حدیث کے حجت ہونے کی اصولی دلیل
1) قرآن کریم کی درجن سے زیادہ آیات میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، اور اس کو مؤمنوں کے لیے ایک مثال بتلایا گیا ہے اور اس کے چھوڑنے پر انتہائی سخت قسم کی وعیدیں سنائی گئی ہیں۔
2) قرآن کریم نے تو یہاں تک کہ دیا ہے کہ جو بھی نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کہتے ہیں، وہ اپنی خواہشات سے نہیں کہتے ، بلکہ اللہ کی طرف سے آئی وحی سے کہتے ہیں۔
3) اسی طرح اسلام کے اکثریت بنیادی احکامات کی تشریح بھی نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے فرامین و ارشادات کے بغیر ناممکن ہے.
نتیجہ
اس سے پتہ چلتا ہے کہ اصولی اور قانونی طور پر نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی بات ماننا سارے مسلمانوں پر ہی فرض ہے اور اس میں کوئی دو رائے یا شک نہیں ہے۔
منکرین حدیث کے تین اہم گروہ ہیں۔
پہلا گروہ
پہلا وہ گروہ ہے جو کہ واضح منکر حدیث ہے اور جو نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تشریح سے ہٹ کر قرآن کی اپنی ایک تشریح کرتا ہے. یہ گروہ بنیادی اسلامی عبادات جیسے نماز اور روزہ تک میں بھی نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی پیروی نہیں کرتا، بلکہ ان میں سے کچھ رسالت مآب صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے وجود تک کے بھی منکر ہیں۔ ان لوگوں کا ماننا یہ ہے کہ قرآن کی تشریح میں ہمیں رسول پاک کی ضرورت ہی نہیں ہے، بلکہ ہم اس کی تشریح خود ہی جدید زمانہ کے مطابق کریں گے۔
قرآن کے اکثر احکامات Timeless ہے.
قرآن کے اکثر احکامات خاص کر کہ بنیادی احکامات جیسے عبادات جیسے نماز ، روزہ زکوٰۃ حج وغیرہ خود قرآن کریم کی روشنی میں ہی Timeless ہے یعنی کہ وقت کے ساتھ تبدیل ہونے والے ہی نہیں ہیں، سو جدید زمانہ میں ان کی الگ تشریح کرنے کا سوچنا ہی مکمل جہالت ہے۔
صحابہ اور یہ لوگ
اس کے علاوہ یہ کہ صحابہ کرام جو عربی النسل اور عربی زبان بولنے والے تھے، بالمشافہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی صحبت سے فائدہ اٹھاتے تھے، قرآن کو اپنی آنکھوں کے سامنے اترتا ہوا دیکھا تھا ، قرآن کے شان نزول سے مکمل طور پر واقف تھے، اور قرآن کی عربی کو سب سے بہتر جاننے والے تھے، وہ تو نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی تشریح کے بغیر قرآن کو سمجھنے اور اس کے احکامات کو بجا لانے سے قاصر تھے، لیکن آج ہزار سال بعد پیدا ہونے والا ایک عجمی انسان اور عربی زبان کا کم علم رکھنے والا انسان سمجھتا ہے کہ اس کو قرآن کے سمجھنے میں نبی کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے بڑی کوئی جہالت کیا ہوگی۔
منکر قرآن
یہ والے منکرین حدیث "منکر حدیث"ہونے کے ساتھ ساتھ منکر قرآن بھی ہیں کیونکہ جب قرآن نے واضح الفاظ میں کہ دیا ہے کہ نبی کریم کی اطاعت لازمی ہے، اگر یہ ایسا نہیں کر رہے ہیں، تو یہ خود قرآن کے بھی منکر ہیں۔
دوسرا گروہ
منکرین حدیث کا دوسرا وہ گروہ ہے جو کہ احادیث کو ایک Historical record یعنی تاریخی ورثہ سمجھتا ہے۔ ان کے مطابق حدیث ایک اہم چیز ہے، جسے پڑھنا چاہیے، لیکن یہ دین کا حصہ نہیں ہے کیونکہ بہت ساری احادیث قرآن سے کھلم کھلا ٹکراتی ہیں۔ یہ قرآن کی ان آیات پر جن میں رسول اللّٰہ کی اطاعت کا ذکر ہے، کہتے ہیں کہ ہم رسول اللّٰہ کی ضرور پیروی کرتے ہیں، اور ہمارے لیے دین کی بنیاد قرآن و سنت ہی ہے۔ ان کے مطابق سنت ہم تک تواتر عملی وغیرہ سے آئی ہے، سو ہم صرف قرآن اور تواتر کو ہی حجت مانتے ہیں۔
غلط فہمی کا ازالہ
پہلی بات یہ کہ کچھ احادیث کا قرآن کے خلاف پایا جانا کوئی انکشاف نہیں ہے، بلکہ محدثین اس کو پہلے سے جانتے ہیں۔ محدثین حدیث کے دو پہلو بیان کرتے ہیں روایت یعنی کہ کون بیان کر رہا ہے اور درایت یعنی کہ کیا بیان کر رہا ہے، اور محدثین بھی ایسی کسی حدیث کو قبول نہیں کرتے ہیں، جو درایتا قرآن سے متصادم ہو، سو یہ تو بنیادی طور پر محدثین والا ہی اصول ہے۔
سنت کے معلوم کرنے میں مسئلہ
دوسری بات یہ کہ جس راستے سے آپ تک سنت پہنچی ہے، اسی راستے سے آپ تک حدیث بھی پہنچی ہے، سو آپ اس میں امتیاز کس بنیاد پر کرتے ہیں؟ سنت کا سارا ریکارڈ احادیث میں موجود ہے تو اگر آپ احادیث کو حجت نہیں مانتے تو آپ سنت کو کیسے معلوم کر سکتے ہیں؟
تواتر عملی کے لیے حدیث ضروری
اگر آپ کہتے ہیں کہ ہمیں سنت "تواتر عملی" سے ملی ہے، تو یہ دلیل بھی درست نہیں ہے، کیونکہ اگر ہم صرف تواتر عملی کو معیار بناتے ہیں تو ہمیں کئی بدعتوں کو بھی قبول کرنا ہوگا، جو ہم برصغیری مسلمانوں کو سینکڑوں سالوں کے تواتر عملی سے ملی ہیں، لیکن اگر آپ کہتے ہیں کہ نہیں وہ غلط ہے تو آپ کس بنیاد پر ایسا کہتے ہیں؟ اگر آپ ہمیں رسول اللّٰہﷺ کی زندگی سے کوئی حوالہ دیتے ہیں تو وہ حوالہ لازماً کسی حدیث میں محفوظ ہوا ہوگا۔ جب آپ حدیث کا ہی حوالہ دیں گے، تو پھر حدیث کو حجت کیوں نہیں مانتے؟ جب آپ خود اپنی بات کے اثبات میں ہی حدیث کے محتاج ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ "تواتر عملی" بھی احادیث کے بغیر رسول اللّٰہ کے اصل طریقہ تک لے جانے سے قاصر ہے، تو احادیث دین کا لازمی جز ہی ہے۔
ایک سوال
اس کے علاوہ جب آپ کے مطابق آپ رسول اللّٰہ ﷺ کی اطاعت کرتے ہیں تو آپ اس حدیث کو حجت کیوں نہیں مانتے، جس کی روایت و درایت کو دیکھنے کے بعد جمہور محدثین نے یہ بتا دیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے، اور یہ قول واقعی میں نبی کریم ﷺ کا ہی ہے۔ اگر اس سب کے باوجود آپ یہ نہیں مانتے تو آپ جمیع محدثین کو جھوٹا اور اپنی طرف سے رسول اللہ کے حوالے سے بات کرنے والا ظاہر کر رہے ہیں، جو بہت زیادہ غلط روش ہے۔
دو آپشنز
آپ کے پاس دو ہی آپشنز ہیں کہ یا تو حدیث کو حجت مانیں اور یا پھر تمام احادیث کو جھوٹا ثابت کریں، لیکن یاد رہے کہ ایسا کرتے ہوئے وہ احادیث بھی زد میں آئیں گی، جن سے آپ تواتر عملی کا ثبوت دیتے ہیں، سو احادیث کے گرنے سے آپ کا مؤقف بھی گرے گا۔
خلاصہ
الغرض آپ کے اپنے موقف یعنی "تواتر عملی" کے اثبات کے لیے حدیث کا حجت ہونا ضروری ہے۔ اب آپ باقی مکاتب فکر کے مؤقف کے خلاف اپنے مؤقف کو زیادہ مضبوط دکھانے کے لیے تواتر عملی یا پھر سنت کا نام لیتے ہیں تو وہ صرف نام ہی ہے۔ ویسے اکثر اس طبقہ کی داڑھی نہیں ہوتی، حالانکہ داڑھی رکھنا اسی "تواتر عملی" سے ثابت ہے۔
نتیجہ
یہ لوگ اپنے مؤقف کے لیے احادیث کو ہی حجت کے طور پر استعمال کرتے ہیں، اور اس کے بغیر ثابت کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ احادیث واقعی میں حجت ہی ہیں۔
تیسرا گروہ
کچھ منکرین حدیث کے مطابق احادیث رسول اللہ ﷺ کے بجائے راوی کا فہم ہے جسے حجت تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
الزام
سب سے پہلے تو یہ ایک الزام ہے کہ حدیث راوی کا فہم ہے۔ حقیقتا حدیث رسول اللّٰہ ﷺ کا وہ قول ہے جو راوی بیان کر رہا ہے۔
قرآن میں تشکیک
دوسری بات یہ کہ اگر ان کو راوی پسند نہیں ہے تو قرآن بھی خطرہ میں آتا ہے، کیونکہ براہ راست تو ہم نے رسول اللّٰہ ﷺ سے قرآن بھی نہیں سنا، بلکہ راویوں نے اسے بیان کیا ہے، اور ہم تک ان کے واسطے پہنچا ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ چونکہ حدیث رسول اللّٰہ سے ہمیں راوی کے واسطے پہنچا ہے تو یہ حجت نہیں ہے، تو اس طرح قرآن بھی ہمیں راوی کے واسطے پہنچا ہے، اور قرآن کی وہ آیت یعنی کہ ہم نے ہی اسے اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں، بھی ہم تک راوی کے واسطے ہی پہنچی ہے۔ اگر ہم راوی کا ہونا ایک "کمزوری" تصور کریں تو پھر باقی کچھ بھی نہیں بچتا ہے، کیونکہ ہم تک یہ سب کچھ پہنچانے والے راوی ہی ہیں۔
راوی کب حجت ہے؟
ان کو اب امتیاز کرنا ہوگا کہ راوی کا قول کب حجت ہوگا اور کب نہیں ہوگا، کیونکہ جن صحابہ سے قرآن مروی ہے، ان ہی سے احادیث بھی مروی ہے، تو ان کی ایک بات کو قبول کر کے انھی کی دوسری بات کو رد کرنا کہاں کا اصول ہے؟
راوی کو نہ ماننے میں مسائل
راوی کے واسطے کا وجود اگر کسی سقم یعنی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے تو نہ صرف قرآن بلکہ سارا کا سارا شہادتی علم یعنی Testimonial Knowledge ہی ختم ہو جاتا ہے، جس کو ہم سب بشمول غیرمسلم صحیح تسلیم کرتے ہیں، کیونکہ ہم تک اکثریت چیزیں کسی کے واسطے ہی پہنچتی ہیں، اور اگر راوی قابل اعتبار ہے تو اس پر شک نہیں ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر آئزک نیوٹن کون تھا؟ اس کے قوانین کیوں درست ہیں؟ اور کیسے ہیں؟ شیکسپیئر کی بات اس کی ہے یا نہیں ہے؟ یہ ساری چیزیں ہم تک Transmit ہوئی ہیں، اور ہم اسے راوی کے واسطے قبول کرتے ہیں۔ کسی نے بھی تجربات خود نہیں کیے ہیں یا شیکسپیئر سے خود نہیں ملا ہے۔ یہ تو صرف چند مثالیں ہیں ورنہ ہم ایسے علم سے گھرے ہوئے ہیں۔
محدثین کا احتیاط
باقی محدثین نے ہر ایرے غیرے کی بات کو نبی کا قول نہیں مانا ہے، بلکہ اسماء الرجال جیسے اہم اصول احادیث پر ضحیم کتابیں لکھی ہیں، جس میں ان کا مکمل احوال درج کیا ہے، اور جن کے تقویٰ یا حافظہ یا کسی بھی اور چیز پر شک تھا، اس کی بات کو قبول نہیں کیا ہے۔ محدثین نے اپنی زندگیاں لگا کر رسول اللّٰہﷺ کی احادیث کو جمع کیا ہے اور ہر اس چیز کو توجہ دی ہے جو توجہ کی حقدار تھی۔
یہ لوگ پھر قرآن اور دیگر علوم کی تشریح کیسے کریں گے کیونکہ ایک نسل گزرنے کے ساتھ ہی خود ان کی اپنی تعلیمات راوی کی محتاج ہو جائیں گی، اور اس وجہ سے ناقابل اعتبار بن جائیں گی، کیونکہ یہ کچھ اس طرح سے دکھے گا کہ "فلان بن فلاں متوفی فلاں عیسوی فرماتے ہیں کہ راوی کے واسطہ کی وجہ سے حدیث حجت نہیں ہے۔"
اب وہ اگر واسطہ کی شمولیت کی وجہ سے احادیث کو نہ مانیں تو پھر آپ کی بات کیوں مانیں؟ اور اگر آپ کی بات نہ مانیں تو پھر احادیث کو کیوں نہ مانیں؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ احادیث کو نہ ماننے کے لیے کوئی مضبوط وجہ دینی ہوگی نہ کہ آپ کا فہم یہ کر سکتا ہے۔ ہر زمانہ میں ہی لوگ کسی نہ کسی راوی کی بات کو تو ضرور تسلیم کریں گے تو کیوں نہ ان راویوں کی بات کو درست مانا جائے جن کے تقویٰ اور پرہیز گاری میں بھی شک نہیں ہے، اور جو رسول اللّٰہ سے ہی بات کو بیان کرتے ہیں۔
نتیجہ
ان کے اصول Consistent نہیں ہیں۔ جن صحابہ سے روایت شدہ قرآن کو یہ مانتے ہیں انھی سے روایت شدہ احادیث کو نہیں مانتے ہیں، اور سارے محدثین کو بلاوجہ کی تشکیک سے دیکھتے ہیں، جس کی ان کے ساتھ بدظنی کے علاوہ کوئی بھی بنیاد نہیں ہے۔ یعنی کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللّٰہ پر ہر راوی نے ہی جھوٹ بولا ہے اور وہ غلط ہے، اور ہم آپ کو قرآن کی تشریح کر کے بتائیں گے۔ ان سے یہی سوال ہے کہ ہر راوی نے رسول اللّٰہ پر جھوٹ بولا ہے، اس کا آپ کے ساتھ کیا ثبوت ہے؟
تبصرہ لکھیے