ہوم << سید ابوالاعلیٰ مودودی: ایک نظریے کی کہانی - میاں احمد فاروق

سید ابوالاعلیٰ مودودی: ایک نظریے کی کہانی - میاں احمد فاروق

تاریخ میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو محض افراد نہیں، بلکہ ایک نظریہ ہوتے ہیں۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی بھی ایک ایسا ہی نام ہے—ایسا نام جس نے اسلامی فکر کو ایک نیا رخ دیا، ایسا قلم جس نے امت کو خوابِ غفلت سے جگایا، اور ایسا چراغ جس کی روشنی آج بھی کروڑوں ذہنوں کو منور کر رہی ہے۔ یہ کہانی ہے ایک ایسے شخص کی، جو نہ بادشاہ تھا، نہ جرنیل، نہ کسی بڑی سلطنت کا حکمران۔ مگر اس کی سوچ نے تاریخ کا دھارا بدل دیا، اور اس کی تحریروں نے ہزاروں دلوں میں ایک نیا ولولہ پیدا کر دیا۔

ابتدا: ایک عام بچہ، غیر معمولی خواب
25 ستمبر 1903ء کو اورنگ آباد (دکن، ہندوستان) کے ایک علمی اور مذہبی گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ نام رکھا گیا ابوالاعلیٰ۔ یہ وہ دور تھا جب برصغیر میں مغربی استعمار کا تسلط تھا، اور مسلمان فکری زوال کے اندھیروں میں بھٹک رہے تھے۔ مگر اس بچے کے دل میں کچھ اور ہی چراغ جل رہے تھے۔ سید مودودی نے رسمی تعلیم تو حاصل کی، مگر اصل تعلیم کتابوں اور زندگی کے تجربات سے پائی۔ کم عمری میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، اور حالات نے انہیں خود کفیل ہونے پر مجبور کر دیا۔ مگر یہ مشکلات ان کے حوصلے کو شکست نہ دے سکیں۔ وہ پڑھتے رہے، سوچتے رہے، اور ایک ایسے مشن کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کر لیا، جو آنے والی نسلوں کی تقدیر بدل دے گا۔

الفاظ کی طاقت: قلم کا مجاہد
کچھ لوگ تلوار سے جنگ کرتے ہیں، اور کچھ قلم سے۔ سید مودودی کا ہتھیار قلم تھا، اور ان کی جنگ فکری غلامی کے خلاف تھی۔ انہوں نے صحافت سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور جلد ہی ان کا شمار برصغیر کے مؤثر ترین لکھاریوں میں ہونے لگا۔ 1932ء میں انہوں نے ماہنامہ "ترجمان القرآن" کا اجرا کیا، جو آگے چل کر ایک تحریک کی بنیاد بن گیا۔ اس جریدے کے ذریعے انہوں نے اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر پیش کیا—نہ صرف عبادات میں، بلکہ سیاست، معیشت اور معاشرت میں بھی۔ یہ وہ دور تھا جب مسلمانوں کے ذہنوں میں یا تو مغربی فکر کا غلبہ تھا، یا محض روایتی مذہبیت۔ سید مودودی نے ان دونوں انتہاؤں کو چیلنج کیا اور اسلام کو ایک جدید، متحرک اور ہمہ گیر نظامِ زندگی کے طور پر پیش کیا۔

جماعت اسلامی: ایک خواب کی تعبیر
یہ 26 اگست 1941ء کی بات ہے۔ لاہور میں 75 افراد اکٹھے ہوئے، اور ایک تحریک کی بنیاد رکھی گئی—جماعتِ اسلامی۔ یہ کوئی عام تنظیم نہیں تھی، بلکہ ایک انقلابی نظریے کی شروعات تھی۔ سید مودودی کا ماننا تھا کہ اسلام محض ایک مذہب نہیں، بلکہ ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ ان کا خواب ایک ایسا معاشرہ تھا، جہاں اللہ کی حاکمیت ہو، جہاں انصاف ہو، جہاں ہر فرد اپنی زندگی قرآن اور سنت کے مطابق گزارے۔ جماعت اسلامی نے نہ صرف علمی و فکری محاذ پر کام کیا، بلکہ عملی سیاست اور سماجی اصلاح کے میدان میں بھی اپنی جگہ بنائی۔ مودودی صاحب نے کبھی اقتدار کی ہوس نہیں رکھی، بلکہ ان کا مقصد اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ذہن سازی کرنا تھا۔

مشکلات اور آزمائشیں: قید و بند کی صعوبتیں
سچ بولنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے، اور جب کوئی حق کی آواز بلند کرتا ہے، تو آزمائشیں اس کا مقدر بن جاتی ہیں۔ سید مودودی کی زندگی بھی ایسی ہی آزمائشوں سے بھری ہوئی تھی۔ 1953ء میں جب قادیانی مسئلہ شدت اختیار کر گیا، تو انہوں نے اس پر مدلل مؤقف پیش کیا۔ نتیجہ؟ حکومتِ پاکستان نے انہیں سزائے موت سنا دی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ہر طرف خوف اور خاموشی چھائی ہوئی تھی، مگر سید مودودی کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ عوامی دباؤ اور عالمی مداخلت کے بعد یہ سزا عمر قید میں بدل دی گئی، اور کچھ عرصے بعد انہیں رہا کر دیا گیا۔ مگر یہ واضح ہو گیا کہ یہ شخص اپنی بات سے پیچھے ہٹنے والا نہیں۔

تفہیم القرآن: ایک شاہکار
اگر کوئی ایک چیز سید مودودی کو ہمیشہ زندہ رکھے گی، تو وہ ان کی تفسیر "تفہیم القرآن" ہے۔ یہ صرف ایک تفسیر نہیں، بلکہ ایک فکری انقلاب تھا۔ انہوں نے قرآن کے پیغام کو سادہ، مگر مدلل اور علمی انداز میں پیش کیا۔ یہ تفسیر آج بھی لاکھوں لوگوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہے، اور کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔

آخری ایام اور ورثہ
1979ء میں سید مودودی علیل ہو گئے۔ انہیں علاج کے لیے امریکہ لے جایا گیا، مگر وہاں 22 ستمبر کو ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کی وصیت کے مطابق، انہیں لاہور میں دفن کیا گیا، اور ان کے جنازے میں لاکھوں افراد شریک ہوئے۔ مگر سید مودودی صرف ایک جسم نہیں تھے، وہ ایک فکر تھے، اور فکر کبھی مرتی نہیں۔ آج بھی ان کی تحریریں دنیا بھر میں پڑھی جاتی ہیں، اسلامی تحریکیں ان کے نظریات سے راہنمائی لیتی ہیں، اور ان کی جدوجہد نئی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بنی ہوئی ہے۔

سید مودودی ہم سے کیا چاہتے تھے؟
سید مودودی کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ:
اسلام صرف عبادات تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل نظامِ زندگی ہے۔
باطل نظاموں کے خلاف کھڑا ہونا ضروری ہے، چاہے اس کی قیمت قید و بند ہی کیوں نہ ہو۔
قلم کی طاقت، تلوار سے زیادہ اثر رکھتی ہے—اگر اسے صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے۔
اگر آپ حق پر ہیں، تو مشکلات آئیں گی، مگر ثابت قدمی ہی کامیابی کی کنجی ہے۔

سید مودودی چلے گئے، مگر ان کی فکر آج بھی زندہ ہے۔ اب سوال یہ ہے: کیا ہم ان کے پیغام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے تیار ہیں؟

Comments

Avatar photo

میاں احمد فاروق

میاں احمد فاروق نے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے فکرانگیز لٹریچر سے متاثر ہوکر قلم کی دنیا میں قدم رکھا۔ ان کی تحریریں ایمان، حق اور سچائی سے جُڑے گہرے جذبات کی عکاس ہیں۔ علم کی شمع جلانے اور حق کی روشنی پھیلانے کے جذبے کو اپنے قلم کی طاقت سمجھتے ہیں۔ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ روشنی اسلامک اور راہِ حق جیسے پلیٹ فارمز کے بانی ہیں

Click here to post a comment