ہوم << جب عورت خود نیلامی پر آ جائے! - بلال شوکت آزاد

جب عورت خود نیلامی پر آ جائے! - بلال شوکت آزاد

دنیا کا سب سے پرانا دھندا آج بھی اُسی طرح سے چل رہا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ پہلے عورت کو زبردستی بیچا جاتا تھا، آج وہ خود آزادی و ایمپاورمنٹ کے نام پر "لائیکس اور ڈالرز" کے عوض اپنے جسم کی بولی لگوا رہی ہے۔

پہلے جسم فروشی کے لیے دلال درکار ہوتے تھے، آج انٹرنیٹ نے عورت کو اس زحمت سے بھی آزاد کر دیا ہے! اب اُسے کسی "کوٹھے" پر جانے، کسی "میڈم" کی چاکری کرنے یا کسی "ایجنٹ" کی محتاجی نہیں۔ اسمارٹ فون آن کرو، ٹرینڈنگ ایپ کھولو، اور اپنا جسم دنیا کے ہر اس مرد کے سامنے پیش کر دو جس کے پاس انٹرنیٹ کنکشن اور کریڈٹ کارڈ موجود ہو اور جو گھر بیٹھی ایک عورت سے بیزار ہوچکا ہو۔

پہلے جسم بیچنے کے لیے عورت کو گلی کوچوں، ہوٹلوں اور مخصوص علاقوں میں جانا پڑتا تھا، آج ٹک ٹاک، انسٹاگرام، اور اونلی فینز وغیرہ نے اُسے اس تکلف سے بھی آزاد کر دیا ہے۔ اب وہ اپنے ہی گھر کے بیڈروم میں بیٹھ کر، بیٹی کے ساتھ اسکول کا ہوم ورک بھی چیک کر رہی ہے اور ساتھ ہی "ویورز" کو بھی مطمئن کر رہی ہے۔

یہ سب آزادی کے نام پر ہو رہا ہے، اور عورت خود کو اتنی آزاد سمجھتی ہے کہ خود ہی اپنے جسم کی مارکیٹنگ کر رہی ہے، خود ہی اپنے دام لگا رہی ہے، اور خود ہی نچلے طبقے کی عورتوں کو طعنہ دے رہی ہے کہ وہ "کمپلیکس" کا شکار ہیں!

مرد کو ہمیشہ سے عورت کی ہوس رہی ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں۔ نئی بات یہ ہے کہ اب مرد کو بھیک مانگنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ عورت خود اُس کے قدموں میں آ کر کہہ رہی ہے کہ "لائیک، کمنٹ، سبسکرائب اور شیئر کرو، اور اگر زیادہ مزہ چاہیے تو ممبرشپ خرید لو!"

یہ وہی عورت ہے جو "عزت اور برابری" کے نعرے لگاتی تھی، جو کہتی تھی کہ "ہم صرف شوہر کے لیے نہیں پیدا ہوئیں، ہمیں مرد کی محتاجی نہیں، ہمیں ہماری زندگی جینے دو!" اور پھر خود ہی چند پیسوں کے عوض کسی اجنبی مرد کی اسکرین پر اپنا جسم پیش کر کے اُس کے کمینٹس پڑھ کر شرم سے نہیں، خوشی سے پھولے نہیں سما رہی!

پہلے عورت جسم فروشی پر مجبور تھی، آج وہ "چوائس" کے نام پر خود بیچ رہی ہے۔ اور اس پر فخر بھی کر رہی ہے!

کیا تمہیں معلوم ہے کہ پچھلے دس سالوں میں، جسم فروشی سے زیادہ تیزی سے بڑھنے والا کاروبار "ڈیجیٹل ایڈلٹ انٹرٹینمنٹ" ہے؟ 70 بلین ڈالر کی انڈسٹری، جس کا سب سے بڑا ہتھیار "مغربی فیمینزم" اور "فریڈم آف ایکسپریشن" ہے۔

عورت کو بتایا گیا کہ اگر تم ایک گھر میں، ایک شوہر کے ساتھ رہو، تو تمہاری آزادی سلب ہو جائے گی۔ لیکن اگر تم ہر اجنبی مرد کے موبائل پر ناچتی پھرو، نیم عریاں تصاویر بیچو، اور اپنی پرائیویٹ لائف کو پبلک کر کے اس پر ڈالر بٹورو، تو یہ "ایمپاورمنٹ" ہے!

یہ کیسی آزادی ہے؟
جب تم خود دکان پر بیٹھ جاؤ، تو پھر گاہکوں کی نیت پر شک کیسا؟

یہ وہی عورتیں ہیں جو کل تک کہتی تھیں کہ "مرد ہمیں عزت سے قبول نہیں کرتا، ہمیں استعمال کر کے چھوڑ دیتا ہے، ہمارے جذبات سے کھیلتا ہے!" اور آج یہی عورتیں خود کو اس بازار میں لے آئی ہیں جہاں مرد نے اُن کے جذبات نہیں، صرف "ویوز اور لائیکس" خریدنے ہیں۔

یہ وہی عورتیں ہیں جو گھروں میں بیٹھے اپنی بہنوں کو "قدامت پسند" کہتی ہیں، مگر خود کیمرے کے سامنے لباس کی حدیں پار کرنے میں عار محسوس نہیں کرتیں۔ یہ وہی عورتیں ہیں جو کہتی ہیں کہ "مرد ہم پر حکمرانی نہ کرے!" لیکن خود ایک ایپ کے نوٹیفکیشن پر اپنی پوری زندگی کا کنٹرول کسی دوسرے کے ہاتھ میں دے چکی ہیں۔

یہ مسئلہ صرف عورت کا نہیں، پورے سماج کا ہے۔ مرد کو جان بوجھ کر مجبور کیا گیا کہ وہ ایک عورت تک محدود رہے، مگر اس کی فطرت میں جو بھوک تھی، اس کا کوئی متبادل نہیں دیا گیا۔ اور جب ایسا ہوا، تو 70 بلین ڈالر کی مارکیٹ نے اس "بھوک" کو خریدنے، بیچنے، اور منافع کمانے کا نظام بنا لیا۔

سوال یہ نہیں کہ عورت بیچ رہی ہے، سوال یہ ہے کہ وہ کیوں بیچ رہی ہے؟
کیونکہ اسے بتایا گیا ہے کہ یہ "جدید دنیا" کا اصول ہے!
یہ آزادی نہیں، سب سے بڑی غلامی ہے!
یہ برابری نہیں، سب سے بڑی ذلت ہے!
یہ ایمپاورمنٹ نہیں، سب سے بڑی بربادی ہے!
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جب عورت خود "لائیکس اور ڈالرز" کے بدلے بِکنے کو تیار ہو، تو پھر کسی اور کو الزام دینے کا حق کہاں رہتا ہے؟