دنیائے ایجاد میں ترقی و کمال کا استعارہ سمجھی جانے والی قوم آج زبوں حالی کا شکار کیوں؟مشرق و مغرب کی وسعتوں کو اپنے مضبوط بازوؤں میں قید کر لینے والی قوم کل جہان کی غلام اور پس خوردہ کیوں؟ علوم و فنون اور حرفت و ہنرمیں استاذ کا درجہِ رکھنے والی قوم پر آج جہالت، دقیانوسی اور قدامت کا سیاہ داغ کیوں؟ تمام دنیا کی قیادت و رہنمائی کے واسطے پیدا کی جانے والی قوم آج تقلید کے تیرہ و تار اندھیروں سر پیٹتی، بھٹکتی سرگرداں کیوں؟ شرافت داری و امانت داری، خودداری و بہادری جیسے روشن اوصاف رکھنے والی اس قوم میں ظلم و جور، ناانصافی و بے ایمانی، رشوت ستانی و حرام خوری، مالی خرد برد، جھوٹ، اقرباء پروری اور ناجانے کتنے ناسور جڑ پکڑ گئے آخر کیوں؟
کیا ہمارے درمیان سے قرآن اٹھالیا گیا؟ کیا ہم تک فخرِ موجودات محسنِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور أسوہ مطہرہ نہیں پہنچا؟ کیا تاریخ کے گرد میں اٹے صفحات نے ہمیں چیخ چیخ کر نبی کے طریقوں پر چل کر ملنے والی دنیا و آخرت کی کامیابیوں کی لازوال داستانیں نہیں سنائیں؟
بات مقدر کی بھی نہیں، کیونکہ تقدیر کا قلم حال کی سیاہی سے مستقبل لکھ رہا ہوتا ہے۔ بات ہے بےوفائی کی، بات ہے وعدہ خلافی کی، بات ہے احسان فراموشی کی، بات ہے ناسپاسی و دغابازی کی۔ ہم کلمہ توحید میں "لا الہ الا اللہ" پڑھ کر خدائے برتر کو تمام جہاں کا مالک و خالق مان لینے کے بعد "محمد الرسول اللہ" پڑھ کر یہ عہد کرتے ہیں کہ جدا کی دی ہوئی سانسوں کو تیرے بتائے کاموں میں لگائیں گے۔ خدا کے دیے ہوئے ہاتھ، پیر اور زبان سے لیکر کر دل و ماغ کے خیالات تک تیری ہر ادا، عمل، سعی، انداز، رفتار، گفتار کی نقل کریں گے۔ ہم تجھ سے خدا کا قرب، تصوف و معرفت کی معراج، زبان کی حلاوت، آنکھوں کی پاکیزگی، اخلاق کی بلندی، اما نت داری و دیانت داری، معاملات کی صفائی، معاشرتی اعلی بلند قدریں، تجارت و معیشت کے اصول، خانگی امور کی خوبصورتی، مسکراہٹوں کی اہمیت، بھائی چارہ، معاف کردینے کی لذت، راتوں کو اٹھ اٹھ کر خدا کے حضور پیشانی ٹیکنے کا کیف سیکھیں گے اور اپنی پوری زندگی ہر ہر لمحہ تیرے بتائے راستہ پر چل کر گزاریں گے۔ تجھ پر سب کچھ وار دینے کا جذبہ ہوگا کہ ادھر جنبشِ لب ہو اور ادھر دیوانے سر ہتھیلیوں پر لیے ہوں، یہاں خرچ کرنے کا حکم ہو وہاں گھر بار لٹادیں، ادھر اذان ہو ادھر شہر کے شہر ویران ہو جائیں۔ سال کی زکوٰۃ ہو یا حج کی ادائیگی کا فریضہ ہو ہم تیرے غلام تیرے حکم پر تیری محبت کی کشش میں بہتے چلیں جائیں گے اور سر تسلیم خم کیے اپنا عہد وفا کریں گے۔
ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دہن مبارک سے نکلے موتیوں جیسے الفاظ کو اہمیت نہیں دی۔ آج ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے طریقوں کو پس پشت ڈالے اپنی من مانی اور دل چاہی راہوں پر گامزن ہیں۔
آج اقدار کی ہوس، دولت کی چمک، نسلی تفاخر، علاقائی رسوم، بغض، حسد، کینہ، غصہ اور تکبر جیسی بری اخلاقی قدروں نے ہمیں دنیا کے سامنے ذلیل و رسوا کردیا ہے۔ فلک کی سرحدوں سے جھانکتے ملائکہ بھی ہماری خود سری پر ماتم کناں ہیں۔
اس قیامت خیز مصیبت سے نکلنے کا واحد حل اپنے آپ کو سیرت طیبہ کے خوبصورت سانچے میں ڈھالنے میں ہے۔ ہماری نجات اور سرخروئی سیرت طیبہ پر عمل کر کے حاصل ہوسکتی ہے۔ سب سے پہلے خود کو سیرت طیبہ پر عمل کا خوگر بنائیں۔ اس کے بعد اپنے ماتحت بیوی بچے ۔ اسی طرح درد مند دل اور امت کی خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ سیرت پر عمل کو فروغ دے دیں۔ گلی گلی، کوچہ کوچہ سیرت طیبہ کے خوبصورت نغمیں سنائیں۔ اسی سے دونوں جہانوں کی کامیابی ملے گی۔
تبصرہ لکھیے