سوچیے، اگر آپ اپنی پوری زندگی کسی خواب کے پیچھے بھاگتے رہیں، اسے حاصل بھی کرلیں، اور پھر بھی اپنی ذات کے اندر ایک خلا محسوس ہو؟
"ڈینیل کہنیمین" ذہانت کی دنیا کا ایک بڑا نام تھے۔ ایک نوبل انعام یافتہ ماہر نفسیات، جنہوں نے دنیا کو سوچنے کا ایک نیا طریقہ سکھایا۔ ان کی کتاب Thinking Fast And Slow مشہور کتاب ہے جو آپ کو انسانی نفسیات کو سمجھنے کا ایک اور زاویہ سکھاتی ہے۔ انہوں نے انسانی دماغ کی پوشیدہ خامیوں کو بے نقاب کیا، یہ سمجھایا کہ ہم غیر منطقی فیصلے کیوں کرتے ہیں، اور دنیا بھر کے ماہرین، پالیسی میکرز اور لیڈرز کو اپنی دانش سے متاثر کیا۔
مگر… انہی کہنیمین نے پچھلے سال اپنی زندگی کا خاتمہ خود کرلیا۔ یہ بات اس وقت چھپا لی گئی لیکن حال ہی میں یہ بات سامنے آئی اور اس پر دنیا بھر میں حیرانی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ وہ شخص جو دوسروں کو سمجھ داری سے سوچنا سکھا رہا تھا، خود اپنے خیالات سے جنگ ہار گیا۔
یہ کیوں ہوا؟
بظاھر کامیابی لیکن اندرونی خلا کے ساتھ! کہنیمین اکیلے ایسی مثال نہیں ہیں۔ بے شمار کامیاب ترین لوگ، CEO، اداکار، نوبل انعام یافتہ افراد—اپنی فتوحات کی چوٹی پر پہنچ کر بھی اندر سے ادھورا محسوس کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کی نگاہ میں جیت جاتے ہیں۔ وہ دنیا میں بظاہر بہت عزت کماتے ہیں۔ وہ دنیا بھر میں سراہے جاتے ہیں۔ لیکن جب خوشی اور اس کامیابی کے جشن کے لمحات گزر جاتے ہیں، جب مادی طور پر طے کی ہوئی منزل حاصل ہوجاتی ہے، جب تالیاں بجنا بند ہو جاتی ہیں...
تب کیا بچتا ہے؟
ایک عجیب سی وحشت زدہ خالی زندگی، جس کو نہ دولت بھر سکتی ہے، نہ شہرت، نہ کامیابی۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ ، وَلَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ . تونگری یہ نہیں ہے کہ مادّی کامیابی زیادہ ہو، بلکہ امیری یہ ہے کہ دل (نفس) غنی ہو۔ (صحیح بخاری 6446، صحیح مسلم 1051) تشریح : یعنی اگر تمہارا نفس غنی ہو تو مادّی کامیابی کم بھی ہو تو بہت ہے، دل غنی نہ ہوتو دنیا بھر کی دولت، شہرت، نام، انعام ملنے سے بھی اطمینان نہیں مل سکتا۔
اس دنیا کی ہماری ہر کامیابی عارضی ہے۔ یہاں ہم جتنی بھی کامیابیاں حاصل کر لیں، یہ ہماری آخری منزل نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک امتحان ہے۔ اس دنیا میں بھی اصل کامیابی وہ ہے جو اس دنیا کی زندگی کے بعد بھی باقی رہے۔ جو لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھتے، وہ تمام تر کامیابیوں کے باوجود ایک نہ ختم ہونے والے خلا میں گر جاتے ہیں۔ اگر زندگی صرف یہی دنیا ہے، اور اس کی سب سے بڑی کامیابیاں بھی روح کو مطمئن نہیں کرتیں، تو پھر آگے بچتا کیا ہے؟
کہنیمین کی کہانی ہمیں ایک اہم حقیقت سکھاتی ہے:
✅ کامیابی کے پیچھے اگر جاندار مقصد نہ ہو تو ایسی ہر کامیابی محض ایک دھوکہ ہے۔
✅ اگر آپ کا وژن صرف مادّی کامیابیوں تک محدود ہے، تو وہ کبھی بھی "کافی" نہیں ہوگا۔
✅ اگر آپ محض مادّی کامیابیوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، لیکن کسی بڑے مقصد سے جُڑے ہوئے نہیں ہیں، تو آپ ایک دن چوٹی پر پہنچ کر بھی خود کو خالی خالی محسوس کریں گے۔
یہی وجہ ہے کہ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ آپ کے پاس سب سے پہلے ایک واضح اور بامقصد وژن ہونا ضروری ہے۔ آپ کی محنت، آپ کا کاروبار، آپ کی کوشش—یہ سب کسی بڑے مقصد سے جُڑے ہونے چاہئیں۔ یہ مقصد محض دولت، عزت یا شہرت نہیں، بلکہ ایسا امپیکٹ و legacy چھوڑنا ہے جو آپ کے جانے کے بعد بھی باقی رہے۔
سوچیے، آپ کس دوڑ میں شامل ہیں؟
دنیا میں ایک اچھی نوکری یا ایک اچھا بزنس کر لینا آپ کی اور ہماری اصل منزل نہیں ہے اور نہ ہونی چاہیے، بلکہ یہ ایک ذریعہ ہے، بڑے مقاصد اور اہداف تک جانے کے لیے۔ اس لیے اگلی منزل کی طرف بھاگنے سے پہلے اپنے آپ سے یہ سوال کریں:
📌 میں ایسا کیا کر رہا ہوں جو میرے بعد بھی باقی رہے؟
📌 کیا میری کامیابی واقعی معنویت رکھتی ہے یا بس وقتی خوشی یا وقتی پیسا دے دیتی ہے؟
📌 اگر آج میں اپنے تمام گولز حاصل کرلوں، تو کیا میں واقعی مطمئن ہوں گا کہ میری زندگی کا حقیقی مقصد پورا ہو گیا؟
یاد رکھیے کہ حقیقی سکون ان لوگوں کو ملتا ہے جو سب سے زیادہ حاصل نہیں کرتے، بلکہ ان کو جو اپنی زندگی سے آگے کے لیے جیتے ہیں۔ اپنے کام کو، اپنے کاروبار کو، اپنی پرسنل اور فیملی لائف کو، پاورفل وژنز کے ساتھ جوڑ کر چلیے۔ یعنی، صرف نوکری نہ کیجیے، ایک وژن پر کام کیجیے۔ صرف کاروبار نہ کیجیے، ایک وژن کے تحت کاروبار کیجیے۔ صرف پیسے نہ کمائیے، بلکہ پیسے کمانے کو کسی بڑے وژن کے ساتھ لنک کیجیے۔ صرف شادی نہ کیجیے، ایک وژن کے ساتھ شادی کیجیے۔ صرف بچوں کی پیدائش پر خوشی نہ منائیے، بلکہ اپنی اولاد کے لیے واضح وژنز کا تعین کیجیے۔ خود کو اور اپنی آنے والی نسلوں کو اس خالی پن سے بچائیے جس کا شکار دنیا کی عظیم اکثریت ہوچکی ہے۔
تبصرہ لکھیے