس بک اور گوگل جیسی کمپنیاں مسلسل ہمارے ڈیٹا پر نظر رکھتی ہیں، اور پھر انہی معلومات کی بنیاد پر ہمیں وہی چیزیں دکھائی جاتی ہیں جو ہمارے دماغ میں چل رہی ہوتی ہیں۔ کئی لوگ یہ تجربہ کر چکے ہیں کہ اگر وہ کسی دوست کے ساتھ کسی پروڈکٹ کے بارے میں بات کریں، تو چند منٹ بعد انہیں اس کا اشتہار نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے؟ نہیں، بلکہ ہمارے فون میں موجود مائک مسلسل ہمیں سن رہا ہوتا ہے، خاص طور پر اگر ہم نے کسی ایپ کو مائک کے استعمال کی اجازت دے رکھی ہوتی ہے۔

اسی طرح، لوکیشن ڈیٹا بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔ کئی ایپس، جنہیں ہماری لوکیشن کا کوئی کام نہیں، وہ بھی اس کی اجازت لیتی ہیں۔ جیسے ایک سادہ گیم یا فلیش لائٹ ایپ کو ہماری لوکیشن جاننے کی کیا ضرورت ہے؟ دراصل، یہ کمپنیاں اس ڈیٹا کو اشتہاری کمپنیوں اور بعض اوقات خفیہ ایجنسیوں کو بیچ دیتی ہیں۔ اسی لیے کئی ممالک میں TikTok جیسے ایپس پر پابندی لگا دی گئی ہے کیونکہ ان پر الزام تھا کہ وہ صارفین کی لوکیشن اور ڈیٹا چوری کر رہی ہیں۔

معاملہ اگر اشتہارات دکھانا اور تشہیری مقاصد کے لئے ڈیٹا چوری کرنا ہوتا تو کچھ نرمی برتی جا سکتی تھی مگر اب یہ سب صرف ڈیٹا چوری تک محدود نہیں رہا۔ معاملہ اس سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہو چکا ہے کیونکہ AI اور Deepfake ٹیکنالوجی اتنی آگے جا چکی ہے کہ اب چند سیکنڈ کی ریکارڈ شدہ آواز یا ایک عام تصویر سے کچھ بھی بنایا جا سکتا ہے۔ 2020 میں ہانگ کانگ میں ایک CEO کو دھوکہ دیا گیا، جب ایک ہیکر نے AI کی مدد سے اس کے باس کی آواز کا ہوبہو نقل تیار کر کے 35 ملین ڈالر ایک جعلی اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروا لیے۔ اب ذرا سوچیئے، اگر کوئی ہماری چند سیکنڈ کی ریکارڈ شدہ آواز سے ہمارا جعلی فون کال بنا دے، یا ہماری عام سی تصویر سے ڈیپ فیک ویڈیو بنا دے، تو اس کے نقصانات کی لسٹ بنانا ہی مشکل ہے۔

یہ خطرہ ہر کسی کے لیے ہے، چاہے وہ عام انسان ہو یا کوئی بڑی شخصیت۔ 2023 میں Deepfake کے ذریعے ہونے والے جرائم میں 300 فیصد اضافہ ہوا، اور کئی مشہور شخصیات کی جعلی ویڈیوز وائرل ہو چکی ہیں، جن میں ان کے چہرے اور آواز کا مکمل غلط استعمال کیا گیا۔ اگر آج AI کسی فلمی اداکار کی جعلی ویڈیو بنا سکتا ہے، تو کل یہی ٹیکنالوجی کسی عام انسان کے خلاف بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ یہ بلیک میلنگ، جھوٹے الزامات، اور فیک نیوز کے لیے ایک زہریلا ہتھیار بن چکا ہے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان خطرات سے کیسے بچا جائے؟
سب سے پہلے، اپنی پرائیویسی کو سنجیدگی سے لینا شروع کریں۔ یہ نہ سوچیں کہ "میرے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں" کیونکہ آج نہیں تو کل یہی لاپرواہی کسی بڑی مصیبت میں بدل سکتی ہے۔

ایپس کی غیر ضروری اجازتیں بند کریں۔ اگر کسی ایپ کو مائک، کیمرہ، یا لوکیشن کی ضرورت نہیں تو اسے فوراً ڈس ایبل کر دیں۔ خاص طور پر فری ایپس پر زیادہ اعتماد نہ کریں، کیونکہ اکثر ان کا بزنس ماڈل ہی ڈیٹا بیچنے پر مبنی ہوتا ہے۔ غیر معروف کمپنیوں کی اپلیکیشنز ضرورت کے وقت انسٹال کریں اور بعد میں یا تو ڈیلیٹ کر دیں یا پھر اسکا ڈیٹا مکمل طور پر ختم کر کے پھر موبائل میں رکھیں۔

مضبوط پاس ورڈز اور دو فیکٹر تصدیق (2FA) کا استعمال کریں۔ ایک ہی پاس ورڈ ہر جگہ مت لگائیں، اور جہاں ممکن ہو 2FA آن کریں تاکہ کوئی آپ کے اکاؤنٹ میں آسانی سے داخل نہ ہو سکے۔

کوکیز اور براؤزر سیٹنگز کا خیال رکھیں۔ ہر ویب سائٹ پر "Accept All" مت دبائیں، بلکہ صرف ضروری کوکیز کی اجازت دیں۔ وقتاً فوقتاً براؤزر کی کوکیز صاف کریں، اور "Do Not Track" آپشن کو آن رکھیں۔

اور پرائیویسی فوکسڈ براؤزرز استعمال کریں۔ بریو، ڈک ڈک گو کی بجائے گوگل کروم یا فائر فاکس جیسے براؤزر بہتر آپشن ہیں، جو ٹریکرز کو بلاک کرتے ہیں۔

مصنوعی ذہانت سے بچاؤ کے لیے اپنی تصاویر اور ویڈیوز محدود رکھیں۔ ہر جگہ اپنی تصویریں اپ لوڈ کرنے سے گریز کریں، خاص طور پر ایسی ویب سائٹس پر جو مشکوک لگیں یا اپنی تصاویر کو عوامی ویب سائٹس پر کھلے عام نا رکھیں جیسا کہ انسٹاگرام وغیرہ پر مت رکھیں اسی طرح وائس نوٹس بھیجتے ہوئے خاص خیال رکھیں۔ واٹس ایپ پر گروپس اور نامعلوم افراد کو وائس نوٹ کرنے سے گریز کریں اور اپنی تصویر کی پرائیویسی بھی صرف اپنے کانٹیکٹس تک محدود کر لیں۔

مائک اور کیمرہ پر نظر رکھیں۔ کچھ ایپس پس پردہ آپ کے مائک تک رسائی رکھتی ہیں، اس لیے وقتاً فوقتاً چیک کریں کہ کون سی ایپ کب مائک اور کیمرہ استعمال کر رہی ہے۔

اگر ممکن ہو تو پرائیویسی فوکسڈ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز استعمال کریں۔ Meta (فیس بک، انسٹاگرام) اور TikTok جیسی ایپس مسلسل ڈیٹا اکٹھا کرتی ہیں، اس لیے ان کی سیٹنگز چیک کریں اور ضرورت کے مطابق پرائیویسی کنٹرول کریں۔

جہاں ٹیکنالوجی نے بہت سی آسانیاں پیدا کی ہھں وہاں مشکلات میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے، خصوصاً جب آپ ٹیکنالوجی کے مکمل استعمال سے ناواقف ہوں۔ ڈیجیٹل دنیا میں پرائیویسی کا تحفظ اب کوئی چھوٹی بات نہیں، بلکہ یہ ہماری شناخت، سیکیورٹی، اور حتیٰ کہ زندگی کا مسئلہ بن چکا ہے۔ اگر آج ہم نے احتیاط نہ کی، تو کل کو ہماری ہی آواز، تصویر، یا ویڈیو ہمارے خلاف استعمال ہو سکتی ہے، اور ہم یہ بھی ثابت نہیں کر سکیں گے کہ وہ اصلی ہے یا جعلی۔

اس سلسلے کی پہلی تحریر ملاحظہ کریں
ٹارگٹڈ ایڈز - دور جدید کا ایک شاہکار جادو