ہوم << 6 مئی: شق القمر کا واقعہ اور ہندو راجہ - تاج الدین

6 مئی: شق القمر کا واقعہ اور ہندو راجہ - تاج الدین

مئی 617 ء کی چھ تاریخ تھی اوائل شب کا خوشگوار وقت تھا . جنوبی ہندوستاں کی ریاست مالابار (کیرالہ) کا ہندو راجہ چکراوتی فرماس، چند خاص مشیروں اور ملکہ کے ساتھ اپنی راجدھانی کنڈولنگر میں واقع شاہی محل کی چھت پر کھڑا تھا .

چیرا خاندان سے تعلق رکھنے والے اس راجہ کا لقب چرا من پیرو مل تھا اور وہ جنوبی ہند کا سب سے طاقتور حکمران تھ.ا اس کی ریاست سارے جنوبی ہندوستان میں سیلون (سری لنکا) سے سندھ تک کےپھیلی ہوئی تھی . چودھویں کا چاند اپنی پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا. صاف و شفاف آسمان پر لاکھوں ستارے جگنوؤں کی طرح ٹمٹما رہے تھے کہ اچانک اس کی نگاہ چاند پر پڑی .

چاند دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا پھر دونوں ٹکڑے ایک دوسرے سے دور ہونے لگے. اس نے اپنی ملکہ اور وزیروں کو اس طرف متوجہ کیا. سب حیران نگاہوں سے یہ ناقابل یقین منظر دیکھنے لگے . پھر ان کے دیکھتے ہی دیکھتے دونوں ٹکڑے ایک بار پھر جڑ گئے جیسے کبھی علیحدہ ہوئے ہی نہ تھے . راجہ بے چین ہوگیا، اس نے فوراً ریاست کے سارے نجومیوں اور ماہرین فلکیات کو حاضر ہونے کا حکم دیا . ان میں سے کئی لوگوں نے بھی شق القمر کا یہ واقعہ دیکھا تھا. راجہ کے استفسار پر انہوں نے اسے بتایا کہ عرب کی سرزمین پر اس آخری نبی ﷺ کا ظہور ہو چکا ہے جس کا ذکر ہندوؤں کی ساری کتب میں کالکی اوتار کے نام سے موجود ہے اور یہ معجزہ اسی کے ہاتھوںسر زد ہوا ہے .

راجہ یہ سن کر بے تاب ہوگیا. اسکی بھوک پیاس غائب ہوگئی . راتوں کی نیند اڑ گئی. اس نے محل میں ہونے والی پوجا پاٹ میں شرکت بند کردی اور حکم دیا کہ سرزمین عرب کے کسی شخص کو تلاش کرکے اس کی خدمت میں پیش کیا جائے. اتفاق سے کچھ عرصے کے بعد سر زمین عرب کے تاجروں کا ایک بحری جہاز وہاں لنگر انداز ہوا. اس میں چند مسلمان تاجر بھی موجود تھے. جن کی سربراہی ایک ایرانی النسل صحابی حضرت مالک بن دینار رَضی اللہُ تعالیٰ عنہ کر رہے تھے. تاجروں کا یہ وفد راجہ پیرو مل کی خدمت میں حاضر ہوا اور سیلون جانے کی اجازت طلب کی .

راجہ نے ان سے حضور اکرم صلعم ﷺ اور شق القمر کے بارے میں پوچھا جس پر حضرت مالک بن دینار رَضی اللہُ تعالیٰ عنہ نے اسے تفصیل سے آگاہ کیا. راجہ نے انہیں اس شرط پر سیلون جانے کی اجازت دے دی کہ واپسی پر وہ اس سے مل کر جائیں گے. اور یوں سیلون سے واپسی پر جب یہ تاجر دوبارہ راجہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس دوران راجہ اپنی سلطنت کی باگ دوڑ اپنے بیٹے کے حوالے کر چکا تھا اور حضرت مالک بن دینار رَضی اللہُ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رسول اکرم صلعم کی خدمت میں حاضر ہوا .اور آپ ﷺ کے ہاتھوں مشرف بہ اسلام ہوا اس کا اسلامی نام تاج الدین رکھا گیا.

یہ واقعہ حدیث کی تقربیاً سب ہی کتابوں میں موجود ہے. کچھ عرصہ آپ ﷺ کی خدمت میں رہنے کے بعد وہ چند صحابہ کے ساتھ جن میں حضرت مالک بن دینار رَضی اللہُ تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے واپس کیرالہ روانہ ہوا. راستے میں یمن کی بندرگاہ الظفر میں بیمار ہونے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملا . عمان کے شہر صلالہ میں اس صحابی رسول ﷺ کی قبر آج بھی موجود ہے اور روز ہزاروں لوگ نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لئے وہاں حاضر ہوتے ہیں . صلالہ وہ خوش نصیب شہر ہے جسےچار پیغمبروں کی مستقل میزبانی کا بھی شرف حاصل ہے .

حضرت ہود علیہ اسلام
حضرت ایوب علیہ السلام
حضرت عمران علیہ اسلام
حضرت صالح علیہ السلام

مرنے سے پہلے راجہ نے اپنے بیٹوں اور بھانجے کے نام خطوط لکھے تاکہ حضرت مالک بن دینار رَضی اللہُ تعالیٰ عنہ کو کوئی دقّت نہ ہو . چنانچہ انہوں نے رسول اکرم صلعم ﷺ اور راجہ کی ہدایت پر اپنا سفر جاری رکھا اور کیرالہ پہنچ کر اسلام کی تبلیغ و اشاعت شروع کردی. آپ کی تعلیمات کا اثر تھا کہ راجہ کا بھا نجااور بیٹا بھی مسلمان ہوگئے. آپ نے 629ء میں ہندوستان کی پہلی مسجد کیرالہ کے شہر متھالہ کڈولنگر میں قائم کی . یہ مسجد آج بھی موجود ہے . پرتگیزوں نے 1504ء میں کڈولنگر پر قبضہ کرنے کے بعد اس مسجد کو تباہ کر دیا تھا . لیکن 1506ء میں اسے دربارہ تعمیر کیا گیا. 1984ء میں اس مسجد کی ازسرنو تعمیر ہوئی .

ایک روایت کے مطابق حضرت مالک بن دینار رَضی اللہُ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے جنوبی ہندوستان میں بارہ مساجد قائم کیں، جن میں سے چار آج بھی موجود ہیں. حضرت مالک بن دینار رَضی اللہُ تعالیٰ عنہ نے اپنی بقیہ زندگی کیرالہ میں گزار دی اور وہیں فوت ہوئے . انہوں نے بہت لمبی عمر پائی ،آپ کا مقبرہ کیرالہ کے شہر کساراگاڈ تھلنگرہ میں مسجد مالک دینار کے احاطہ میں ہے . اور آج بھی اسلام کی کبریائی اور صداقت کی علامت کے طور موجود ہے.

یہ بیان کردہ کہانی مشہور ہندو تاریخ دان جی ایم ایس نارائن نے اپنی کتاب Kerala through Ages
میں درج کی ہے ۔ یہ کتاب میرے ایک دوست نے مجھے تحفتاً دی جو کیرالہ کے رہنے والے ہیں ۔ انہوں نے بتایاکہ مقامی روائیت بھی یہی ہے کہ مالک بن دینار ہی وہ شخص تھے ۔ جو راجا کے ساتھ مدینہ گئے اور واپس آکر انہوں نے اپنی تبلیغ کاسلسلہ جاری رکھا اور کیرالہ میں مسجد مالک بن دینار تعمیر کی اور اسی مسجد میں دفن ہوئے ۔ لیکن تاریخ میں کسی ایسے صحابی کا ذکر نہیں ملتا جن کا نام مالک بن دینار ہو اور انہوں نے ہندوستان کا سفر کیا ہو ۔

ہاں البتہ فرنچ الجئیرین سکالر اور تاریخ دان چارلس پیلٹ Charles Pellet نے اپنی کتاب انسائکلوپیڈیا آف اسلام میں ایک مالک بن دینار کا ذکر کیاہے ۔ جو تابعی تھے وہ بصرہ کے رہنے والے تھے اور ان کے والد حضرت حسن بصری کے مرید تھے وہ کابل میں پیدا ہونے اور غلام بن کر بصرہ پہنچے ۔ آزادی ملنے کے بعد حسن بصری کے حلقہ ارادت میں آ گئے ۔ مالک بن دینار بھی حسن بصری کے مرید، شاگرد مشہور سیاح سوداگر اور بہت بڑے عالم دین تھے ۔ وہ 748ء کو طاعون کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد فوت ہوئے اور بعض روائیات کے مطابق بصرہ میں ہی دفن ہیں.

مگر یہ کہنا مشکل ہے کہ انہوں نے کیرالہ کے شہر کوڈنگکر میں قائم جامع چیرامن مسجد کی تعمیر کی تھی، ہے جو ہندوستان کی پہلی مسجد تصور کی جاتی ہے لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کیرالہ کے شہر کسارا گاڈ کی مسجد مالک بن دینار انہی کی تعمیر کردہ ہے جس میں وہ دفن ہیں کیونکہ بصرہ میں ان کے نام کی کوئی قبر نہیں ملتی ۔ اور اس بات کی تصدیق ایس ایم سداسیون کی کتاب A social history of India سے بھی ہوتی ہے ۔درست یہی معلوم ہوتا ہے کہ مالک بن دینار غالبا” راجا کی وفات کے بعد ہی کیرالہ آئے تھے جب راجا کا بیٹا اور بھانجھامسلمان ہو چکے تھے ۔ اور وہاں کی سرزمین اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لئے سازگار ہو چکی تھی ۔

تاریخ الطبری اور محمد قاسم فرشتہ کی کتاب تاریخ فرشتہ میں اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ راجا کا نام بھسکرا روی ورما تھا اور اس سے ملنے والے تاجر بنو قریش کے چند نامعلوم لوگ تھے جو تجارت کی غرض سے سیلون جارہے تھے ۔ اور راجا انہی کے ہمراہ ہجرت سے پہلے ہی مکہ میں رسول اکرم ﷺ سے ملا اور مشرف بہ اسلام ہوا اور واپسی پر یمن میں انتقال پا گیا اور صلالہ میں دفن ہوا ۔ آلمسعودی ، الادریسی ، الادمشقی ، ابوالفداء قرون اولیٰ کے تقریباً سارے ہی مسلم مورخین نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے ۔ البیرونی نے بھی یہ واقعہ تحریر کیا ہے اور اس سارے علاقے کو مالا بار کے نام سے یاد کیا ہے .

کمار ستیش ، ایتو پریال کینڈی اور ایس ایم سداسیون سب نے ہی تاج الدین کو ہندوستان کا پہلا مسلمان Thajuddin was the first Indian Muslim کہا اور لکھا ہے۔ اس واقعہ کی تصدیق مقامی کیرالہ ، ملیالم ، تیلگو اور پرتگیز لٹریچر سے بھی ہوتی ہے ۔ سدھارس اور کٹز ناتھن Kitz Nathan نے راجا کو مکہ ہکو پونا پیرومل کے نام سے یاد کیا ہے جس کا مطلب ہے “ وہ راجہ جو مکہ گیا” اور وہ مقامی لوک داستانوں میں اسی نام سے مشہور ہے۔” اور آج بھی ہیرو کا درجہ رکھتا ہے ۔

بخاری شریف میں حضرت سعد بن الخدری سے بھی روایت ہے کہ
“ ایک ہندو راجا حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش ہوا اوراس نے آپ ﷺ کو ادرک سے بھرا ہوا ایک برتن پیش کیا جو آپ ﷺ نے حاضرین میں تقسیم کر دیا اور مجھے بھی ایک ٹکڑا ملا ۔ “

پروفیسر حمید اللّہ نے لندن لائبریری کے انڈین سکشن میں موجود دستاویز History of India کے حوالے سےاپنی کتاب “ محمد رسول اللّہ ﷺ ۔ بانی اسلام کی زندگی اور کارناموں کا مختصر جائزہ Muhammad Rasulullah: A Concise Survey of the Life and Work of the Founder of Islam “ میں یہ واقعہ بڑی تفصیل سے لکھا ہے ۔ ہسٹری آف انڈیا میں شق القمر کے ظہور سے لے کر راجا کے سفر مکہ کی مکمل روداد ، اس کے اسلام قبول کرنے ، کیرالہ واپسی پر یمن کے ساحل پر بیمار پڑنے اور اور صلالہ میں دفن ہونے کی ساری تفصیل درج ہے ۔ مجھے بھی اللّہ نے صلالہ میں موجود حضرت تاج الدین کی قبر کی زیارت کی توفیق عطا فرمائی اور وہاں بھی اس کے مزار پر یہی کہانی درج ہے۔

معجزہ شق القمر کا ہے مدینے سے عیاں
مہ نے شق ہوکر لیا ہے دین کو آغوش میں