ہوم << تھری ڈی ورلڈ - خدیجہ طیب

تھری ڈی ورلڈ - خدیجہ طیب

أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ اللہ کی پناہ پکڑتا ہوں کہ میں جاہلوں سے ہوجاؤں۔

Dimensions ---- کیا ہیں یہ ڈائمنشن؟ تھری ڈی ورلڈ یہ ٹاپک ہم سب کو بہت فیسینیٹ کرتا ہے. آج میری کوشش ہوگی کہ ہم سادہ ترین زبان میں اس کو سمجھنے کی کوشش کر سکیں. ڈائمنشنز طول وعرض کی ایک دنیا ہے، جس میں انسان کو اللہ نے مقید کر رکھا ہے.

فرسٹ ڈائمنشن میں ہم آگے اور پیچھے حرکت کر سکتے ہیں. سیکنڈ ڈائمنشن میں ہم دائیں اور بائیں حرکت کر سکتے ہیں. تھرڈ ڈائمنشن میں ہم اوپر اور نیچے حرکت کر سکتے ہیں. یہ ہے ہماری تھری ڈی ورلڈ جس کے ارد گرد ایک باؤنڈری لائن ہے اور وہ ہے فورتھ ڈائمنشن یعنی وقت. یعنی وقت نے ہمیں ہماری تھری ڈی ورلڈ کے باہر جانے سے روکا ہوا ہےلیکن کہانی یہاں پہ ختم نہیں ہوتی. ہمارے ویژن پہ بھی ایک باؤنڈری لائن ہے. ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں یہاں شعائیں لہروں کی صورت میں سفر کر رہی اور اس کو electromagnetic spectrum کہتے ہیں. جس میں سات قسم کی روشنیاں ہیں اور ہماری انسانی آنکھ صرف visible light میں ہی دیکھ سکتی ہے جو کہ ultraviolet اور infrared کے بیچ میں exist کرتی ہے اور یہ visible light صرف سات رنگوں کو ہی recognize کر سکتی ہے۔

ہم ٹوٹل electromagnetic spectrum کا صرف %0.0035 ہی دیکھ سکتے ہیں یہاں پہ میں ایک حدیث کا ذکر کرنا چاہوں گی تاکہ ہم اپنے ویژن کی محدودیت کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم مرغ کی بانگ سنو تو اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرو، کیونکہ (اس وقت) اس نے ایک فرشتے کو دیکھا ہے اور جب تم گدھے کی آواز سنو تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو کیونکہ اس نے شیطان کو دیکھا ہے۔"

مرغ عموما صبح کے ٹائم بانگ دیتے ہیں اور ایک حدیث کا مفہوم کی فجر اور عصر کے ٹائم فرشتوں کی ڈیوٹیز تبدیل ہوتی ہیں. انسانی آنکھ میں دو قسم کی light receptors ہوتے ہیں جبکہ چکن میں چار قسم کےlight receptors ہوتے ہیں. چکن ultraviolet light اور کچھ حصہ infrared light کا بھی دیکھ سکتا ہے اور یوں اسے وہ چیزیں دکھائی دیتی ہیں جو جو ہمارے لیے invisible ہیں. یوں معلوم ہوتا ہے فرشتے چکن کو ultraviolet light میں نظر آتے ہیں. کیونکہ چکنnm 315 سے 750 nm تک دیکھ سکتے ہیں، جبکہ انسان 400 نینو میٹر سے 750 نینو میٹر تک دیکھ سکتے ہیں. واللہ اعلم

انسانی آنکھ کا ویژن 180 ڈگری ہوتا ہے جبکہ چکن کی آنکھ کا وژن 300 ڈگری ہوتا ہے. وہ تیزی سے move ہو جانے والی چیزوں کو دیکھ لیتا ہے. اس سے معلوم ہوتا ہے فرشتے ہماری ڈائمنشنز میں آتے جاتے رہتے ہیں لیکن اللہ نے انہیں ہماری آنکھوں اوجھل رکھا ہے. اللہ نے ہماری آنکھوں سے بہت بڑی چیزیں جیسے جنات فرشتے بہت چھوٹی چیزیں جسے مائکرو ارگنزمز چھپا رکھے ہیں تاکہ ہم سکون سے زندگی بسر کر یں. dimensions سے متعلق اور بھی بہت سی تھیوریز ہیں جیسے کہ سٹرنگ تھیوری کہتی ہے کہ 11 ڈائمنشن ہیں. سپر سٹرنگ تھیوری کہتی ہے کہ 12 ڈائمنشنز ہیں . Bosonic String کہتی ہے کہ 26 ڈائمنشن ہیں. اکثر کا ماننا ہے کہ فرشتے وقت سے آزاد ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے.فرشتے ہماری 3D world کے وقت سے تو آزاد ہیں لیکن کسی اور وقت میں وہ بھی قید ہیں. جس کا ہمیں بہت ساری حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے. ان شاءاللہ آگے اس پہ روشنی ضرور ڈالیں گے.
وَ قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اس دوران کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ بیٹھے ہوئے تھے، ان پر ایک بدلی آئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”یہ بادل ہے اور یہ زمین کے گوشے و کنارے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس بادل کو ایک ایسی قوم کے پاس ہانک کر لے جا رہا ہے جو اس کی شکر گزار نہیں ہے اور نہ ہی اس کو پکارتے ہیں“، پھر آپ نے فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو تمہارے اوپر کیا ہے؟“ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”یہ آسمان «رقیع» ہے، ایسی چھت ہے جو (جنوں سے) محفوظ کر دی گئی ہے، ایک ایسی (لہر) ہے جو (بغیر ستون کے) روکی ہوئی ہے“

پھر آپ نے پوچھا: ”کیا تم جانتے ہو کہ کتنا فاصلہ ہے تمہارے اور اس کے درمیان؟“ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”تمہارے اور اس کے درمیان پانچ سو سال مسافت کی دوری ہے“، پھر آپ نے پوچھا: ”کیا تمہیں معلوم ہے اور اس سے اوپر کیا ہے؟“ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ معلوم ہے، آپ نے فرمایا: ”اس کے اوپر دو آسمان ہیں جن کے بیچ میں پانچ سو سال کی مسافت ہے“۔ ایسے ہی آپ نے سات آسمان گنائے، اور ہر دو آسمان کے درمیان وہی فاصلہ ہے جو آسمان و زمین کے درمیان ہے، پھر آپ نے پوچھا: ”اور اس کے اوپر کیا ہے؟“ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، اور اس کے رسول آپ نے فرمایا: ”اس کے اوپر عرش ہے، عرش اور آسمان کے درمیان اتنی دوری ہے جتنی دوری دو آسمانوں کے درمیان ہے“، آپ نے پوچھا: ”کیا تم جانتے ہو تمہارے نیچے کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں: آپ نے فرمایا: ”یہ زمین ہے“، آپ نے فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو اس کے نیچے کیا ہے؟“، لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں آپ نے فرمایا: ”اس کے نیچے دوسری زمین ہے، ان دونوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت کی دوری ہے“، اس طرح آپ نے سات زمینیں شمار کیں، اور ہر زمین کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت کی دوری بتائی، پھر آپ نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اگر تم کوئی رسی زمین کی نچلی سطح تک لٹکاؤ تو وہ اللہ ہی تک پہنچے گی، پھر آپ نے آیت «هو الأول والآخر والظاهر والباطن وهو بكل شيء عليم» ”وہی اول و آخر ہے وہی ظاہر و باطن ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے“ (الحدید: ۳)، پڑھی“۔

اسی طرح ایک اور حدیث میں 71' 72 اور 73 سال بھی رپورٹ ہوئے ہیں. بہرحال ان حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ہم تھری ڈی ورلڈ میں رہ رہے ہیں تو نہ جانے فرشتے کتنی نامعلوم ڈائمنشنز میں رہ رہے ہوں گے جو اللہ ہی بہتر جانتے ہیں. لیکن ضرور ان کی ڈائمنشنز پہ بھی آخر ایک وقت کی حد مقرر ہوگی. وہ اس طرح کہ اللہ کی وہ تمام تخلیق جس کو موت آنی ہے . اس کی موت کا مقررہ وقت لوح محفوظ میں لکھ دیا گیا ہے تو یقینی طور پر وہ وقت کی قید میں ہی ہوں گی. اگر ہم اس پہ مزید روشنی ڈالیں کہ وقت میں قید مخلوق کو ہی ایک وقت کی ڈائمنشن سے دوسرے وقت کی ڈائمنشن میں داخل ہونے کے لیے اجازت طلب کرنی پڑتی ہے۔ جس کا ہمیں شب معراج کی حدیث میں معلوم ہوتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پہلے آسمان پر دروازہ کھلوانے کے لیے اجازت طلب کی. اس کا مطلب ہے کہ فرشتے ان دروازوں کو آنے جانے کے لیے استعمال کرتے ہیں. ان دروازوں کا ذکرقرآن میں اس طرح سے ہےکہ وَّ فُتِحَتِ السَّمَآءُ فَکَانَتۡ اَبۡوَابًا ﴿ۙالنبا:۱۹﴾ اور آسمان کھول دیا جائے گا تو اس میں دروازے دروازے ہو جائیں گے۔ جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے سرتابی کی۔ ان کے لیے نہ آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ وہ بہشت میں داخل ہوں گے(سورہ الا عراف :40)

ا ن آسمانوں اور زمینوں میں وقت کی رفتار مختلف ہو سکتی ہے. اور وقت سے جو ازاد ہیں وہ صرف ہمارے اللہ سبحانہ و تعالی کی ذات ہے. جو عرش پہ ہے تو عرش کے مالک ہیں، وہیں سے تمام فیصلے نافذ ہوتے ہیں. ساتویں آسمان پہ وصول کیے جاتے ہیں. شب معراج پہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اللہ کا فیصلہ صادر ہوا تو ساتھ ہی آسمان پر موجود درخت سدرۃ المنتہی نے اپنے پتوں کے رنگ یوں بدلے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے آج تک وہ زندگی میں رنگ نہیں دیکھے. نہ ہی کائنات کی کوئی مخلوق ان کی خوبصورتی کو بیان کر سکتی ہے اسی طرح جو نیچے سے رپورٹس جاتی ہیں وہ ساتویں آسمان پر ریسیو کر لی جاتی ہیں۔
رَبِّ ھَبْ لِیْ حُکْمًا وَّاَلْ حِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْ۱ٍ فِی الْاٰخِرِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَۃِ جَنِّۃِ النَّعِیْمِ۔ اے ہمارے رب! عطا فرما مجھے علم و عمل (میں کمال) اور ملا دے مجھے نیک بندوں کے ساتھ۔اور بنا دے میرے لیے سچی ناموری آئندہ آنے والوں میں۔اور بنا دے مجھے ان لوگوں سے جو نعمت والی جنت کے وارث ہیں۔(الشعراء:(85-83)

جس حدیث سے ہمیں ڈائمنشن کی ریسرچ کا آغاز کیا تھا ،اس کے دوسرے حصے پہ واپس چلتے ہیں کہ اگر گدھے کی اواز سنو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو کیونکہ گدھا شیاطین کو دیکھتا ہے. ایسا کیا ہے گدھے کی آنکھوں میں جو اس کو نظرآتا ہے پر ہمیں نہیں .تحقیق سے پتہ چلا کہ آنکھوں کے retina میں دو قسم کی photoreceptors cells ہوتے ہیں cones اور rods . اور یہ ملین کی تعداد میں ہوتے ہیں. جن سے درحقیقت ایک آنکھ کا vision کام کرتا ہے. cones وہ سیل ہوتے ہیں جو کہ دن کے وقت دیکھنے میں مددگار ہوتے ہیں جبکہ rods وہ سیل ہوتے ہیں جو کہ کم لائٹ اور رات کے وقت دیکھنے میں مددگار ہوتے ہیں.

ایک گدھے کی آنکھ میں rods cells کی تعداد انسانی آنکھ سے کہیں زیادہ ہوتی ہے. جس کی وجہ سے رات کے وقت اس کا ویژن ویسے ہی کام کرتا ہے جیسا دن کے وقت کرتا ہے. اس لیے وہ اندھیرے میں ہمیں نہ نظر آنے والی چیزوں کو بآسانی دیکھ لیتا ہے. اس لیے گدھے جب رات کے وقت شیاطین کو دیکھتے ہیں تو bray کرتے ہیں bray وہ unique ساؤنڈ ہے جو گدھے مختلف صورتوں میں پیدا کرتے ہیں. مثلا جب وہ ایکسائٹڈ ہوتے ہیں، اپنے آپ کو اکیلا محسوس کرتے ہیں، بور ہوتے ہیں،. اس کے علاوہ اور بھی بہت سی لیکن اگر وہ رات کو یہ آواز پیدا کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے وہ کسی خطرے سے آگاہ کر رہے ہیں.

ایک اور بھی انٹرسٹنگ پہلو یہ ہے وہ دنیا کو ویسے نہیں دیکھتے جیسے ہم دیکھتے ہیں ہمارا vision trichromatic ہوتا ہے مطلب انسانی آنکھ تین رنگوں ریڈ, blue اور گرین کو ہی دیکھ سکتی ہے. جن کے ملنے سے مزید چار رنگ اور بنتے ہیں اور یوں مکمل ہوتے ہیں rainbow کے سات رنگ جبکہ ان کا vision dichromatic ہوتا ہے جس کا مطلب ہے وہ electromagnetic spectrum میں صرف دو ہی رنگوں کو دیکھ سکتے ہیں. جن دو رنگوں کو وہ recognise کر سکتے ہیں وہ ہیں blue اور green اور ان کے ملنے سے ایک نیا رنگ teal بنتا ہے جو bluish green کلر کا ہوتا ہے. کیا آپ نے کبھی نوٹس کیا ہے کہ کارٹونز اور موویز میں جب بھی جنات اور شیاطین کی دنیا دکھائی جاتی ہے تو اس کو سبز اور نیلے رنگ کا دکھایا جاتا ہے.

تو آج ہمیں پتہ چلا کہ اس کی وجہ یہی ہے تو ایسے نہیں لگتا کہ جنات انہی دو لائٹس میں نظر آتے ہوں گے شاید اسی لیے ghost huntingt tools میں بھی انہی لائٹس کا استعمال ہوتا ہے۔ جنات اگ کے بنے ہوئے ہوتے ہیں اور شیاطین انہی کی ایک قسم ہے اور ان کا تعلق بھی مختلف مذاہب سے ہوتا ہے چونکہ یہاں پہ جنات کو ڈسکس کرنا ٹاپک نہیں. اس لیے ان کے تعارف کے لیے اتنا ہی کافی ہے. ہاں البتہ میں آپ کو یہاں پہ ایک بات ضرور بتانا چاہوں گی. ایک دفعہ میں نے اس فیلڈ کے ایکسپرٹ سے پوچھا تھا کہ جب جنات اور انسان آپس میں کنیکٹ کرتے ہیں تو کیا ہم ان کے ڈائمنشن میں جاتے ہیں کہ وہ ہماری ڈائمنشن میں آتے ہیں؟

تو انہوں نے بتایا تھا کہ جب ہم نے ان سے کنیکٹ کرنا ہوتا ہے، ہم مختلف طریقوں سے ان کو کال کرتے ہیں اور زیادہ تر جنات ہی ہماری ڈائمنشن میں آتے ہیں انسان بھی جا سکتے ہیں لیکن وہی انسان ان کی ڈائمنشن میں جا سکتے ہیں جو spiritually بہت powerful ہوں۔

اب بات کرتے ہیں ارواح کی... مرنے کے بعد انسان کی ارواح یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ عالم برزخ میں جاتی ہیں لیکن عالم برزخ کہاں پہ exist کرتا ہے؟ اس کنجی کا راز ہمیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث معراج سے ملتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا کے پہلے آسمان پر گئے تو وہاں حضرت آدم علیہ السلام تشریف فرما تھے .دائیں طرف دیکھتے تھے تو مسکرا دیتے تھے اور بائیں طرف دیکھتے تھے تو رو دیتے تھے .نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ دیکھا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا:

ان کے دائیں اور بائیں جانب گروہ ان کی اولاد کی روحیں ہیں. دائیں جانب کا گرو اہل جنت کا ہے جبکہ بائیں جانب کا گروہ اہل دوزخ کا ہے. اسی لیے وہ اپنے دائیں جانب دیکھ کر مسکرا دیتے ہیں اور بائیں جانب دیکھ کر رو دیتے ہیں. باقی مکمل علم والی ذات اللہ سبحانہ و تعالی کی ہے اور وہی بہترین اور مکمل علم رکھتے ہیں۔بے شک