ہوم << رمضان میں بہتے لہو کا نوحہ - حافظ احمد اقبال

رمضان میں بہتے لہو کا نوحہ - حافظ احمد اقبال

یہ رمضان المبارک کی پرنور رات تھی… آسمان سے رحمتیں برس رہی تھیں، زمین پر سجدے بچھے تھے، ہر طرف قرآن کی تلاوت کی صدائیں بلند تھیں۔ در و دیوار اللہ کے ذکر سے گونج رہے تھے، مساجد میں نور برس رہا تھا، اور روزہ دار اپنے رب کے حضور جھکے ہوئے تھے۔ یہ وہ لمحات تھے جب رحمت کے دروازے کھلتے ہیں، جب مغفرت کے طلبگار اپنے گناہوں کے بوجھ سے نجات کی امید لیے دعا کے لیے ہاتھ بلند کرتے ہیں، جب اللہ کی رحمت آسمان سے زمین پر نازل ہوتی ہے۔

لیکن پھر…!

قیامت ٹوٹ پڑی!

ایک نہیں، دو نہیں… بلکہ تیرہ چراغ بجھا دیے گئے!

مسجدوں کے محراب خون سے رنگین ہوگئے، منبروں پر بیٹھے علماء کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ وہ ہاتھ، جو ہمیشہ دعا کے لیے اٹھتے تھے، آج بے جان ہو چکے تھے۔ وہ زبانیں، جو قرآن کی روشنی پھیلاتی تھیں، ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئیں۔ وہ چہرے، جو اللہ کے نور سے منور تھے، خون میں نہا گئے۔

یہ علماء کون تھے؟
یہ وہ لوگ تھے جو امت کو سیدھا راستہ دکھاتے تھے، جو قرآن و حدیث کی روشنی میں حق اور باطل کا فرق سمجھاتے تھے۔ یہ وہ چراغ تھے جو معاشرے کو اندھیروں سے نکالنے کے لیے جلتے تھے، مگر آج انہی چراغوں کو بجھا دیا گیا۔ یہ وہ سچائی کی آوازیں تھیں، جنہیں خاموش کرنے کی کوشش کی گئی۔

کسی کو مسجد میں سجدے کی حالت میں مار دیا گیا…
کسی کو قرآن پڑھاتے ہوئے شہید کر دیا گیا…
کسی کے سینے میں گولیاں اتار دی گئیں، کیونکہ وہ حق کا علم بلند کر رہا تھا…

نماز کے مصلے، جو گناہوں کی بخشش کے لیے بچھائے جاتے تھے، آج ان پر خون کے دھبے ثبت ہو چکے تھے۔ وضو کے پانی کی جگہ لہو بہہ رہا تھا، اور وہ مسجدیں جو امن و سکون کا گہوارہ تھیں، آج وہاں شہیدوں کے لاشے پڑے تھے۔

ریاست ماں کہاں ہے؟

کیا کوئی ہے جو ان شہداء کے خون کا حساب لے؟
کیا کوئی ہے جو ان یتیم بچوں کے سروں پر ہاتھ رکھے، جو اپنے والد کی راہ دیکھ رہے تھے؟
کیا کوئی ہے جو ان ماؤں کے آنسو پونچھے، جو اپنے بیٹوں کے جنازے اٹھا رہی ہیں؟
کیا کوئی ہے جو ان بیواؤں کا دکھ سمجھے، جن کے سہاگ چھین لیے گئے؟
کیا کوئی ہے جو اس امت کو یہ احساس دلا سکے کہ جب ایک عالم قتل ہوتا ہے، تو درحقیقت دین پر ایک وار کیا جاتا ہے!

یہ پہلا واقعہ نہیں تھا، اور شاید آخری بھی نہ ہو!

ہم نے کتنے رمضان ایسے دیکھے، جہاں سجدے خون میں رنگے گئے؟
ہم نے کتنی عیدیں ایسی دیکھیں، جہاں گھروں میں ماتم چھایا ہوا تھا؟
ہم نے کتنی بار دیکھا کہ ایک حق کی آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا؟
مگر پھر بھی امت خاموش رہی، ریاست نے آنکھیں بند رکھیں، انصاف دبا دیا گیا، اور قاتل دندناتے رہے۔

کب تک؟
یہ خاموشی کب ٹوٹے گی؟
یہ بے حسی کب ختم ہوگی؟
کیا ہم صرف مذمتی بیانات دینے کے لیے رہ گئے ہیں؟
کیا ہم صرف چند آنسو بہا کر، چند لمحے افسوس کر کے آگے بڑھ جائیں گے؟

اے اللہ!
ہم تیری بارگاہ میں فریاد کرتے ہیں!
ہم تجھ سے دعا کرتے ہیں کہ رمضان میں بہنے والے اس خون کو ضائع نہ جانے دینا!
اے ربِ کریم! ان علماء کی شہادتوں کو امت کے لیے بیداری کا سبب بنا دینا!
اے مالکِ ارض و سما! ہمیں اتنی ہمت عطا کر کہ ہم اپنے اصل دشمن کو پہچان سکیں!
اے اللہ! ہمارے دلوں کو جھنجھوڑ دے، ہمیں غیرت عطا کر، ہمیں جرات عطا کر کہ ہم ظلم کے خلاف اٹھ سکیں، تاکہ یہ خون ہمارے دامن پر ہمیشہ کا دھبہ نہ بن جائے!

ریاست ماں کہاں ہے؟
کیا یہ ماں اپنے بچوں کے خون پر خاموش رہے گی؟
کیا یہ ماں اپنے ہی گھر میں بہنے والے لہو کو نظرانداز کر دے گی؟
کیا یہ ماں ان بچوں کو بھول جائے گی، جو اس کی گود میں پروان چڑھے تھے؟

اے امت مسلمہ! جاگ جاؤ!
یہ سونے کا وقت نہیں، یہ وقت ہے حق کے لیے کھڑے ہونے کا!
یہ وقت ہے ان شہداء کے خون کا حساب لینے کا!
یہ وقت ہے ظلم کے خلاف اٹھنے کا، تاکہ آنے والے رمضان میں کوئی اور مسجد، کوئی اور محراب، کوئی اور عالم لہو میں نہ نہلایا جائے!

یا اللہ! ہمیں ہدایت دے!
یا اللہ! ہمیں جرات دے!
یا اللہ! ہمیں وہ امت بنا دے، جو اپنے علماء کے لہو کو رائیگاں نہ جانے دے!

آمین! یا رب العالمین!

Comments

Avatar photo

حافظ احمد اقبال

حافظ احمد اقبال حساس و باصلاحیت افسانہ نگار اور جذباتی رنگ میں ڈوبے ہوئے اشعار کہنے والے غزل گو شاعر ہیں۔ نثر و نظم، دونوں اصناف میں مہارت حاصل ہے۔ افسانہ نگاری میں وہ زندگی کے پیچیدہ جذبات اور انسانی رشتوں کی نزاکتوں کو نہایت خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں، جبکہ شاعری میں ان کا رجحان بالخصوص غزل کی طرف ہے، جس میں ان کا کلام محبت، جدائی اور زندگی کے نشیب و فراز کی عکاسی کرتا ہے

Click here to post a comment