اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے، جیسا کہ فرمان الہی ہے: ( میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے )۔ اس دنیا میں انسان کی زندگی بہت مختصر سی ہے جو اس فرمان ِربانی سے واضح ہے : (اور اللہ تعالیٰ ہرگز کسی جان کو مہلت نہیں دیتا جب اس کا وقت آجائے) اسی طرح فرمایا:(جب ان کا وقت مقرر آجائے گا تو ایک لمحہ مؤخر ہوگا اور نہ آگے جائے گا) اس مختصر زندگانی کی بنا پر ہمارے رب نے ہمیں نصیحت فرمائی ہے : ( بھلائی کے کام کیاکرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ)۔
خیر کے بے شمار دروازے ہیں ، جن کا شمار ممکن ہی نہیں ، مسلمان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ انہیں جلد از جلد اپنانے کی کوشش کرے ، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے : (نیکیوں میں سبقت حاصل کرو) ،امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے :"ہر اچھے کام کا آغاز فورا کردینا چاہیے ، اگر تم استطاعت رکھتے ہو کہ تم سے پہلے کوئی بھی اللہ تعالیٰ کے قریب نہ پہنچے تو نیکیوں میں سبقت لے جایا کرو ۔"
خیر کے کاموں میں سے ایک کام نیک اعمال اور نیکی میں تعاون کرنا ہے ، اللہ عزوجل کا فرمان ہے : (نیکی اور تقوی کے کاموں پر تعاون کیا کرو ، گناہ اور سرکشی کے کاموں پر تعاون نہ کیا کرو۔) نیکیوں میں آگے بڑھنے کے لیے آخری عشرہ آیا ہی چاہتا ہے ، ہم پر لازم ہے کہ اس میں محنت کریں کیونکہ یہ رمضان کا اختتام ہے۔ اس عشرے کی راتیں بڑی افضل راتیں ہیں ، اسی میں لیلۃ القدر کی مبارک رات ہے ، ا س رات کی اہمیت کے پیش نظر ہمیں اس مہینے کے آخری لمحے تک سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اعمال کی مقبولیت اس کے اختتام پر منحصر ہوتی ہے ۔ہمیں چاہیے کہ ہر ہر لمحے سے فائدہ اٹھائیں اور کوئی لمحہ بھی ضائع نہ کریں ، ایک عبادت کے بعد دوسری عبادت بجا لائیں اور اطاعت الہی میں مشغول رہیں ، چاہے وہ تلاوت قرآن ہو یا رکوع و سجود کی کثرت ، رب العالمین کے سامنے قیام ہو یا محتاجوں اور مساکین کی مدد، جس کام کی استطاعت ہو اسے اللہ تعالیٰ سے ثواب سمیٹنے کی خاطر کر گزریں ، کیونکہ اگر یہ نفس اللہ مالک الملک کی اطاعت میں مشغول نہیں ہوتا تو پھر اس کی نافرمانیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔ بقول شاعر:
اے نفس نیک لوگ تقوی اختیار کر کے کامیاب ٹھہرے کہ انہوں نے حقیقت کو پہچان لیا جبکہ میرا دل دیکھنے کے قابل نہیں رہا ۔جب رات آجاتی ہے تو ان کی حالت کس قدر خوبصورت ہوتی ہے کہ ان سے پھوٹتی روشنی ستاروں کی روشنی سے بھی زیادہ چمکدار ہوتی ہے ۔ان کی راتیں ذکر کے ترنم سے گونجتی ہیں ، ان کا جینا اسی ترنم کی بدولت خوشگوا رہے ، ان کے دل ذکر الہی کے لیے فارغ ہیں اور آنکھیں موتیوں کی مانند آنسو بہاتی ہیں۔
افسوس ناک طور پر بعض لوگ ان مبارک راتوں میں سستی کا شکار ہوجاتے ہیں ، اس کی خیر سے کنارہ کشی کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں سستی پیدا ہوجاتی ہے بلکہ فرائض سے غفلت اور مساجد کی بجائے بازاروں کو آباد کر بیٹھتے ہیں اور شرعی احکامات کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں ۔بزبانِ شاعر!
اے نیکی کا بیج بونے والے ، تم اپنی نیکی کا پھل پاؤ گے اور اے برائی کی کاشت کرنے والے تمہارا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوگا ۔اے نفس گناہوں سے باز آجا اور نیک اعمال کر لے کہ شاید رب مجھ پر رحم کردے ۔اے نفس افسوس تجھ پر ، توبہ کر اور نیک اعمال کر، کیا خبر موت کے بعد تجھ سے بہترین معاملہ کیا جائے ۔
میرے پیارے بھائی! اپنے اندر چستی پیدا کیجیے اور جو وقت غفلت میں گزر گیا اس کی تلافی کرنے کی کوشش کریں، ہمارا رب لغزشوں کو معاف کرنے والا ، نیکیوں کو قبول کرنے اور گناہوں کو بخشنے والا ہے ، ہم اس وقت موسمِ عبادت میں ہیں جو اطاعت کا متقاضی ہے ، ہم بہترین مہینے رمضان کے مہینے میں ہیں ، جس میں ہمارا رب اپنے بندوں کو جہنم کی آگ سے آزاد کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیجیے اور ماضی پر بخشش طلب کیجیے ، بیشک ہمارا رب غفور ر حیم ہے ۔ جب بندہ اس کے حضور اپنے گناہوں کی گٹھڑی اٹھائے معافی کا طلب گار ہوتا ہے تو وہ اپنے بندے کی اس ادا سے خوش ہوتا ہے ، آئیے اللہ کریم سے معافی مانگیں اور ا س کی طرف پلٹ آئیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا مطلب کیا ہے ؟
(کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور رسول کی پیروی کرو ، اگر تم نے روگردانی کی تو رسول کے ذمے تو وہی ہے جو ان پر لازم کیا گیا ہے(یعنی تبلیغ) اور تم پر اس کی جوابدہی ہے جو تم پر لازم کیا گیا ہے (یعنی عمل) ہدایت تو تمہیں اس وقت ملے گی جب رسول کی اطاعت کرو گے اور رسول کے ذمے تو صاف صاف طور پر پہنچادینا ہے )،سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ان کے علاوہ دیگر اسلاف اس آیت (اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پالو گے )کی تشریح میں کہتے ہیں ، اللہ ذوالجلال والاکرام نے ہدایت کو رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے ساتھ لازم کیا ہے ۔شیخ ابن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ اس آیت (اور اگر تم ان کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پا جاؤ گے) کے تحت کہتے ہیں:"یہ آیت اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ نبی رحمت علیہ الصلاۃ والسلام جو کچھ بھی لائے ہیں وہ حق اور ہدایت ہے ، اُس میں کچھ بھی باطل اور گمراہی نہیں ہے ۔" (تو اس ہدایت کا تقاضا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی تعلیمات پر بلا چوں چراں عمل کیا جائے)اور اس پیروی کے لیے نیکیوں اور اجر سے مالا مال آخری عشرہ آنے کو ہے ، جس کے فضائل او رخصائص کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں ، یاد دہانی کے لیے چند درج ذیل ہیں۔
1۔اعمال صالحہ کی کثرت!
اس عشرے کے خصائص میں سے ایک خاصیت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے ایام کی نسبت ان دنوں نیک اعمال کی کثرت کیا کرتے تھے ۔صحیح مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں باقی ایام کی نسبت زیادہ محنت کرتے تھے ۔اسی طرح صحیح بخاری و مسلم کی روایت کے مطابق سیدہ فرماتی ہیں:" جب آخری عشرہ داخل ہوجاتا ، نبی کریم ﷺ امہات المؤمنین سے ترکِ تعلق کردیتے ، ساری رات جاگتے اور گھر والوں کو جگاتے ۔" اسی طرح مسند احمد میں سیدہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رمضان کے پہلے بیس دنوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے اور آرام بھی فرماتے لیکن جب آخری دس دن آجاتے تو کمر بستہ ہوجاتے اور امہات المؤمنین سے کنارا فرمالیتے ۔"ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :"اس حدیث میں آخری عشرے میں قیام کی مسلسل کوشش کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے اور اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کا اختتام اچھے عمل پر کرے ،اللہ تعالیٰ ہمارا خاتمہ خیر فرمائے ، آمین۔" امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :"اس حدیث سے ظاہر ہے کہ وہ ﷺ عبادت میں مزید اجتہاد پیدا فرماتے تھے ، حتی کہ جب آخری عشرہ آجاتا تو امہات رضی اللہ عنہن سے کنارا فرمالیتے ۔ بقول شاعر بہادر قومیں جنگ کے دوران اپنی توجہ اور عزم کو مستحکم رکھتی حتی کہ وہ اپنی خواتین سے بھی صرف نظر کرلیتی ہیں کہ مقصد پر توجہ مرکوز رہے ۔
نبی کریم ﷺ ان راتوں میں جاگ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتے تھے اور اپنے گھر والوں کو بھی نماز کے لیے بیدار کرتے تھے ۔مذکورہ بالا حدیث مبارکہ میں رمضان کے آخری عشرے کی فضیلت نمایاں ہے کہ نبی کریمﷺ اس عشرے کے شب و روز میں اس قدر محنت کرتے تھے کہ اس کے علاوہ کسی اور عشرے میں نہیں کرتے تھے ۔ اور یہ محنت (دنیاوی امور کی لیے نہیں بلکہ) اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے تھی ، چاہے وہ نماز ہو ، قرآن ، ذکر ، صدقہ یا اس کے علاوہ دیگر عبادات ۔ان بابرکت راتوں کی عظمت کی بدولت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امورِ دنیا سے الگ ہوجاتے تاکہ نماز اور اذکار پر دوام اختیار کریں، اپنے دل ، زبانِ مبارک اور جسمِ اطہر کے مکمل خشوع و خضوع کے ساتھ تاکہ لیلۃ القدر نصیب ہو کہ اس رات جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ قیام کیا اس کے گذشتہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ۔ اسی طرح اس حدیث مبارکہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز اور ذکر و اذکار میں ایک مخصوص وقت تک مشغول نہیں رہتے تھے بلکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بقول ان اعمال پر اس قدر تسلسل ہوتا کہ ساری رات بیت جاتی اور صبح ہوجاتی تھی ۔ اسی طرح اس عشرے کی فضیلت اس بات سے ثابت ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل خانہ کو نماز اور ذکر و اذکار کے لیے بیدار کیا کرتے تھے کہ یہ راتیں بڑی ہی عظیم اوربابرکت ہیں اور جسے حاصل ہوجائیں اس کے لیے غنیمت ہی غنیمت ہیں ۔ ایک عقلمند مسلمان کو چاہیے کہ اس قیمتی فرصت کو امور خانہ داری میں ضائع نہ کرے کہ یہ راتیں گنتی کی راتیں ہیں ، عین ممکن ہے کہ انسان ان راتوں میں اپنے رب کی رحمت کی کوئی بوند پالے جو اس کی دنیا و آخرت کو سدھار دے ۔ہم بہت سے مسلمانوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ ان قیمتی اوقات کو لایعنی امور میں ضائع کردیتے ہیں ، ان بابرکت راتوں میں جاگتے تو ہیں لیکن فالتو کاموں بلکہ لغویات کے لیے ، حتی کہ قیام اللیل کے وقت خوابِ خرگوش میں ڈوب جاتے ہیں اور ا س طرح ایک عظیم خیر سے محروم ہو جاتے ہیں ، اس بات سے بے خبر کہ نجانے اگلے سال انہیں یہ قیمتی ایام نصیب بھی ہوں گے یا نہیں ۔درحقیقت یہ خسارہ شیطان کی چال او ر اس کے مکر میں سے ایک مکر ہے جس میں یہ مسلمان انجانے میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی راہ سے پِھر جاتے ہیں ۔ فرمان الہی ہے :"بیشک میرے بندوں پر تیرا کوئی قابو نہیں سوائے ان گمراہوں کے جو تیرے پیچھے چلیں۔"عقلمند شخص کی عقلمندی اور ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مقابل شیطان کو اپنا دوست نہیں بناتا جبکہ وہ شیطان کی عداوت سے باخبر بھی ہو ۔ جیسا کہ اللہ ذوالجلال والاکرام نے ہمیں خبردار بھی کیا ہے :"کیا تم اسے اور ا س کی اولاد کو میرے سوا دوست بناؤ گے حالانکہ وہ تم سب کا دشمن ہے اور ظالموں کا کیا ہی برا بدلہ ہے "۔ اسی طرح فرمایا:"بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے ، سو تم بھی اسے اپنا دشمن سمجھو وہ اپنے گروہ کو اسی لیے بلاتا ہے تاکہ وہ بھی اہل دوزخ میں سے ہوجائیں۔" (کوشش کیجیے کہ ان ایام میں شیطان کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیں کہ یہ دن بڑے بابرکت دن ہیں۔)
اس عشرے کی فضیلت اور اہمیت کے پیش نظر ائمہ احادیث نے اپنی کتب میں اس سے متعلق الگ سے ابواب باندھے ہیں ۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں اس عنوان " رمضان کے آخری عشرے کے اعمال کا باب"کے ساتھ باب باندھا ہے ، جبکہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح مسلم میں "رمضان کے آخری عشرے میں سخت محنت کرنے کا باب " کے نام سے باب تشکیل دیا ہے ، اور ابن ماجہ میں " رمضان کے آخری عشرے کے فضائل کا باب " کے عنوان سے باب موجود ہے، جو ان ایام کی اہمیت پر دلالت کرتا ہے ۔
2۔اعتکاف !
ان ایام کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ان میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے ۔ قرآن و سنت کی نصوص سے ثابت ہے کہ اعتکاف مسجد میں کیا جاتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لیے یکسوئی حاصل ہو ۔اللہ رب العزت کا فرمان ہے : (اور تم ان سے مباشرت نہ کرو جبکہ تم مساجد میں معتکف ہو)، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، ان کے ا صحاب کرام رضی اللہ عنہم نے ان کے ساتھ اور ان کے بعد مسجد میں اعتکاف کیا ۔صحیح مسلم میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا ، پھر دوسرے عشرے میں پھر فرمایا:" میں نے اس رات کو پانے کے لیے پہلے دس دن اعتکاف کیا ، پھر درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا ، پھر مجھ سے کہا گیا یہ رات آخری دس راتوں میں ہے ، لہذاتم میں سے جو اعتکاف کرنا چاہے ، وہ اعتکاف کرلے ۔"اسی طرح صحیح بخاری و مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے رہے ۔پھر ان کے بعد ان کی ازواج مطہرات نے بھی اسی طرح اعتکاف کیا ۔ صحیح بخاری میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان میں دس دن اعتکاف فرماتے تھے البتہ جس سال ان کی وفات ہوئی اس سال انہوں نے بیس دن اعتکاف فرمایا۔علماء اس بات پر متفق ہیں کہ اعتکاف سنت ہے اور ا س کا مقصد لوگوں سے تنہائی اختیار کرنا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے یکسوئی حاصل ہوسکے ، اور مسجد یکسوئی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب حاصل کرنے اور لیلۃ القدر پانےکے لیے بہترین جگہ ہے اس لیے معتکف کو چاہیے کہ وہ ذکر ، نماز، قراءت او رعبادت میں مشغول رہے اور لایعنی امورِ دنیا سے احتراز برتے ، اسی طرح معتکف پر اہلیہ کے ساتھ تعلق بھی جائز نہیں ، جیسا کہ فرمان الہی ہے :" اور اعتکاف کی حالت میں ان سے مباشرت نہ کرو۔"
3۔ لیلۃ القدر کی تلاش!
ان ایام کی ایک تیسری خاصیت یہ ہے کہ اس میں لیلۃ القدر کی مبارک رات ہے جو ایک ہزار مہینے سے بہتر ہے ،اس رات کو اللہ تعالیٰ نے باقی راتوں پر فضیلت بخشی ہے اور ا س امت پر اس رات کا فضل او رخیر اتار کر احسان فرمایا ہے ، اللہ مالک الملک نے اپنی کتاب مبین میں اس رات کی اہمیت یوں بیان کی ہے : (بیشک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا بیشک ہم ہی ڈرانے والے ہیں ،اسی رات میں ہر ایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ، ہمارے پاس سے حکم ہو کر جاتا ہے ، ہم ہی رسول بھیجتے ہیں ، آپ کے رب کی مہربانی ہے بیشک وہ سننے والا جاننے والا ہے )، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس رات کا وصف یہ بیان کیا ہے کہ یہ رات اپنی خیر و برکت اورفضل کی کثرت کی بناء پر مبارک اور یکتا ہے ، اس کی برکتوں میں سے ایک برکت یہ ہے کہ اس میں قرآن پاک نازل ہوا جس کی خوبی اللہ تعالیٰ نے یوں بیان کی ہے کہ اس میں ہر کام کا فیصلہ کردیا جاتا ہے یعنی جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں لکھ دیا ہے مثلا رزق ، عمر ، خیر ، شر اور دیگر امور الہی جو ایک سال کے دوران انجام پانے ہیں لوح محفوظ سے فرشتوں کی طرف منتقل کردیے جاتے ہیں ، یہ سب امور اللہ تعالیٰ کے مکمل ، درست اور پختہ احکامات میں سے ہیں جن میں کوئی خرابی ہے اور نہ کمی ، کوئی غلطی ہے اور نہ کوئی جھوٹ ، یہ حکم ہے اس رب کا جو غالب اور علیم ہے ۔ فرمان الہی ہے : ( بیشک ہم نے اسے شب قدر میں نازل فرمایا ہے ، آپ کیا جانیں کہ لیلۃ القدر کیا ہے ، لیلۃ القدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر رات ہے ، اس میں ہر کام کو سر انجام دینے کے لیے اپنے رب کے حکم سے فرشتے اور جبرائیل اترتے ہیں ، یہ رات سراسر سلامتی کی رات ہوتی ہے جو طلوع فجر تک رہتی ہے ) القدر شرف او رتعظیم کے معانی پر دلالت کرتا ہے یا تقدیر او رقضاء کے معنی پر ، کیونکہ لیلۃ القدر شریف او رعظیم رات ہے ، اس رات اللہ تعالیٰ پورے سال کے لیے تقدیر کے فیصلے فرماتا ہے اس رات کا فضل ، شرف ، کثرتِ ثواب او راجر بے شمار ہے اس لیے جو ایمان او راحتساب کے ساتھ قیام کرے اس کے گناہ بخشنے کی نوید ہے اور ا س میں کی گئی عبادت تراسی سال سے زائد عرصے کی کی گئی عبادت سے افضل ہے ، اما م بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، مفسرین کے بقول : "لیلۃ القدر کا ہزار مہینوں سے بہتر ہونے کا مطلب ہے کہ اس میں کیے گئے نیک اعمال ان ہزار مہینوں سے بہتر ہیں جن میں لیلۃ القدر شامل نہیں ہے ۔" امام ابو العالیۃ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :" لیلۃ القدر ان ہزار مہینوں سے بہتر ہے جس میں لیلۃ القدر شامل نہیں ہے ۔امام طبری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :"اس کا ہزار مہینوں سے بہتر ہونے کا مطلب ہے کہ لیلۃ القدر میں کیا گیا ایسا عمل جو اللہ تعالیٰ کو راضی کردے اس عمل سے بہترہے جو اس کے علاوہ ہزار ہا مہینے میں ہوتا رہا ہو ۔"
(اس رات میں فرشتے او رجبرائیل علیہ السلام اترتے ہیں) فرشتے اللہ تعالیٰ کی وہ مخلوق ہیں جو صبح شام اس کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں (اس کی عبادت سے منہ موڑتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں )وہ اس رات زمین پر خیر و برکت اور رحمت کے ساتھ اترتے ہیں ۔ فرشتوں کے تذکرے کے ساتھ جبرائیل علیہ السلام کا علیحدہ ذکر اس رات کے شرف اور فضل کو عیاں کرنے کے لیے بطور خاص کیا گیا ہے، اسی طرح (یہ رات سلامتی والی رات ہے )یعنی لیلۃ القدر میں مؤمنین کے لیے آگ سے بچاؤ ، اس کے خوف سے آزادی ، سلامتی اور ا س کے عذاب سے محفوظ رہنے کی نوید ہے ۔ لیلۃ القدر طلوع فجر کے ساتھ اختتام پذیر ہو جاتی ہے اور شب بھر میں کیے گئے اعمال کا ثواب بھی اس کے ساتھ ہی منقطع ہوجاتا ہے ۔
سورۃ القدر میں لیلۃ القدر کے بے بہا فضائل کا تذکرہ ہے ، جو کہ درج ذیل ہیں۔
1۔ اللہ تعالیٰ نے اس رات میں قرآن مجید نازل فرمایا جو انسانوں کی ہدایت اور ان کی دنیا و آخرت کی سعادت کی ضمانت ہے ، فرمان باری تعالیٰ ہے : (تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور اور واضح کتاب آگئی ہے ، جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کی پیروی کریں، سلامتی کے راستوں کی طرف ہدایت دیتا ہے ، اور انہیں اپنے حکم سے اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتا ہےاور انہیں سیدھے راستے پر گامزن کردیتا ہے ۔) اسی طرح فرمایا: (بیشک یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو سب سے سیدھی ہے اور خوشی سناتا ہے ایمان والوں کو جو اچھے کام کریں کہ ان کے لیے بڑا ثواب ہے ۔) نیز فرمایا: (اور جب ہم نے آپ کی طرف قرآن سننے کے لیے جنات کا ایک گروہ بھیجا ، جب وہ آپ کے پاس حاضر ہوئے تو انہوں نے ایک دوسرے سے کہا خاموش رہو ، جب آپ تلاوت کرچکے تو وہ اپنی قوم کی طرف ڈرانے والے بن کر پلٹے ۔ اے قوم ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسی کے بعد اتاری گئی ہے اور پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی اور حق اور سیدھی راہ دکھاتی ہے ۔اے ہماری قوم اللہ تعالیٰ کے منادی کی بات سنو اور اس پر ایمان لاؤ تاکہ وہ تمہارے گناہوں میں سے گناہ بخش دے اور تمہیں دردناک عذاب سے بچالے ۔اور جو اللہ تعالیٰ کے منادی کی بات نہیں مانے گا وہ زمین میں کہیں بھاگ کر اللہ تعالیٰ کو عاجز نہیں کرسکتا ،اور اللہ تعالیٰ کے سوا اس کے مددگار کوئی نہیں ہوں گے ، ایسے لوگ کھلی گمراہی میں ہیں ۔) مزید فرمایا: (آپ کہہ دیجیے کہ مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنات کی ایک جماعت نے قرآن سنا اور کہا کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے ۔ایسا قرآن جو راہ راست کی طرف راہنمائی کرتا ہے ، ہم اس پر ایمان لاچکے ہیں اور ہم ہرگز کسی کو اپنے ر ب کا شریک نہیں بنائیں گے ۔)
2۔ (آپ کیا جانیں لیلۃ القدر کیا ہے )سوالیہ انداز میں اتری آیت مبارکہ میں اس ماہ مبارک کی جلال و عظمت کا اظہار ہے ۔
3۔یہ ہزار مہینوں سے بہتر رات ہے ۔
4۔اس رات میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے او ریہ نزول خیرو برکت او ررحمت سے خالی نہیں ہوتا ۔
5۔ یہ رات ہر اس شخص کے لیے عذاب و عقاب سے سلامتی کی رات ہے جس نے اللہ رب العزت کی اطاعت میں قیام کیا ۔
6۔اس رات کی فضیلت میں اللہ تعالیٰ نے ایک مکمل سورت نازل فرمائی جو روز قیامت تک پڑھی جاتی رہے گی ۔
7۔جس نے ایمان او راحتساب کے ساتھ قیام کیا اس کے گناہ معاف کردیے جائیں گے ۔صحیح بخاری و مسلم میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جس نے ایمان او راحتساب کے ساتھ قیام کیا اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے " ایمان او راحتساب یعنی اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے اور اس ثواب کا یقین رکھتے ہوئے جو قیام کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے تیار کیا ہے ۔اسی طرح ثوا ب کی امید میں اجر کی طلب کرنا ، چاہے کوئی اس کا علم رکھے یا نہ رکھے(وہ اس ثواب کا مستحق ہوگا) کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجر کے حصول کے لیے علم کو شرط قرار نہیں دیا ۔
لیلۃ القدر کون سی رات ہے ؟
لیلۃ القدر رمضان کی آخری راتوں میں ہے، صحیح بخاری و مسلم میں موجود فرمان نبوی ﷺ کے مطابق :"لیلۃ القدرکو رمضان کی آخری عشرے میں تلاش کرو۔" راجح قول کے مطابق یہ رات آخری سات راتوں میں سے کوئی رات ہے ۔صحیحین میں موجودحدیثِ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے مطابق نبی کریم ﷺ کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم میں سے کچھ اصحاب کرام نے لیلۃ القدر کو رمضان کی آخری سات راتوں میں خواب میں دیکھا تونبی کریم ﷺ نے فرمایا :" میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ لوگوں کے خواب یکساں ہیں ، یعنی یہ سب خواب آخری سات دنوں کی راتوں کے حوالے سے آئے ہیں ، لہذا جسے شب قدر تلاش کرنی ہو وہ آخری سات دنوں میں تلاش کرے ۔ "
اس میں طا ق او رجفت دونوں راتیں شامل ہیں ، لیکن طاق راتوں کے بارے میں زیادہ وضاحت آئی ہے کہ اس میں شب قدر کا احتمال ہے ۔صحیح مسلم کی روایت کے مطابق نبی کریم ﷺ نے فرمایا : "شب قدر کو آخری دس راتوں میں تلاش کرو اور اگر کوئی کمزور یا جاگنے سے عاجز ہو تو آخری سات راتوں کو ضائع نہ کرے ۔"ذیل میں کچھ روایات ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ لیلۃ القدر کی کوئی شب متعین نہیں ہے بلکہ اس کے بارے میں متفرق احادیث وارد ہوئی ہیں ۔صحیح مسلم کی ایک روایت جس میں ستائیسویں کی رات کو لیلۃ القدر کہا گیا ہے ۔ سیدنا ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جس میں انہوں نے فرمایا:"اللہ تعالیٰ کی قسم مجھے علم ہے کہ وہ رات کون سی رات ہے ، جس رات ہمیں رسول اللہ ﷺ نے قیام کرنے کا حکم دیا اور میں نے ان سے سوال کیا تو وہ ستائیسویں کی رات تھی ۔ جبکہ صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق نبی کریم ﷺ نے فرمایا:"لیلۃ القدر کو ستائیسویں ، انتیسویں اور پچیسویں رات میں تلاش کرو۔"
بہت سے لوگ لیلۃ القدر کی تعین میں افراط کا شکار ہوتے ہیں ، ان کے گمان کے مطابق ستائیسویں کی رات لیلۃ القدر کی رات ہے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے متنبہ کردیا ہے کہ رمضان کی آخری راتوں میں لیلۃ القدر ہے ۔ ابن خزیمہ میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی روایت جسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے، میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"لیلۃ القدر کو رمضان کی آخری راتوں میں تلاش کرو۔"اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شب قدر ایک متعین رات نہیں ہوتی بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اور حکمت کے مطابق ہر سال مختلف ہوسکتی ہے ، کبھی ستائیسویں اور کبھی پچیسویں ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح نص ثابت نہیں کہ یہ کوئی معین رات ہے جو ہر سال پلٹ کر آتی ہو ۔ جو نصوص میں ایک معین رات کی تحدید کی گئی ہے اور بظاہر جو تعارض نظر آتا ہے وہ یہ کہ یہ رات ہر سال مختلف دن آتی ہے اور ہر سال نبی کریم ﷺ مختلف خبر دیتے تھے کبھی اکیسویں ،کبھی تیئیسویں ۔امام حافظ علیہ الرحمہ کہتے ہیں :"راجح قول کے مطابق یہ آخری دس راتوں کی طاق راتوں میں سے ایک رات ہے اور یہ (ہر سال)ایک رات سے دوسری رات میں منتقل ہوتی رہتی ہے جیسا کہ مذکورہ بالا احادیث سے سمجھا جاسکتا ہے ۔نیز فرمایا:"علماء کے مطابق اس رات کو چھپانے کی حکمت یہ ہے کہ ان فضیلت والی راتوں میں کمر کس لی جائے اور نماز ،ذکر ، دعا، تلاوتِ قرآن ، تدبر ، تسبیح و تہلیل ، حمد و تکبیر اور استغفار او رمسنون اذکار کی کثرت کی جائے ،دعوت الی اللہ دی جائے ، فقراء و مساکین کی خبر گیری ، والدین کے ساتھ نیکی میں کثرت ، رشتہ داری کو جوڑنا ، پڑوسی کا اکرام ، مریض کی عیادت اور اسی طرح دیگر نیک اعمال سرانجام دیے جائیں کہ جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل ہوتی اور ثواب بڑھتا ہے ، اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے ، اپنے اعمال میں سخت محنت کریں اور خیر تلاش کریں کیونکہ یہ خیر تلاش کرنے کا وقت ہوتا ہے ، غفلت سے بچیں کیونکہ غفلت سوائے نقصان کے کچھ نہیں لاتی ۔پسندیدہ تو یہ ہے وہ یہ کہ اس رات میں کثرت سے دعا کا اہتمام کیا جائے ، کیونکہ دعا عبادت ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے ۔سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :"دعا عبادت ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے تم مجھے پکارو میں تمہاری پکار کا جواب دوں گا " جب دعا عبادت ہے او ررمضان عبادت کا مہینہ ہے تو مسلمان کو چاہیے کہ اس عظیم مہینے میں دعا کی کثرت کرے ، خصوصا جب کہ اس حالت(یعنی روزے) میں کی گئی دعا رد نہیں کی جاتی ،سنن بیہقی میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت جسے امام البانی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح قرار دیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تین دعائیں قبول ہوتی ہیں ، روزے دار کی دعا ، مسافر کی دعا، او رمظلوم کی دعا۔" اسی طرح مسند امام احمد میں صحیح سند کے ساتھ جسے امام البانی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح قرار دیا ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت جس میں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتی ہیں کہ اگر میں لیلۃ القدر کو پاؤں تو کیا دعا کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جواب دیا ، آپ کہیے " اے اللہ آپ معاف کرنے والے ہیں ، معافی کو پسند کرتے ہیں ، پس مجھے معاف فرمادیجیے ۔"ابن ملقن رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :"پسندیدہ بات یہ ہے کہ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا والی) دعا کی کثرت کی جائے "۔ ملا علی قاری حنفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :" یہ دعا(دعائے عائشہ رضی اللہ عنہا) جوامع الکلم میں سے ہے جو دنیا و آخرت کی دونوں بھلائیاں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ۔"
ہدایت کا سوال اہم امور میں سے ہے ۔ابن ماجہ کی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت جسے امام البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"مانگے جانے والی دعاؤں میں افضل دعاء یہ ہے کہ انسان کہے "یا ربی میں آپ سے دنیا و آخرت میں معافات کا طلب گار ہوں ۔ایک او رحدیثِ مبارکہ جو سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"بندے اپنے رب سے جو سوال کرتے ہیں ان میں افضل ترین سوال یہ ہے کہ انہیں معاف کردیا جائے او رعافیت عطا کی جائے ۔"سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :"ان راتوں میں دعا مانگنا مجھے نمازپڑھنے سے زیادہ محبوب ہے ۔" یعنی دعا کی کثرت اس نماز سے افضل ہے جس میں دعاء کی کثرت نہ ہو البتہ اگر نماز میں دعا کی جائے تو وہ نماز افضل ہے ۔
رمضان میں سلف کا حال!
موطا امام مالک میں ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بقدر استطاعت نماز میں مشغول رہتے ، جب آدھی رات بیت جاتی تو اپنے گھر والوں کو پکارتے :"نماز نماز "، پھر یہ آیت تلاوت فرماتے (اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیجیے اور خود بھی اس پر ثابت قدم رہیے ۔)یہ واقعہ ان مبارک راتوں میں گھر والوں کی تربیت کا عکاس ہے ،جس میں منہج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی جھلکتی ہے کہ جیسے وہ اپنے اہل خانہ کو بیدار کیا کرتے تھے اسی طرح جو شخص نماز اور ذکر اور قیام کی استطاعت رکھتا ہے اور جو نیک اعمال میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے کر عظیم اجر و ثواب حاصل کرنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے ان مبارک راتوں کو غنیمت جانے کیونکہ یہ راتیں زندگی کے قیمتی مواقع اور دنیا کی بہترین دولت ہیں۔سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:" جب آخری عشرہ آجائے تو میں پسند کرتا ہوں کہ رات جاگنے کا اہتمام کیا جائے اور بیوی بچوں کو (اگر بچے استطاعت رکھتے ہوں) جاگنے کی ترغیب دلائی جائے ۔"حبیب عجمی کی اہلیہ کے بارے میں ملتا ہے کہ وہ رات کو جاگتیں اور کہا کرتی تھیں رات بیت گئی ہے جبکہ ہمارے سامنے ایک طویل سفر باقی ہے او رہمارا زادِ راہ تھوڑا ہے ، نیک لوگ قافلہ در قافلہ چلے گئے ہیں جبکہ ہم باقی رہ گئے ہیں۔بقول شاعر!
اے رات بھر سونے والے تم کب تک خواب خرگوش میں رہو گے ، اٹھو اے پیارے وقتِ وعدہ قریب آچکا ۔رات اور اس کے قیمتی لمحات سے غفلت نہ برتو ، جب سب سوجائیں تو تم ذکر و عبادت میں مشول ہوجاؤ۔
نبی کریم ﷺ رمضان کی راتوں میں عبادت کے لیے کمر بستہ ہو جاتے تھے ، تلاوت قرآن میں مشغول ہوجاتے ، آیاتِ رحمت پر رحمت کا سوال کرتے اور عذاب کی آیات پر رب العالمین سے پناہ کے طلب گار ہوتے ، یعنی نماز ، قراءت ، دعا اور غوروفکر انہی امور میں مشغول رہتے ، کیونکہ یہ ان خاص دس راتوں سمیت دیگر راتوں کو بہترین طریقےسے گزرانے کے لیے افضل ترین اعمال ہیں۔
امام شعبی رحمہ اللہ لیلۃ القدر کی فضیلت کے بارے میں کہتے ہیں :"اس کا دن رات کی مانند ہے ۔"او رامام شافعی علیہ الرحمہ کا کہنا ہے:" میں پسند کرتا ہوں کہ ان ایام میں ویسی ہی محنت کروں جیسا کہ رات کو کرتا ہوں ۔ کیونکہ یہ دن اپنی اہمیت کے پیش نظر تقاضا کرتے ہیں کہ ان مکمل دس دنوں میں جوش و خروش سے عبادت کی جائے چاہے دن ہو یا رات ۔سلف صالحین نبی کریم ﷺ کی اقتدا میں لیلۃ القدر کے لیے خاص اہتمام کیا کرتے تھے ۔ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما تئیسویں رات اپنے اہل خانہ کو جگانے کے لیے ان پر پانی کے چھینٹے پھینکا کرتے تھے ، او رسیدنا عمر رضی اللہ عنہ اپنے اہل خانہ کو آخری دس راتوں میں جگایا کرتے تھے ۔ عینیہ بن عبدالرحمن رحمہما اللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ابوبکرہ رمضان میں عمومی سنت کے مطابق نماز پڑھتے تھے البتہ جب آخری عشرہ آجاتا تو مزید مستعد ہوجاتے ۔آخر میں ہم اپنی بات کا اختتام امام ابن حبان رحمہ اللہ کی اس روایت اور یاد دہانی سے سے کرتے ہیں (کہ ہم ایسے لوگوں میں شامل نہ ہوجائیں) جس میں جبرائیل علیہ السلام نے دعا کی اور نبی رحمت ﷺ نے آمین کہا ۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ منبر پر چڑھتے ہوئے آمین کہتے رہے ۔ان سے پوچھا گیا یا رسول اللہ ﷺ جب آپ منبر پر تشریف لے گئے تو تین دفعہ آمین کیوں کہا؟ فرمانے لگے:" میرے پاس جبرائیل آئے تھے اور انہوں نے کہا جو رمضان کا مہینہ پائے اور اپنی بخشش نہ کرواسکے تو وہ دوزخ میں داخل ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوجائے ، پھر جبرائیل نے مجھے کہا آمین کہیے تو میں نے آمین کہا۔پھر انہوں نے کہا جس کی زندگی میں اس کے والدین یا دونوں میں سے ایک رشتہ موجود تھا لیکن اس کی بخشش نہ ہوسکی تو وہ آگ میں داخل ہو اور رب تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوجائے ،اور فرمایا آمین کہیے تو میں نے آمین کہا ۔پھر فرمایا جس کے سامنے آپ ﷺ کا ذکر ہو اور وہ آپ پر درود نہ پڑھے تو وہ شخص آگ میں داخل ہو اور رحمتِ الہی سے دور ہوجائے ، اور مجھے آمین کہنے کا کہا تو میں نے آمین کہا ۔"
( ڈاکٹر پروفیسر عبدالکریم عیسی الرحیلی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ،اسلام آباد کےشعبہ عقیدہ و فلسفہ کے صدر ہیں.
اردو استفادہ : انعم زیدی)
تبصرہ لکھیے