ہوم << فرحان ملک فیض یافتہ سے بے فیض ہونے تک - ڈاکٹر اسامہ شفیق

فرحان ملک فیض یافتہ سے بے فیض ہونے تک - ڈاکٹر اسامہ شفیق

آج رفتار ڈیجیٹل کے مالک فرحان ملک کو ایف آئی اے نے گرفتار کرلیا . فرحان ملک کون ہیں؟ آئیے یہ جانتے ہیں۔

سماء چینل کے سابق ڈائریکٹر نیوز اور اس چینل کے شاید کسی نچلے عہدے سے ترقی کرکے اس مقام تک پہنچے والے فرد کے پاس کوئی صحافتی تجربہ یعنی رپورٹنگ و ایڈیٹنگ کا نہیں تھا۔ لہذا جس فرد کی بطور صحافی نہ تو تعلیم ہو اور نہ ہی تربیت، وہ کیا گل کھلا سکتا تھا، یہ آپ نے دیکھا ہوگا۔
فرحان ملک نے سماء میں بریکنگ المعروف ڈبے گھمانے کا ایک ایسا کلچر متعارف کروایا کہ جس نے پاکستان کی صحافت کا بیڑا غرق کردیا۔ صرف چند کیسز پر آپ کی توجہ رکھوں گا اور بلا کسی کم و کاست اپنی بات کو بیان کروں گا۔

جامعہ کراچی کے ایک استاد اور طالبہ کے درمیان پاس فیل کرنے پر تنازعہ ہوا. وہ طالبہ ہراسانی کمیٹی کو درخواست دیکر اس کو لیکر میڈیا میں پہنچ گئیں. فرحان ملک جیسے فرد کو اور کیا چاہیے تھا، انھوں نے ایک خاتون رپورٹر کو اس خبر کی کوریج پر مامور کردیا. وہ میری طالبہ تھیں۔ سماء نے انتہائی جانبدارانہ رپورٹنگ کی، اور بریکنگ نیوز میں پرائم ٹائم میں لکھا اور کہا کہ جامعہ کراچی کے اساتذہ بھیڑیے بن گئے۔ معاملہ یکطرفہ تھا، ہراسانی کا الزام بھی موبائل پیغامات تک ہی محدود تھا۔

جامعہ کراچی نے پیمرا میں رپورٹ کیا. شکایاتی کونسل کے سربراہ محترم پروفیسر انعام باری مرحوم تھے. انھوں نے رپورٹر و بیورو چیف فریال عارف سے پوچھا کہ اس خبر میں اساتذہ میں کتنوں کا ذکر ہے؟ اگر ایک استاد ہے تو اساتذہ کا تڑکا کیوں؟ خبریت اور متوازن خبرنگاری کیا ہوتی ہے؟ دوسرے فریق کا مؤقف خبر میں کیا ہے وغیرہ وغیرہ

خیر سماء کو اس پر پیمرا نے جرمانہ کیا. بیورو چیف فریال عارف نے معافی مانگی اور خبر کی تردید کرنے کا حکم نامہ پیمرا نے جاری کیا۔ اب محترم فرحان ملک کو جامعہ کراچی سے خدا واسطے کا بیر ہوگیا۔ اس استاد نے کورٹ میں کیس کیا اور کیس جیت لیا.

اب وہ خاتون رپورٹر فرحان ملک سے ایک تنازع میں سماء سے نکال دی گئیں. ان کے نام پر سمن آئیں تو ملازمین کے حقوق کے بھاشن دینے والے فرحان ملک نے منع کردیا کہ سماء اس معاملے میں ان کی کوئی مدد نہیں کرے گا، حالانکہ انسانی و صحافتی اخلاقیات کا تقاضا تھا کہ ادارہ اس خبر پر ان کے ساتھ جب تک کیس چلتا کھڑا رہتا. خیر وہ خاتون ایک بڑی پریشانی سے گزریں، ملازمت بھی نہیں، اور وکیلوں کے خرچے الگ، خیر وہ معاملہ انھوں نے خود حل کیا۔

2018ء میں عمران خان کا چاند فیض یاب ہوچکا تھا، اور چہار جانب ان کی بازگشت تھی. میڈیا ان کا اسیر تھا جن کا نام فیض حمید تھا۔ میں لکھتا تھا اور جامعہ کراچی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر میڈیا پڑھاتا تھا تو کلاس میں اس کا تذکرہ اور میڈیا کے کردار پر بحث ہوتی تو یہ مثال بھی سامنے آجاتی۔ پروفیسر ڈاکٹر اجمل خان مرحوم جامعہ کراچی کے وائس چانسلر تھے. انھوں نے کئی ایک بار کسی استاد کے ذریعے سے پیغام بھجوایا کہ اسامہ سے کہو احتیاط کرے. ایک دن ان سے ملاقات ہوئی تو مجھے کہا کہ تم احتیاط کرو. میں نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب اگر میں کلاس میں میڈیا کے رجحانات نہ پڑھاؤں تو کیا کروں؟ وہ خاموش ہوگئے. کہنے لگے تم سوشل میڈیا پر لکھنے میں بھی احتیاط کرو، لوگ تمھارے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔

جامعہ کراچی میں تحریک انصاف اسٹوڈنٹ ونگ کے ایک طالب علم کو نقل کرتے رنگے ہاتھوں پکڑا. خیر وہ میرا طالب علم تھا. میں نے کہا اب نہ کرنا. اس پر اس نے شور مچانا شروع کردیا. کیونکہ وہ صاحب ایوننگ پروگرام میں بمشکل ڈی گریڈ میں داخل ہوپائے تھے، لہذا ان کو لکھنا بھی نہ آتا تھا. ایک دھمال مچا ، میں نے اس کو کمرہ امتحان سے نکال دیا، اس نے سنگین نتائج کی کلاس کے سامنے دھمکیاں دیں۔ اس کے چند روز بعد انھوں نے چند طالبات کو ملا کر میرے اور ایک اور استاد کے خلاف ہراسانی کی درخواست جمع کروادی، اور درخواست دفتر مشیر امور طلبہ میں جمع ہونے کے دس منٹ کے اندر میڈیا میں بریکنگ نیوز کے طور پر آگئی۔ سماء اس میں صف اول میں تھا. مجھ سے کوئی رابطہ نہیں ہوا. خیر ایک میری طالبہ جو جیو میں رپورٹر تھیں، انھوں نے مجھ سے معلوم کیا. انھوں نے بظاہر فون کال کی تھی، یہ نہیں بتایا کہ یہ خبر کا حصہ ہے. میں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ کس نے اور کس طرح کی شکایت درج کی ہے، میں پہلے درخواست پڑھ لوں تو جواب دے سکتا ہوں۔ اس خاتون رپورٹر نے اس کو بریکنگ نیوز بناکر جیو پر چلا دیا. خیر کچھ عرصے بعد انھوں نے آنسوؤں کے ساتھ معذرت کی اور کہا کہ یہ سب کچھ بیورو چیف کی ایما پر ہوا ہے، ان کو استعمال کیا گیا۔

سماء میرے خلاف خبر کے لیے رپورٹرز کو ڈھونڈتا رہا. تین رپورٹرز میرے طالب علم تھے، تینوں نے کہا کہ اس خبر کی صداقت پر ان کو شک ہے، لہذا متوازن خبر نگاری کی جائے۔ فرحان ملک طیش میں آئے، ان میں سے بیچارے دو رپورٹرز کو اس حکم عدولی پر بعد میں ملازمت سے نکال دیا گیا. ایک رپورٹر کو کہا کہ وہ تمھارے استاد ہیں، تم طالب علم بن کر جاؤ اور مؤقف لو، وہ آئے، کیمرہ ساتھ تھا، میں نے اپنا مؤقف دیا، مگر اس کو رات کے پرائم ٹائم پروگرام میں یکطرفہ یعنی میری بات کو کاٹ پیٹ کر اپنے حق میں استعمال کیا۔

میرے احباب میں سے چند ایک نے کہا کہ گیم فیض حمید اور تحریک انصاف کی ہے، آپ کچھ نہیں کرپائیں گے لہذا خاموش ہو جائیں۔ یہ بھی رمضان المبارک کا ماہ تھا اور سال 2019ء تھا. اس یکطرفہ رپورٹنگ کے خلاف جامعہ کراچی کی انتظامیہ اور میں نے الگ الگ درخواستیں پیمرا میں دائر کردیں۔ پیمرا کی شکایاتی کونسل نے وہ درخواست اسلام آباد بھیج دی. میں نے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ اس یکطرفہ مہم جوئی کو روکا جائے۔ ادھر فرحان ملک نے اپنے رپورٹرز کو کہا کہ پیمرا میں، میں خود جاؤں گا اور اس شکایت کی دھجیاں اڑا دوں گا۔

جامعہ کراچی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اجمل خان اس میڈیائی جنگ کا مقابلہ نہ کرسکے اور ان خبروں کی اشاعت کے دروان ہی ہارٹ اٹیک سے انتقال کرگئے۔عدالت نے دوسری پیشی میں حکم نامہ جاری کیا کہ پیمرا کی سنوائی تک یہ خبر نشر نہ ہو۔ سماء روزانہ میرے خلاف پرائم ٹائم میں خبر نشر کررہا تھا، یہ اللہ کی غیبی مدد ہی تھی، ورنہ سماء کے وکیل معیز جعفری، تحریک انصاف اسٹوڈنٹ ونگ کے وکیل جبران ناصر کے سامنے میری اور میرے وکیل کی کیا اوقات تھی۔

کیس پیمرا اسلام آباد میں لگا. جامعہ کراچی نا دیدہ دباؤ پر اس کی سماعت میں نہیں گئی. سماء کا وکیل آیا لیکن دعویدار فرحان ملک نہ آئے۔ وہ بھی بیچارہ بار بار دوران سماعت معافیاں مانگتا رہا. جیو کی جانب سے ان کے ڈائریکٹر آئے، انھوں نے سماعت سے قبل ہی مجھ سے معافی مانگ لی اور دوران سماعت کچھ نہ بولے. ہم نیوز کے وکیل پریشان ہوگئے اور کہا کہ ہم نے تو ایک خبر ہی چلائی ہے، مہم تو سماء نے چلائی، آپ ان کو پکڑیں۔ خیر طویل سماعتوں کے بعد سماء کے خلاف فیصلہ آیا ، لیکن فیض حمید کا دور تھا ،سماء نے معذرت نشر نہ کی، کیونکہ قانون کی پاسداری کون کرتا ہے؟

آج بھی ماہ رمضان المبارک ہے، لیکن سال 2019ء نہیں 2025 ءہے. فرحان ملک جن کے ہاتھوں استعمال ہوئے، وہ اب ان کے شکنجے میں ہیں. میں ان کی رہائی کے لیے دعاگو ہوں، لیکن اس شخص نے پاکستان میں ایک گھٹیا ترین طرز صحافت کی بنیاد رکھی ہے، جو ہیجان پر مبنی ہے. میں بطور صحافت کے استاد کے اس کو صحافت ہی نہیں مانتا. یہ ایک نفسیاتی عارضہ ہے، اور چند نفسیاتی مریض میڈیا کی طاقت سے پوری قوم کو اس میں مبتلا کررہے ہیں۔ آپ کو صحافت سے اختلاف بھی ہوتا اور اتفاق بھی، لیکن ایسی صحافت کو صحافت نہیں کہا جاسکتا۔ آپ میڈیا میں پیرا ٹروپرز کو لیکر آئیں، لیکن ان کو علم اور تربیت کے مراحل سے گزاریں۔ فیض حمید کی فیض یافتہ صحافت یا کسی شخص کی شخصیت پرستی میں مبتلا صحافت سے قوم کو کچھ نہیں ملے گا سوائے ہیجان اور مایوسی کے۔

میں جو کچھ کل سوشل میڈیا پر لکھ رہا تھا، آج وہ الحمدللہ بین الاقوامی کانفرنسوں میں پیش کررہا ہوں. یہ بھی محض اتفاق ہی ہے کہ اس سال ماہ رمضان المبارک میں University of Helsinki Finland کی کانفرنس میں شرکت کی اور اپنا مقالہ پیش کیا،عنوان وہی تھا جس کی پاداش میں 2019 میں یہ سب کچھ کیا گیا . آج اس کانفرنس میں شرکت کا سرٹیفیکیٹ موصول ہوا اور ساتھ فرحان ملک صاحب کی گرفتاری کی خبر بھی۔ میں کل جہاں تھا آج بھی وہیں ہوں، میں اس ہیجان میں مبتلا کروانے والوں کو کل بھی متنبہ کرتا تھا ،اور آج جب وہ اس کا پھل پارہے ہیں، تب بھی یہی کہتا ہوں کہ قانون پر عملدرآمد لازمی ہے، چاہے آپ اقتدار میں ہوں ، فیض یافتہ ہوں یا آپ مظلوم ہوں۔ اگر آپ اقتدار میں پہنچ کر یا فیض یافتہ ہوکر قانون کو جوتے کی نوک پر رکھیں گے تو کل یہی کچھ آپ کے ساتھ ہوگا۔

اس تحریر کا مقصد اپنی ذات کی ستائش نہیں حالات سے مکمل آگہی دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو حق کے ساتھ انصاف کے ساتھ استوار رکھے۔ آمین