ہوم << تربیت یافتہ خاندان اور مثالی معاشرے کے قیام کے زریں اصول - عاطف ہاشمی

تربیت یافتہ خاندان اور مثالی معاشرے کے قیام کے زریں اصول - عاطف ہاشمی

خاندان انسانی معاشرے کی اہم اکائی ہے، کہ انسانی معاشرہ خاندان کی بنیاد پر تشکیل پاتا ہے، اور ایک تربیت یافتہ خاندان ہی ایک صالح اور مثالی معاشرے کی ضمانت دیتا ہے۔ اسی لیے اسلام میں والدین اور اولاد کے باہمی تعلقات، گھر اور معاشرے کی تربیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پر ان موضوعات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے، خاص طور پر سورہ مریم اور سورہ طہ میں ہمیں ایسے اصول ملتے ہیں جو نہ صرف ایک اچھے خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں بلکہ ایک منظم قوم اور معاشرے کی تشکیل میں بھی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ سورہ مریم میں والدین اور اولاد کے تعلقات اور ان کی ذمہ داریوں کا ذکر کیا گیا ہے، جبکہ سورہ طہ میں قوم اور معاشرے کی تربیت کے اصول واضح کیے گئے ہیں، یہ دونوں سورتیں مل کر ہمیں ایک جامع تربیتی خاکہ فراہم کرتی ہیں، جس پر عمل کر کے ہم ایک مضبوط خاندان اور ایک مثالی معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔

سورہ مریم: والدین اور اولاد کے تعلقات:
سورہ مریم میں اللہ تعالیٰ نے والدین اور اولاد کے درمیان محبت، ادب، اور ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کے پہلے دو رکوعوں میں حضرت زکریا، حضرت مریم، اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کے واقعات کے ذریعے اولاد کے حصول، والدین کی دعائیں، اور اولاد کی نیک صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔

والدین کی دعا اور اولاد کی پرورش:
والدین کی ذمہ داری صرف اولاد کو دنیا میں لانے تک محدود نہیں بلکہ ان کی نیک تربیت کرنا بھی ان کی اہم ذمہ داری ہے۔ حضرت زکریا کی دعا اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک نیک اولاد کے لیے صرف مادی اسباب پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرنی چاہیے:
رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً ۖ إِنَّكَ سَمِيعُ ٱلدُّعَاءِ (سورہ آل عمران: 38) "اے میرے رب! مجھے اپنی طرف سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعا سننے والا ہے۔" یہ دعا اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ اولاد محض دنیاوی نعمت نہیں بلکہ ایک عظیم ذمہ داری ہے جسے پورا کرنے کے لیے والدین کو اللہ تعالیٰ کی مدد درکار ہوتی ہے۔

والدین کے ساتھ حسنِ سلوک:
سورہ مریم میں والدین کے احترام اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی گئی ہے۔ خاص طور پر حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے بعد جب ان پر الزام لگایا گیا، تو انہوں نے اللہ کے حکم سے گہوارے میں کلام کرتے ہوئے فرمایا: وَبَرًّاۢ بِوَٰلِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا" (سورہ مریم: 32) "اور اس نے مجھے اپنی والدہ کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا بنایا اور مجھے سرکش اور بدبخت نہیں بنایا۔" یہ آیت واضح کرتی ہے کہ والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا ایک نیک اولاد کی پہچان ہے۔ اسی طرح، حضرت یحییٰ کے بارے میں بھی فرمایا گیا: وَبَرًّاۢ بِوَٰلِدَيْهِ وَلَمْ يَكُن جَبَّارًا عَصِيًّا (سورہ مریم: 14) "اور وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے والے تھے اور وہ سرکش اور نافرمان نہ تھے۔"

والدین کی غلطیوں کے باوجود ان سے حسن سلوک:
سورہ مریم کے تیسرے رکوع میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنے مشرک والد کے ساتھ مکالمہ ذکر کیا گیا ہے، جس میں انہوں نے اپنے والد کے کفر کے باوجود پیار سے خطاب کیا اور ان کے لئے ہدایت کی دعا کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک نیک تربیت یافتہ بیٹا اپنے والد کے غلط عقائد کے باوجود بھی ان سے محبت اور احترام کے ساتھ بات کرتا ہے۔

چوتھے رکوع میں پہلے حضرت موسیٰ کے گھر والوں کو دین پر چلنے کی نصیحت کا تذکرہ ہے اور پھر ان انبیاء کا ذکر ہے جن کی اولاد دین کی حامل ہوئی۔ اس کے بعد ایسی ناخلف اولاد کی مذمت کی گئی جو نمازوں کو ضائع کرتی اور اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق زندگی گزارتی ہے۔ پانچویں رکوع میں روز قیامت جی اٹھنے اور دینی تربیت کے موافق زندگی گزارنے والوں کے لیے نجات کی خوشخبری ہے۔ جبکہ آخری رکوع میں ایک اہم حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور وہ یہ کہ اولاد کا ہونا انسانی ضرورت ہے، اللہ کی ذات پر قسم کی ضرورت سے پاک ہے۔ اور ایسے لوگوں کو انتہائی سخت الفاظ میں وعید سنائی گئی ہے جو اللہ کے لیے اولاد کا دعویٰ کرتے ہیں۔پوری سورت کا مرکزی مضمون یہی ہے کہ اولاد کی دینی و اخلاقی بنیادوں پر تربیت کی جائے، اور چونکہ سب سے پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہوتی ہے اس لیے سورہ مریم کا نام ایک ماں کے نام پر رکھا گیا ہے۔

سورہ طہ: قوم اور معاشرے کی تربیت:
جہاں سورہ مریم میں والدین اور اولاد کے درمیان تعلقات اور ذمہ داریوں کا ذکر کیا گیا ہے، وہیں سورہ طہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں بنی اسرائیل کی تربیت اور ان کے مزاج کی تفصیل سے وضاحت کی گئی ہے۔ بنی اسرائیل ایک ایسی قوم تھی جسے اللہ نے فرعون کے ظلم و ستم سے نجات دی، مگر وہ مسلسل آزمائشوں اور ہدایت کے باوجود بے صبری اور سرکشی کا مظاہرہ کرتی رہی۔ ان کی تربیت کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو وحی، معجزات اور واضح احکامات دیے، مگر وہ بار بار گمراہی کا شکار ہوتے رہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کوہِ طور پر بلایا تاکہ انہیں تورات دی جائے، جو بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے ایک مکمل شریعت تھی: وَوَاعَدْنَا مُوسَىٰ ثَلَاثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً (سورہ طہ: 12) "اور ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور پھر اسے دس (مزید) سے پورا کر دیا، پس اس کے رب کا وعدہ چالیس راتوں میں پورا ہو گیا۔" تو حضرت موسی اپنے بھائی حضرت ہارون کو اپنا نائب مقرر کر کے گئے، جس سے قیادت کے لیے نائب کی تعیین کا اصول بھی سامنے آتا ہے. ان کی غیرموجودگی میں بنی اسرائیل نے بچھڑے کی پرستش شروع کر دی، جو کہ سامری نامی شخص نے ان کے لیے بنایا تھا۔ سامری نے چالاکی سے ان کے اندر شرک کی رغبت پیدا کی، اور وہ حضرت ہارون کی نصیحت کے باوجود گمراہی کی طرف مائل ہو گئے: فَرَجَعَ مُوسَىٰ إِلَىٰ قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا قَالَ يَا قَوْمِ أَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا أَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ أَمْ أَرَدتُّمْ أَن يَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَخْلَفْتُم مَّوْعِدِي (سورہ طہ: 86) "پس موسیٰ اپنی قوم کی طرف غصے اور افسوس کے ساتھ واپس آئے، فرمایا: اے میری قوم! کیا تم سے تمہارے رب نے اچھا وعدہ نہیں کیا تھا؟ کیا تم پر (انتظار کا) وقت طویل ہو گیا تھا، یا تم نے ارادہ کیا تھا کہ تم پر تمہارے رب کا غضب نازل ہو، جو تم نے میرے وعدے کی خلاف ورزی کی؟"

حضرت موسیٰ جب واپس آئے تو انہوں نے اپنی قوم کو بچھڑے کی عبادت کرتے دیکھا، جس پر انہیں سخت غصہ آیا۔ انہوں نے حضرت ہارون کو اس معاملے پر سخت الفاظ میں مخاطب کیا اور ان کی داڑھی اور سر کے بال پکڑ لیے: قَالَ يَا هَارُونُ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَهُمْ ضَلُّوا أَلَّا تَتَّبِعَنِ أَفَعَصَيْتَ مْرِي قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي إِنِّي خَشِيتُ أَن تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي (سورہ طہ: 92-94) "موسیٰ نے کہا: اے ہارون! جب تم نے انہیں گمراہ ہوتے دیکھا تھا تو تمہیں کس چیز نے روکا کہ تم میری پیروی نہ کرو؟ کیا تم نے میرے حکم کی نافرمانی کی؟ ہارون نے کہا: اے میری ماں کے بیٹے! میری داڑھی اور میرے سر کے بال نہ پکڑو، میں تو اس بات سے ڈرا کہ کہیں تم یہ نہ کہو کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میرے حکم کا پاس نہیں رکھا۔"

اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رہنما کو اپنے نائب اور ماتحتوں کا محاسبہ بھی کرتے رہنا چاہیے اور ضرورت پڑنے پر اصلاح کی غرض سے کبھی سختی سے بھی کام لیا جا سکتا ہے۔ یہ آیات ہمیں قیادت، محاسبے، اور تنظیمی ڈھانچے کے اصول سکھاتی ہیں، جو کسی بھی معاشرے کی اصلاح اور ترقی کے لیے ناگزیر ہیں۔

سورہ طہ کے آخر میں گھروالوں کو نماز کی تلقین پر رزق میں فراوانی اور ابدی سعادت کا وعدہ کیا گیا ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ خود بھی صبر کے ساتھ اللہ کی اطاعت میں زندگی بسر کریں اور اپنے اہل خانہ کو بھی اسی کا حکم کریں۔"وامر اھلک بالصلاۃ واصطبر علیھا، لانسئلک رزقا نحن نرزقک، والعاقبۃ للتقوی"کہ دینی واخلاقی تربیت کرتے رہیں، اس نہج پر چلنا ہی سعادت، رزق میں اضافے اور انجام خیر کا سبب بنے گا۔

سورہ مریم اور سورہ طہ میں والدین اور اولاد کے تعلقات، خاندان کے استحکام، اور قوم کی تربیت کے اصول واضح کیے گئے ہیں۔ ایک کامیاب معاشرہ تبھی تشکیل پاتا ہے جب:
والدین اپنی اولاد کی نیک تربیت کریں اور ان کے لیے دعاگو رہیں۔
اولاد والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرے اور ان کا احترام کرے۔
قیادت کو. کبھی سختی اور کبھی نرمی سے کام لینا چاہیے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سختی اختیار کی، جبکہ حضرت ہارون علیہ السلام نے نرمی کا راستہ اپنایا۔
سربراہ اور قیادت کی غیر موجودگی میں نائب مقرر کیا جائے اور اس کا محاسبہ کیا جائے۔
گھر کے سربراہ کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اہل خانہ کو نماز اور اچھائی کی تلقین کرتا رہے۔
یہ تمام اصول اسلامی معاشرت کے بنیادی ستون ہیں، جن پر عمل کر کے ایک تربیت یافتہ خاندان اور مثالی معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے۔

Comments

Avatar photo

عاطف ہاشمی

عاطف ہاشمی قطر میں مقیم محقق اور مترجم ہیں، سپریم جوڈیشل کونسل قطر میں ترجمانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں. اسلامی و سماجی علوم، عربی ادب اور ترجمہ دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ کتاب "تیس نشستیں: قرآن کریم کے ساتھ" قرآن کے موضوعات میں باہمی ربط کے حوالے سے ایک اہم تصنیف ہے، جو پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی شائع ہو چکی ہے۔

Click here to post a comment