ہوم << کس طرح سے پتا چلے گا کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ؟ عاطف ہاشمی

کس طرح سے پتا چلے گا کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ؟ عاطف ہاشمی

دنیا کی تاریخ میں ہر دور میں حق اور باطل کے درمیان کشمکش جاری رہی ہے۔ ہر قوم کو کسی نہ کسی موڑ پر ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا، جہاں سچائی اور گمراہی کے درمیان امتیاز واضح ہو کر سامنے آیا۔ انسانی فطرت یہ چاہتی ہے کہ اسے سچ اور جھوٹ، روشنی اور تاریکی، راہِ راست اور گمراہی کے درمیان فرق معلوم ہو، تاکہ وہ اپنے فیصلے درست بنیادوں پر کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعے ہمیشہ انسانیت کو ہدایت کا راستہ دکھایا اور حق و باطل میں امتیاز کرنے والے واضح اصول عطا کیے۔ قرآن مجید، جو اللہ کی آخری کتاب ہے، اسی بنیاد پر "الفرقان" کہلاتی ہے، کیونکہ یہ سچ اور جھوٹ میں قطعی فرق پیدا کرنے والی کتاب ہے۔ اسی طرح، غزوۂ بدر کو بھی "یوم الفرقان" کہا گیا، کیونکہ اس دن حق اور باطل کے درمیان عملی طور پر ایسا امتیاز قائم ہوا، جو ہمیشہ کے لیے ایک مثال بن گیا۔

حق اور باطل کے درمیان امتیاز کی ضرورت:
انسانی تاریخ میں سب سے بڑا المیہ یہی رہا ہے کہ حق اور باطل اکثر باہم خلط ملط ہو جاتے ہیں، اور لوگ حقیقت سے دور ہو کر ظاہری چمک دمک میں الجھ جاتے ہیں۔ سورہ فرقان اسی الجھن کو دور کرنے کے لیے نازل کی گئی، تاکہ انسان کو یہ واضح طور پر معلوم ہو کہ اللہ کے محبوب بندے کون ہیں اور وہ لوگ کون ہیں جو اللہ کی ناراضگی کا شکار ہوتے ہیں۔ اسی طرح سورہ شعراء میں انبیاء کی دعوت اور ان کے مخالفین کے طرزِ عمل کو بیان کیا گیا، تاکہ دعوتِ حق کے تقاضے اور ردِ عمل کی مختلف صورتیں ہمارے سامنے آئیں۔

سورہ فرقان کی ابتدا میں ہی اللہ نے اس کتاب کی بنیادی صفت بیان کر دی کہ یہ وہ فرقان ہے جو بندوں کو روشنی اور اندھیرے کے درمیان فرق سکھاتی ہے۔ یہی فرق قیامت تک باقی رہنے والا ہے، کیونکہ ہر دور میں باطل نئے چہروں اور نئی شکلوں میں آتا ہے، لیکن اس کا اصل مقصد ہمیشہ حق کو دبانے اور لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کرنا ہوتا ہے۔ اللہ نے فرمایا: تبارک الذی نزل الفرقان علی عبده لیكون للعالمین نذیرًا (بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لیے ڈرانے والا بنے)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کا بنیادی مقصد انسانوں کو صحیح اور غلط کے درمیان امتیاز سکھانا اور انہیں باطل کے فریب سے محفوظ رکھنا ہے۔

باطل کی خصوصیات اور اس کے پیروکار:
قرآن نے ہمیشہ گمراہی کے پیروکاروں کی نشانیاں واضح کی ہیں، تاکہ انسان فریب میں نہ پڑے۔ سورہ فرقان میں ان لوگوں کی تین بنیادی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ پہلی یہ کہ وہ اللہ کی ذات و صفات کا انکار کرتے ہیں اور غیر اللہ کی عبادت کو اختیار کرتے ہیں۔ دوسری یہ کہ وہ اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنا لیتے ہیں، یعنی ان کا ہر فیصلہ ذاتی پسند و ناپسند پر مبنی ہوتا ہے، نہ کہ کسی عقلی یا اخلاقی بنیاد پر، أرأیت من اتخذ إلٰهَهُ هواه یعنی وہ اپنی خواہشات کے پجاری ہوتے ہیں۔

تیسری بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ رسولوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور انہیں محض عام انسان سمجھ کر ان کی تعلیمات کو نظرانداز کرتے ہیں۔ یہی اعتراض نبی اکرم ﷺ پر بھی کیا گیا کہ مال هذا الرسول يأكل الطعام ويمشي في الأسواق (یہ کیسا رسول ہے جو کھاتا پیتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے)۔
آج کے دور میں بھی یہی رویہ موجود ہے، جہاں دین کی بات کرنے والے افراد کو دقیانوسی اور غیر عملی قرار دے کر ان کی تعلیمات کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ گمراہی کے یہ انداز ہمیشہ ایک جیسے رہیں گے، بس ان کی صورتیں بدلتی رہیں گی۔

اللہ کے محبوب بندوں کی صفات:
حق اور باطل کے درمیان فرق واضح کرنے کے بعد، سورہ فرقان میں اللہ نے اپنے محبوب بندوں کی خوبیاں تفصیل سے بیان کی ہیں، تاکہ مومن ان صفات کو اپنا کر اللہ کے قرب کے مستحق بن سکیں۔ سب سے پہلی اور بنیادی صفت عاجزی اور انکساری ہے۔ الذین یمشون علی الارض هونًا یعنی وہ زمین پر نرمی اور وقار کے ساتھ چلتے ہیں۔ اس کا مطلب صرف جسمانی چال نہیں بلکہ پورے طرزِ زندگی میں متواضع ہونا ہے۔ ایسے لوگ دوسروں کے ساتھ متکبرانہ رویہ اختیار نہیں کرتے اور کسی کے ساتھ زیادتی یا سخت کلامی سے پرہیز کرتے ہیں۔
دوسری بڑی صفت یہ ہے کہ وہ جاہلوں کے ساتھ بحث و تکرار میں نہیں پڑتے بلکہ نرمی سے اپنا موقف بیان کر کے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں، وإذا خاطبهم الجاهلون قالوا سلامًا۔ اس کے علاوہ، وہ اپنی راتیں

قیام و سجود میں گزارتے ہیں"یبیّتون لربهم سجدًا وقیامًا" اور مال کے استعمال میں میانہ روی اختیار کرتے ہیں، والذین إذا أنفقوا لم يسرفوا ولم يقتروا یعنی وہ فضول خرچی بھی نہیں کرتے اور کنجوسی بھی نہیں برتتے۔ وہ جھوٹے الزامات اور جھوٹی گواہیوں سے دور رہتے ہیں، خود بھی نیکی کی راہ پر چلتے ہیں اور اللہ سے اپنے لیے نیک نسل کی دعا کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے اہل و عیال کو بھی اللہ کی راہ پر چلائیں۔

یہ صفات ایک ایسے انسان کی تصویر پیش کرتی ہیں، جو عملی طور پر دین پر چلتا ہے اور اپنی شخصیت سے حق کی پہچان بن جاتا ہے۔

سورہ شعراء: انبیاء کا دعوت کے لیے مروجہ ذرائع کا استعمال:
سورہ شعراء میں اللہ نے یہ وضاحت کی ہے کہ انبیاء نے اپنے اپنے دور میں حق اور باطل میں امتیاز پیدا کرنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کیے۔ سب سے اہم اصول یہ تھا کہ ہر نبی نے اپنی قوم کو ان کی زبان میں اور ان کی سمجھ کے مطابق دعوت دی اور وہی مروجہ ذرائع استعمال کیے جو ان میں رائج تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰؑ نے جادوگروں کے مقابلے میں معجزات ذریعے قومِ فرعون پر حق واضح کیا، کیونکہ اس وقت جادو کا غلبہ تھا تو فرعون نے وہی پروپیگنڈا کیا اور کہا: إِنْ هَـٰذَآ إِلَّا سِحْرٌۭ مُّفْتَرًى وَمَا سَمِعْنَا بِهَـٰذَا فِىٓ ءَابَآئِنَا ٱلْأَوَّلِينَ کہ (یہ تو ایک من گھڑت جادو ہے، اور ہم نے اس جیسی کوئی بات اپنے آباء و اجداد میں نہیں سنی)۔ حضرت شعیبؑ نے تجارت اور مالی معاملات میں بددیانتی کے خلاف آواز بلند کی، کیونکہ ان کی قوم کا سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا۔ اسی طرح، نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں شاعری اور خطابت کا رواج تھا، تو مخالفین نے قرآن کو شاعری اور افسانہ کہہ کر رد کرنے کی کوشش کی۔ اللہ نے جواب دیا: والشعراء يتبعهم الغاوون... إلا الذين آمنوا وعملوا الصالحات (گمراہ لوگ شاعروں کی پیروی کرتے ہیں، مگر وہ شعراء جو ایمان لائے اور صالح اعمال کیے، وہ مستثنیٰ ہیں)۔اور اسی لیے حسان بن ثابتؓ جیسے صحابہ نے شاعری کو اسلام کے دفاع اور پیغمبر کی مدح سرائی کے لیے استعمال کیا۔

یہ اصول آج بھی ہمارے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے کہ دعوتِ حق کے لیے ہر دور کے مؤثر ذرائع استعمال کیے جائیں۔ اگر آج کا دور میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا ہے، تو ہمیں انہی ذرائع کو حکمت اور بصیرت کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے، تاکہ باطل کے پروپیگنڈے کا مؤثر جواب دیا جا سکے اور فرقان کے پیغام کو عام کیا جا سکے۔

سورہ فرقان ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اللہ کے محبوب بندے وہ ہیں جو عاجزی، صبر، عبادت اور اعتدال کے اصولوں پر کاربند ہوتے ہیں، جبکہ سورہ شعراء یہ سبق دیتی ہے کہ ہر نبی نے اپنی دعوت کے لیے مختلف حکمتِ عملی اپنائی، تاکہ حق کو مؤثر انداز میں پہنچایا جا سکے۔ آج کے دور میں بھی یہی اصول ہمارے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں کہ ہمیں دعوت و تبلیغ میں جدید تقاضوں کو سمجھنا ہوگا اور حق و باطل کے فرق کو واضح کرنے کے لیے ایسے ذرائع اختیار کرنے ہوں گے جو عام فہم اور مؤثر ہوں۔ سورہ شعراء ہمیں بتاتی ہے کہ جھوٹ پر چلنے والوں میں تین نمایاں صفات ہوتی ہیں:
1. تکبر اور غرور: وہ خود کو برتر اور عقل کل سمجھتے ہیں۔
2. سچ کو دبانے کے لیے غلط بیانی، دھمکی اور پروپیگنڈا سمیت ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔
3.ان کا مقصد نہ صرف خود گمراہ ہونا ہوتا ہے، بلکہ پروپیگنڈے کے ذریعے دوسروں کو بھی سچ سے دور رکھنا ہوتا ہے۔

آج کے دور میں سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کیا ہم سچ پر کھڑے ہیں؟ یا پھر حق ہماری نظروں میں بھی دھندلا چکا ہے؟ اگر ہم قرآن اور انبیاء کی روشنی میں اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو ہمیں احساس ہوگا کہ سچ ہمیشہ واضح ہوتا ہے، لیکن ہم نے اپنی آنکھوں پر دنیاوی خواہشات، جدید نظریات اور میڈیا کے پروپیگنڈے کی دھند چڑھا لی ہے۔

سورہ فرقان ہمیں کھول کھول کر بتاتی ہے کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا؟ اور سورہ شعراء ہمیں سکھاتی ہے کہ جھوٹ کے پیروکار ہمیشہ ایک جیسے ہوتے ہیں۔ اب سچ اور جھوٹ کے درمیان سورہ فرقان اور سورہ شعراء کی کھینچی ہوئی اتنی واضح لکیر کے بعد ہمیں خود فیصلہ کرنا ہے کہ ہم لکیر کی کس طرف کھڑے ہیں؟

Comments

Avatar photo

عاطف ہاشمی

عاطف ہاشمی قطر میں مقیم محقق اور مترجم ہیں، سپریم جوڈیشل کونسل قطر میں ترجمانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں. اسلامی و سماجی علوم، عربی ادب اور ترجمہ دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ کتاب "تیس نشستیں: قرآن کریم کے ساتھ" قرآن کے موضوعات میں باہمی ربط کے حوالے سے ایک اہم تصنیف ہے، جو پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی شائع ہو چکی ہے۔

Click here to post a comment