فیمینزم، ایک ایسا سماجی نظریہ جو دنیا بھر میں صنفی مساوات کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کی جدوجہد کر رہا ہے، آج پاکستان میں بھی فکری و سماجی مباحث کا ایک اہم موضوع بن چکا ہے۔ تاہم، سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی معاشرے میں فیمینزم واقعی خواتین کی خودمختاری، آزادی اور بااختیاری کا ذریعہ بن رہا ہے، یا یہ محض ایک مخصوص طبقے کا بیانیہ ہے جو زمینی حقائق سے کٹا ہوا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں فیمینزم کے نظریاتی پس منظر، پاکستانی معاشرتی ڈھانچے، اس تحریک کے اثرات اور اس پر اٹھنے والی تنقید کا تفصیلی تجزیہ کرنا ہوگا۔
فیمینزم: نظریاتی بنیاد اور عالمی تناظر
فیمینزم محض ایک تحریک نہیں، بلکہ ایک فکری ارتقاء ہے جو مختلف ادوار میں مختلف نظریاتی جہتوں سے گزرا ہے:
• لبرل فیمینزم: قانونی و سیاسی برابری پر زور دیتا ہے۔
• ریڈیکل فیمینزم: معاشرتی اداروں کو صنفی جبر کا منبع سمجھتا ہے۔
• سوشلسٹ/مارکسسٹ فیمینزم: معاشی ڈھانچے کو جبر کی جڑ قرار دیتا ہے۔
• اسلامی فیمینزم: مساوات کو اسلامی اصولوں کی روشنی میں بیان کرتا ہے۔
پاکستان میں یہ تمام رجحانات کسی نہ کسی حد تک موجود ہیں، لیکن ان میں سب سے زیادہ واضح تضاد "اسلامی روایت" اور "جدید مغربی فہم" کے بیچ ابھرتا ہے، جو اس مباحثے کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ پاکستانی معاشرت میں فیمینزم کی ابتدا اور ارتقاء
پاکستان میں فیمینزم کا آغاز محض ایک مغربی تصور کی نقل سے نہیں ہوا۔ اس کی جڑیں ان سماجی تحریکوں میں بھی پیوست ہیں جو:
• خواتین کی تعلیم کے فروغ کے لیے میدان میں آئیں (بیگم رقیہ سخیوات، فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی خان)
• ضیاء الحق کے دور آمریت میں خواتین کے خلاف قوانین کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بنیں.
بعد ازاں، 2000 کی دہائی کے بعد سوشل میڈیا کی آمد نے فیمینزم کے بیانیے کو ایک نئی جہت دی، لیکن اسی کے ساتھ غلط فہمیوں، سادہ بیانیوں اور نظریاتی شدت پسندی نے اس تحریک کو کئی سوالات کی زد میں بھی لا دیا۔
حقیقی امپاورمنٹ: فیمینزم کی مثبت جہات
اگر ہم فیمینزم کو اس کی عملی جدوجہد کے تناظر میں پرکھیں، تو یہ تحریک کئی حوالوں سے خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے مثبت اثرات مرتب کر چکی ہے:۲۔ تعلیمی اور معاشی خودمختاری
• لڑکیوں کی اسکول اور کالج تک رسائی میں بہتری.
• اسکالرشپ پروگرامز، ٹیکنیکل ٹریننگ، ووکیشنل سکلز.
• خواتین کی کارپوریٹ سیکٹر اور انٹرپرینیورشپ میں شمولیت۔
سماجی بیداری
• جنسی ہراسانی، کم عمری کی شادی، تولیدی صحت، اور ذہنی صحت جیسے موضوعات اب پبلک ڈسکورس کا حصہ بنے ہیں۔
خواتین کی آواز کی نمائندگی
• میڈیا، سیاست، اور سول سوسائٹی میں خواتین کی شرکت بڑھی ہے۔
• پارلیمنٹ میں مخصوص نشستوں سے خواتین کی شمولیت میں اضافہ ہوا، حالانکہ ان کی قوتِ اثر اب بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
تنقید: جب نظریہ محض بیانیہ بن جائے
فیمینزم پر ہونے والی تنقید کو یکسر نظر انداز کرنا نہ دانشمندی ہے اور نہ انصاف۔ درج ذیل پہلوؤں پر فکری سوالات جنم لیتے ہیں:
مغربی ایجنڈے کا تاثر
• بعض حلقے فیمینزم کو خاندانی نظام اور مذہبی اقدار کے خلاف سازش کے طور پر دیکھتے ہیں۔
• اسلامی معاشرت میں "حقوق و فرائض" کا توازن فیمینزم کے مغربی ورژن سے مختلف ہے، جس سے تہذیبی تصادم پیدا ہوتا ہے۔
شہری و دیہی تقسیم
• دیہی علاقوں میں خواتین کو پانی، تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات تک رسائی حاصل نہیں، جبکہ فیمینزم کا بیشتر بیانیہ شہری مسائل پر مرتکز ہے۔
سوشل میڈیا ایکٹیوزم کا سطحی پن
• "میرا جسم میری مرضی" جیسے نعرے جذباتی اثر ضرور ڈالتے ہیں لیکن گہرائی سے خالی بیانیے تحریک کو نظریاتی انتشار میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
ریڈیکل عناصر کی موجودگی
• بعض گروہ فیمینزم کی آڑ میں صنفی منافرت یا مرد دشمنی کو فروغ دیتے ہیں، جو فیمینزم کی اصل روح — مساوات — سے انحراف ہے۔
ضرورت کس چیز کی ہے؟
• نظریاتی بیلنس: فیمینزم کو اسلام اور ثقافت کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے، جیسا کہ اسلامی فیمینزم کی مثالیں پیش کرتی ہیں۔
• پالیسی اصلاحات: قانون سازی کے ساتھ ساتھ عمل درآمد کے میکنزم کو مضبوط کیا جائے۔
• انکلوسیو ڈسکورس: فیمینزم کو دیہی، اقلیتی اور محروم طبقات کے تجربات سے جوڑا جائے۔
• ادارہ جاتی تبدیلی: صرف شعور کافی نہیں؛ تعلیم، صحت، انصاف، اور معیشت کے ادارے خواتین کی ضروریات کے مطابق ڈھالے جائیں۔
نتیجہ: بیانیہ یا بیداری؟
پاکستان میں فیمینزم ایک دو دھاری تلوار ہے: اگر سنجیدہ فکری اور عملی بنیادوں پر استوار کیا جائے تو یہ خواتین کی حقیقی بااختیاری کا مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ محض نعرہ بازی، سوشل میڈیا کی مہمات، اور شہری اشرافیہ کا ڈسکورس بن جائے تو یہ اپنی معنویت کھو بیٹھتا ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سماجی تحریکیں صرف نظریے سے نہیں بلکہ طویل المدتی پالیسی، ادارہ جاتی اصلاحات، اور زمینی عمل سے کامیاب ہوتی ہیں۔ فیمینزم بھی اسی اصول سے مشروط ہے۔
تبصرہ لکھیے