جعفرایکسپریس ٹرین کے حالیہ واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ واقعہ پاکستان میں ایک سٹینڈ آف کی صورتحال پیدا کر چکا ہے، لیکن یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے نومبر 2024 کو کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر بم بلاسٹ کے نتیجہ میں 27 افراد جاں بحق اور 64 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ اور اس سے بھی پیچھے جائیں تو نہتے عام شہریوں پر ظلم کی داستانیں امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے دور سے جا ملتی ہیں۔ جب امریکہ نے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر پاکستان میں ڈرون حملے کرنے شروع کیے۔ اسی بہانے سے بلوچستان میں سی آئی اے اور بلیک واٹر جیسی بدنام زمانہ ایجنسیوں نے اپنا جال بچھایا۔ را کو بھی اپنے قدم جمانے کا موقع ملا، تب سے صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی چلی جا رہی ہے، اور کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا ہے. حکومتی غلط پالیسیوں نے بھی اس کی راہ ہموار کی، اکبر بگٹی کے قتل نے گویا جلتی پر تیل کا کام کیا۔
بلوچستان کے مسئلے کو ہمیشہ سے ہی پاکستان کی قومی ریاست کے ساتھ منسلک شکایات کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے، جو کہ سو فیصد درست ہے۔ لیکن یہ بھی ایک سچ ہے کہ بی ایل اے اور بی آراے جیسی دہشت گرد تنظیمیں بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں کھیلتی ہیں۔ ان طاقتوں میں امریکہ سے لیکر بھارت شامل ہیں، جو بلوچستان کے ذخائر پر بین الاقوامی کمپنیوں کے ذریعے براہ راست قبضہ کرنا چاہتے ہیں، یا پھر بروکر کے طور پر ان ذخائر سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ بی ایل اے اور بی آر اے کے دہشت گردچاہتے ہیں کہ حکومت پاکستان کو کھڈے لائن لگا کر، خود براہ راست بلوچستان کے سارے ذخائر کا سودا بیرونی کمپنیوں کے ساتھ کریں اور ان سے فائدہ اٹھائیں. اس لیے بیرونی طاقتوں سے مدد لیکر پاکستانی ریاست کو دھمکاتے ہیں۔ ظاہر ہے بی ایل اے جیسی تنظیموں کی یہ براہ راست ڈیل اسی وقت ممکن ہے، جب بلوچستان کو پاکستان سے الگ ایک علیحدہ ریاست بنایا جائے۔
بلوچستان کے حالات اور واقعات اتنے سادہ نہیں ہیں جتنےسمجھتے ہیں. کہا جاتا ہے کہ یہ افسوسناک اور ظلم پر مبنی حالات بلوچ عوام کے مطالبات پورے نہ ہونے اور ریاست کے مظالم کا رد عمل ہیں۔ لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ بی ایل اے اور بی آر اے جیسی تنظیموں کے پیچھے اصل طاقتیں کون ہیں؟ کیا ان تنظیموں میں سے کوئی بھی بلوچ عوام کی نمائندگی کر رہا ہے؟ کیا صرف بلوچستان کا مسئلہ ہے؟ کیا بلوچستان کو الگ ریاست بنا کرعوام کو ان کے حقوق مل جائیں گے؟
بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے. بلوچستان کے معدنی وسائل چاہے گیس کی شکل میں ہوں، یا دیگر اہم معدنیات کی شکل میں، ہمیشہ بڑی طاقتوں کے لیے کشش کا باعث رہے ہیں۔ جرمنی کے ایک ادارے کی ریسرچ اور تصدیق کے مطابق بلوچستان میں گیس کے ذخائر کی ملکیت 800 بلین ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔ سونے، چاندی، کاپر اور یورینیم کے 500 بلین ڈالر سے زیادہ کے ذخائر ہیں، اور ان کے علاوہ قیمتی پتھروں کا 100 بلین ڈالر سے زیادہ کا ذخیرہ ہے۔ صوبے کے پاس گوادر پورٹ بھی ہے جس کی دو وجوہات کی بنا پر بہت زیادہ اہمیت ہے۔ پہلی یہ کہ علاقے میں دوسری بندرگاہوں جیسے چاہ بہار کی نسبت اس کے پانی کی گہرائی بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے بڑے سے بڑے بحری جہاز بھی لنگر انداز ہو سکتے ہیں، دوسری یہ کہ گوادر پورٹ افغانستان اور وسطی ایشیاء کے ممالک سے قریب تر ہے۔ ان دونوں خصوصیات کی بناء پر گوادر کی بندر گاہ روس، چین اور امریکہ سمیت تمام علاقائی طاقتوں کے لیے زبردست تجارتی اور عسکری اہمیت کی حامل ہے۔ تو اگر اب بھی ہم یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ یہ ساری گیم وسائل پر قبضے کی ہے، تو ہمیں اپنی عقل پر ماتم کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے وسائل پر عالمی طاقتیں وسائل پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں، اور قوم پرستی کے نام پر کچھ لوگ ان کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ بلوچستان کی عوام کی کسمپرسی ناقابل بیان ہے. ویسے جیسے افریقہ کے کئی ممالک کی ہے، جو قدرتی وسائل سے یورپی ممالک سے زیادہ مالا مال ہیں لیکن گوروں نے ان کے وسائل لوٹ لیے، مگر انھیں کبھی آگے نہ بڑھنے دیا، اور آج بظاہر آزاد ہو کر بھی یہ ممالک اپنے پاؤں پر نہیں کھڑے ہو پا رہے، اور بین الاقوامی اداروں کی امداد کے محتاج ہیں. جو لوگ نام نہاد انسانی حقوق کی بات کرنے والوں کے پیچھے لگ کر ہر مسئلے کا حل علیحدگی کی شکل میں مانگتے ہیں، وہ یہ کبھی نہیں سوچیں گے کہ ہمارے علاقوں کو تقسیم کرنے والے خود "United States" بنا کر کیوں رہ رہے ہیں؟؟ جو مسلم اکثریتی علاقے نیشن اسٹیٹس میں منقسم ہو چکے ہیں، وہاں کے سرمایہ دار اور طاقتور طبقے کے علاوہ کون خوشحال ہے؟ عوام تو ہر نیشن اسٹیٹ میں تباہ حالی کا شکار ہے۔
مزید یہ کہ پاکستان کے عوام رمضان المبارک میں اس بات سے تو پریشان ہوں گے کہ شاید ٹوتھ پیسٹ کرنے سے ان کا روزہ ٹوٹ جائے گا، لیکن قوم پرستی کے نام پر خون بہانے اور لوگوں کو جاہلیت یعنی اسلام کے پہلے کے زمانہ (کفر) کی طرف زور و شور سے بلا کر امت کو تقسیم کرنے پر کوئی پریشانی محسوس نہیں کرتے۔ ایسے میں روزہ تو کیا، نہ جانے اپنا دین بھی برقرار رہتا ہے کہ نہیں۔ جی ہاں، عصبیت یعنی پنجابی، بلوچی، سندھی، پختون جیسے قوم/نسل پرستی کے نعرے لگانا اور دوسروں کو اس کی طرف بلا کر امت مسلمہ کو تقسیم کرنا حرام ہے، اور اس کی خاطر لڑتے ہوئے مر جانے والوں کو جہنم کی وعید ہے۔ بلوچ دہشت گرد بھی اسی قوم پرستی کی وجہ سے اسلام کے اس حکم کو نہ صرف بھول چکے ہیں، الٹا معصوم لوگوں کو قتل کر کے دوہرا عذاب مول لے رہے ہیں. ایسے لوگ نہ دنیا میں چین پائیں گے نہ ہی آخرت ان کے لیے جائے قرار ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ صرف بلوچ قوم پرستی عروج پر ہے، یہاں تو پنجابی بھی عصبیت پر اپنی قوم کو جگانے کی کوشش رہے ہیں، پختون اور سندھی قوم پرست بھی پیچھے نہیں ہیں۔
قوم پرستی ایسی لعنت ہے جسے اللہ رب العالمین اور رسول کریم ﷺ نے سخت ناپسند فرمایا: یہی عصبیت جب قبول اسلام اور بدر و احد میں بے مثال قربانیاں دینے کے بعد مسلماںوں میں (مہاجرین اور انصار) میں پیدا ہونے لگی تو اللہ رب العالمین نے فرمایا: اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ (آل عمران 103). عصبیت کی سنگینی کو حضور کریم ﷺ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا: ’’لوگ اپنی قوموں پر فخر کرنا چھوڑ دیں، کیوں کہ وہ جہنم کے کوئلوں میں سے ایک کوئلہ ہی ہے، اگر وہ باز نہ آئے تو وہ اللہ کے نزدیک گوبر کے اس کیڑے سے زیادہ ذلیل ہوجائیں گے جو اپنی ناک سے بدبو اور گندگی کو دھکیلتا ہے۔‘‘ (ابوداؤد، 5116). یہ لمحہ فکریہ ہے اور اس پر غور کی ضرورت ہے۔ ہم رمضان المبارک میں چھوٹی چھوٹی بات پرروزے کے ٹوٹ جانے پر تو بہت حساس ہیں، لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اللہ کی رسی کو توڑتے وقت ہمیں شرم کیوں نہیں آتی؟ مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا اور ایک دوسرے کے خون سے ہاتھ رنگنا کیا ایک مسلمان کے لیے جائز ہے؟
بلوچستان کے عوام پر ظلم اور پنجابی، پختون، سندھی مسلمانوں کے قتل کے خاتمے کا واحد راستہ اسلامی معاشی نظام اور پالیسی کو اپنانے میں ہے۔ کیونکہ یہی وہ نظام ہے جو قدرتی وسائل، معدنی ذخائر اور دیگر قومی اثاثوں کو تمام مسلمانوں کی مشترکہ ملکیت قرار دیتا ہے۔ اسلام کے اصول واضح ہیں کہ ان وسائل پر کسی ایک فرد، گروہ یا بیرونی کمپنی کی اجارہ داری نہیں ہو سکتی، بلکہ یہ دولت عوام کی فلاح کے لیے وقف ہے، اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اسے منصفانہ طور پر تقسیم کرے، نہ کہ بین الاقوامی یا لوکل پرائیویٹ کمپنیوں کے حوالے کرے۔ یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ سرمایہ دارانہ نظام نے ہمیشہ قدرتی وسائل کو نجی ملکیت میں تبدیل کرکے عوام کو مزید غربت، پسماندگی اور خونریزی کی طرف دھکیلا ہے۔ چاہے وہ افریقی ممالک ہوں، مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر ہوں، یا بلوچستان کی معدنیات— ہر جگہ ایک ہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں عوام کو "قوم پرستی" کے نعروں میں الجھا کر لڑایا جا رہا ہے، تاکہ اصل طاقتیں اپنا کھیل آسانی سے کھیل سکیں۔
بلوچستان کا مسئلہ محض بلوچ قوم کا مسئلہ نہیں بلکہ ہم سب پر کی جانے والی ایک عالمی سازش کا حصہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ بندوق، خونریزی اور علیحدگی سے حل نہیں ہوگا، بلکہ اس کا واحد حل ایک مضبوط اسلامی ریاست میں ہے، جو سرمایہ دارانہ نظام سے نجات حاصل کرکے عوامی فلاح پر مبنی نظام قائم کرے۔ ریاست کو چاہیے کہ بیرونی دباؤ میں آکر مقامی قیادت کو نظرانداز کرنے کے بجائے انھیں ساتھ لے کر چلے، بلوچستان میں غیر ملکی ایجنسیوں اور ان کے اثرات کو ختم کرے، مذاکرات پر زور دے، اور ملکی اثاثے بیرونی کمپنیوں کے حوالے کرنے کی بجائے خود ان کے انتظامات کرے۔ افغانستان اور ایران کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھائے، اس طرح بلوچستان خود ہی ریاست کے ہاتھ آ جائے گا۔
ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ علاقائی قوم پرستی کے نعرے "بلوچ فرسٹ، پنجابی فرسٹ، پشتون فرسٹ" اسی وقت جنم لیتے ہیں جب ہم "پاکستان فرسٹ، افغانستان فرسٹ" جیسے نعرے لگاتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اسلام کو اپنی شناخت بنائیں، اسلامی ریاست اور اسلامی نظام کو اپنی ترجیح بنائیں، تو یہ وہ نعرہ ہوگا جس کے آگے ہر عصبیت خودبخود دم توڑ دے گی۔ جب تک ہم اللہ کی زمین کو قوموں میں بانٹ کررکھیں گے، تب تک خون بہتا رہے گا؛ لیکن جس دن ہم زمین کو اللہ کی امانت اور امت کو ایک جسم سمجھیں گے، اسی دن ہر ظلم اور جنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔
تبصرہ لکھیے