ہوم << باکردار فرد اور پاکیزہ معاشرے کی بنیاد - عاطف ہاشمی

باکردار فرد اور پاکیزہ معاشرے کی بنیاد - عاطف ہاشمی

اسلام نے انسانیت کے لیے جو اخلاقی اور روحانی رہنمائی فراہم کی ہے، وہ فرد کے تزکیہ کے ساتھ ساتھ معاشرے کی اصلاح کا وسیلہ بھی ہے۔ قرآن مجید کی مختلف سورتوں میں فرد اور معاشرے کی اصلاح کے لیے نہ صرف روحانی اصول بیان کیے گئے ہیں، بلکہ انفرادی کردار کی تعمیر اور اجتماعی آداب کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا ہے۔ سورہ مومنون اور سورہ نور ان اصولوں کی وضاحت کرتی ہیں جو ایک مثالی فرد اور پاکیزہ معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری ہیں۔ سورہ مومنون میں کامیاب مومنین کی صفات، عبادات، اخلاقی آداب، اور آخرت کی کامیابی کے اصول بیان کیے گئے ہیں، جبکہ سورہ نور میں ایک پاکیزہ معاشرتی نظام کی وضاحت کی گئی ہے، جس میں عفت و حیا، زنا کی ممانعت، نگاہوں کی حفاظت، تہمت سے اجتناب اور خاندانی نظام کے استحکام پر زور دیا گیا ہے۔

انفرادی کردار کی اہمیت:
انفرادی کردار کا پہلا عنصر ایمان کی پختگی ہے۔ سورہ مومنون کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالی نے اہل ایمان کی درج ذیل صفات بیان کی ہیں:قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ، الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ (یقیناً کامیاب ہیں وہ مومن جو اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں)
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ کامیاب انسان وہ ہے جو اپنے ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے، اور نماز جیسی عبادت میں خشوع و خضوع اختیار کرتا ہے۔ نماز فرد کی روحانی پاکیزگی کا آغاز ہے، جو اس کے دل کی صفائی، دماغ کے سکون اور اخلاق کی بلندی کا ذریعہ ہے۔

فضولیات سے اجتناب:
آیت نمبر 3 میں ایک اور اہم خوبی یہ بیان کی گئی ہے کہ مؤمن وہ ہیں جو عن اللَغْوِ مُعْرِضُونَ (فضول اور بے فائدہ باتوں سے دور رہتے ہیں)۔
یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ ایک مومن کا وقت قیمتی ہوتا ہے، اور اسے لغویات اور غیر ضروری مشاغل میں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ آج کے معاشرے میں سوشل میڈیا، بے مقصد تفریح اور غیر ضروری مصروفیات نے لوگوں کو دین اور تعمیری کاموں سے غافل کر دیا ہے۔ ایسے میں اس آیت کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔

زکوٰۃ اور سماجی ذمہ داری:
زکوٰۃ کی ادائیگی نہ صرف مال کو پاک کرتی ہے بلکہ معاشرے میں اقتصادی توازن اور مساوات کو یقینی بناتی ہے۔ آج کے دور میں، جہاں معاشی ناہمواری اور غربت بڑھ رہی ہے، اسلامی فلاحی نظام کی اہمیت مزید واضح ہوتی ہے۔ ایک اچھے فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی دولت میں دوسروں کا حق پہچانے اور سماج کے کمزور طبقے کی مدد کرے۔

فحاشی اور بے حیائی سے اجتناب:
ایک اور اہم صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ مومن وہ ہیں جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ (اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں)
یہ تعلیم آج کے دور میں اور بھی زیادہ اہم ہو چکی ہے جہاں فحاشی اور بے حیائی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ میڈیا، انٹرنیٹ اور سوشل پلیٹ فارمز پر غیر اخلاقی مواد کو عام کر دیا گیا ہے، لیکن قرآن پاکیزگی اور شرم و حیا کو ایک صالح فرد کی پہچان قرار دیتا ہے۔

امانت داری اور وعدے کی پاسداری:
سورہ مومنون کی آیات میں مزید بیان کیا گیا ہے کہ ایمان کے ساتھ ساتھ انسان کے کردار میں سچائی، امانت داری اور آبرو کی حفاظت بھی ہونی چاہیے: وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ (اور وہ جو اپنے امانتوں اور وعدوں کا خیال رکھتے ہیں)
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ سچے مومن کا کردار نہ صرف عبادات میں بلکہ اس کے روزمرہ کے معاملات میں بھی اخلاقی اصولوں پر استوار ہوتا ہے۔ فرد کی روحانی صفات اس کی روزمرہ کی زندگی میں نمودار ہوتی ہیں، اور یہی اس کی سچائی کی علامت بنتی ہے۔ فرد کی مذکورہ بالا صفات بیان کرنے کے بعد انسان کی تخلیق کے مراحل کا ذکر ہے، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اسلام روحانی و اخلاقی وجود کو جسمانی وجود سے بھی مقدم رکھتا ہے، یہی تخلیق کے مراحل پڑھ کر مشہور ڈاکٹر... اس کتاب کی حقانیت کے قائل ہو گیے تھے اور الحاد سے توبہ کر کے وحدہ لاشریک خدا پر ایمان لے آئے تھے.

سورہ نور: ایک پاکیزہ معاشرے کی بنیاد:
جہاں سورہ مومنون ایک کامیاب فرد کے کردار کی وضاحت کرتی ہے، وہیں سورہ نور ایک پاکیزہ اور منظم معاشرے کے لیے رہنما اصول فراہم کرتی ہے۔ یہ سورت معاشرتی فحاشی کے خاتمے، عفت و عصمت کے تحفظ اور باہمی عزت و احترام کو یقینی بنانے کے قوانین پر مشتمل ہے۔
. زنا کی ممانعت اور اس کی سخت سزا:
ٱلزَّانِيَةُ وَٱلزَّانِى فَٱجْلِدُوا۟ كُلَّ وَٰحِدٍۢ مِّنْهُمَا مِا۟ئَةَ جَلْدَةٍۢ" (النور: 2) زنا ایک ایسا گناہ ہے جو نہ صرف فرد بلکہ پورے معاشرے کو تباہ کر دیتا ہے۔ آج کے دور میں جہاں فحاشی اور بے حیائی عام ہو چکی ہے، یہ قرآنی اصول معاشرے کو اخلاقی تباہی سے بچانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

الزام تراشی اور بہتان سے اجتناب:
اسلام میں فرد کی تطہیر کا مقصد صرف اس کی روحانیت کی تکمیل نہیں، بلکہ اس کے معاشرتی کردار کو بھی درست کرنا ہے تاکہ وہ اپنے معاشرے میں مثبت تبدیلی کا سبب بنے۔ سورہ نور میں اللہ تعالی نے معاشرتی آداب پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، چنانچہ جھوٹا الزام لگانے کے حوالے سے فرمایا:
وَٱلَّذِينَ يَرْمُونَ ٱلْمُحْصَنَـٰتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا۟ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَٱجْلِدُوهُمْ ثَمَـٰنِينَ جَلْدَةًۭ" (النور: 4) یہ اصول آج کے معاشرے میں بہت اہم ہے جہاں کسی کی عزت کو نقصان پہنچانا بہت آسان ہو چکا ہے۔ میڈیا اور سوشل نیٹ ورکس پر لوگ بغیر تحقیق کے الزامات لگا دیتے ہیں، جو کہ قرآن کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔

گھروں میں داخل ہونے کے آداب:
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَدْخُلُوا۟ بُيُوتًۭا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا۟ وَتُسَلِّمُوا۟ عَلَىٰٓ أَهْلِهَا ۚ"( النور: 27) یہ آیت نجی زندگی کے احترام اور پرائیویسی کے تحفظ کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے، اور بغیر اجازت کسی کے گھر یا کمرے میں جانے سے روکتی ہے۔

نظریں نیچی رکھنا اور پاکدامنی:
آج کے دور میں، جہاں میڈیا اور انٹرنیٹ نے ہر طرح کے غیر اخلاقی مناظر عام کر دیے ہیں، نگاہوں کی حفاظت ایمان کی بقا کے لیے نہایت ضروری ہے۔ چنانچہ معاشرتی عفت و پاکیزگی کے لیے آیت نمبر 30 اور 31 میں مومن مردوں اور عورتوں کو نظریں نیچی رکھنے اور پاکدامنی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے: قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ (مومن مردوں سے کہو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں)
یہ آیت نہ صرف فرد کی اخلاقی پاکیزگی کی بات کرتی ہے بلکہ معاشرتی نیکی کی طرف بھی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اگر ہر فرد اپنی حدود کو پہچانے اور ان آداب کی پیروی کرے تو معاشرے میں فحاشی اور بدکاری کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔ یہی معاشرتی اصلاح کے بنیادی اصول ہیں جن پر عمل کرنے سے سماج کی فلاح کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔

حجاب اور خواتین کی عزت و وقار:
سورہ نور میں خواتین کے حجاب کو ان کی عزت اور وقار کی علامت قرار دیا گیا ہے۔
وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا (اور وہ اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، سوائے جو از خود ظاہر ہو جائے)
یہ تعلیم خواتین کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لیے دی گئی ہے تاکہ وہ عزت و احترام کے ساتھ معاشرتی زندگی میں کردار ادا کر سکیں۔

عصر حاضر میں انفرادی کردار اور اجتماعی آداب:
عصر حاضر میں جہاں دنیا میں مختلف ثقافتوں، مذاہب اور معاشرتی نظاموں کے اثرات ہیں، وہاں اسلام کی یہ تعلیمات فرد اور معاشرے کے لیے بے حد اہمیت رکھتی ہیں۔ آج کے دور میں جب افراد کا ذہنی اور روحانی تعلق کمزور پڑتا جا رہا ہے، یہ ضروری ہے کہ ہم قرآن کی تعلیمات کو اپنانا شروع کریں تاکہ فرد کی روحانیت اور معاشرتی تعلقات مضبوط ہوں۔

اگر ہم ان قرآنی ہدایات کو اپنی زندگیوں میں نافذ کریں تو نہ صرف فرد کی روحانی ترقی ممکن ہو گی بلکہ پورا معاشرہ ایک خوبصورت اور متوازن نظام میں ڈھل جائے گا۔ ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ قرآن کی تعلیمات میں فرد اور معاشرت کی اصلاح کے جو اصول بیان کیے گئے ہیں، ان پر عمل کرنے سے ہی ہم ایک روشن، پاکیزہ اور کامیاب معاشرے کی تشکیل کر سکتے ہیں۔

Comments

Avatar photo

عاطف ہاشمی

عاطف ہاشمی قطر میں مقیم محقق اور مترجم ہیں، سپریم جوڈیشل کونسل قطر میں ترجمانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں. اسلامی و سماجی علوم، عربی ادب اور ترجمہ دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ کتاب "تیس نشستیں: قرآن کریم کے ساتھ" قرآن کے موضوعات میں باہمی ربط کے حوالے سے ایک اہم تصنیف ہے، جو پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی شائع ہو چکی ہے۔

Click here to post a comment