نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث ہے: "زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کر دیتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ: 4193)۔ بظاہر یہ ایک سادہ جملہ معلوم ہوتا ہے، لیکن اس میں انسانی نفسیات، دماغی کیمیا، اور جذباتی توازن کی گہرائیوں کو سمجھنے کی ایک حیرت انگیز بصیرت موجود ہے۔
جب ہم اس حدیث کو جدید سائنسی تحقیقات کی روشنی میں پرکھتے ہیں، تو یہ ایک ایسی حقیقت کو ظاہر کرتی ہے جو انسانی شعور، رویوں اور شخصیت پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ قہقہے انسانی فطرت کا ایک لازمی جزو ہیں، اور ان کا تعلق خوشی، سکون، اور سماجی تعلقات سے ہوتا ہے۔ لیکن جب ہنسی غیر متوازن ہو جائے، جب انسان زندگی کی سنجیدگی کو نظر انداز کر کے مسلسل قہقہوں میں مشغول ہو جائے، تو اس کے نفسیاتی اور جسمانی اثرات کیا ہوتے ہیں؟ اور یہ حقیقتاً "دل کو مردہ" کیسے کر دیتا ہے؟
سائنس کے مطابق، انسانی دماغ مختلف کیمیکل خارج کرتا ہے جو ہمارے جذبات اور رویوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ Dopamine، Serotonin، Endorphins اور Oxytocin وہ نیورو ٹرانسمیٹرز ہیں جو خوشی، تسکین اور تعلق کے جذبات کو بڑھاتے ہیں۔ قہقہہ لگانے سے ان کیمیکلز کا اخراج بڑھتا ہے، اور انسان عارضی طور پر ایک خوشگوار کیفیت میں آ جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص ہر وقت قہقہے لگانے کی عادت میں مبتلا ہو جائے، تو دماغ Dopamine Overload کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خوشی کا احساس ایک وقتی تسکین بن جاتا ہے، اور آہستہ آہستہ دماغ زیادہ شدید محرکات کے بغیر خوشی محسوس کرنا چھوڑ دیتا ہے۔
یہی کیفیت ہمیں Addiction (لت) کے اصولوں میں نظر آتی ہے۔ جب انسان کسی چیز کا عادی ہو جاتا ہے، تو اس کا دماغ مستقل طور پر زیادہ مقدار میں Dopamine کی طلب کرتا ہے۔ مسلسل قہقہے لگانے والے افراد بھی ایک قسم کی "Instant Gratification"(فوری تسکین) کے عادی ہو سکتے ہیں، جس کے باعث وہ سنجیدہ موضوعات، گہرے فکری مسائل، اور زندگی کی پیچیدگیوں پر غور کرنے کی صلاحیت کھو سکتے ہیں۔ وہ حقیقت سے بھاگنے کے لیے مزاح کا سہارا لیتے ہیں، اور یوں ایک نفسیاتی خول میں بند ہو جاتے ہیں، جہاں سنجیدگی کا گزر نہیں ہوتا۔
دل کی "موت" کا مفہوم صرف جسمانی نہیں، بلکہ روحانی، جذباتی اور نفسیاتی بھی ہو سکتا ہے۔ جدید نفسیات میں ایک اصطلاح "Emotional Numbness" یا "Affective Flattening" کہلاتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ انسان رفتہ رفتہ گہرے جذبات محسوس کرنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔ وہ ہنستا تو ہے، لیکن اس کے قہقہے مصنوعی ہوتے ہیں؛ وہ خوش نظر آتا ہے، لیکن اندرونی طور پر کھوکھلا ہوتا ہے۔ یہی وہ کیفیت ہو سکتی ہے جسے حدیث میں "دل کے مردہ ہونے" سے تعبیر کیا گیا ہے۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہنسی کی اقسام مختلف ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ طبیعی ہنسی کا اظہار کرتے ہیں، جو خالص خوشی اور تسکین کی علامت ہوتی ہے۔ کچھ لوگ عصبی ہنسی (Nervous Laughter) میں مبتلا ہوتے ہیں، جو دراصل ذہنی دباؤ کو چھپانے کا ایک نفسیاتی طریقہ ہوتا ہے۔ اور کچھ لوگ سماجی قہقہوں (Social Laughter) میں مشغول رہتے ہیں، جہاں وہ دوسروں کی خوشنودی کے لیے زبردستی ہنستے ہیں، خواہ وہ اندر سے بالکل مختلف محسوس کر رہے ہوں۔
نفسیاتی مطالعات کے مطابق، جو لوگ زیادہ ہنسی مذاق کرتے ہیں، وہ بعض اوقات Defensive Mechanism(دفاعی رویے) کا استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ مزاح کو ایک ڈھال بنا کر اپنی تکلیف، خوف، اور غیر یقینی کیفیات کو چھپاتے ہیں۔ مشہور ماہرِ نفسیات Sigmund Freud کے مطابق، "Humor is the highest defense mechanism" یعنی مزاح ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے انسان اپنی اصل پریشانیوں سے توجہ ہٹا سکتا ہے، لیکن اگر یہ ضرورت سے زیادہ ہو جائے تو حقیقت کا سامنا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
دل کی "موت" کی ایک اور ممکنہ وضاحت Empathy ہمدردی کی کمی ہو سکتی ہے۔ مسلسل ہنسی مذاق میں مبتلا شخص دنیا کی تکالیف، مظالم اور سنجیدہ مسائل کو معمولی سمجھنے لگتا ہے۔ وہ حقیقت سے کٹ کر ایک مصنوعی خوشی میں رہنے کا عادی ہو جاتا ہے۔ جب انسان حقیقی احساسات کھو دیتا ہے، جب اس کے اندر دوسروں کے درد کو محسوس کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے، تب دل واقعی "مردہ" ہو جاتا ہے۔
اس حدیث کا ایک اور پہلو روحانی اور اخلاقی بھی ہے۔ جب انسان قہقہوں میں حد سے بڑھ جائے تو وہ ذکر، غور و فکر، اور اللہ سے تعلق میں کمزوری محسوس کر سکتا ہے۔ امام غزالیؒ نے لکھا ہے کہ زیادہ ہنسی دل کو سخت کر دیتی ہے، اور سخت دل انسان نرمی، عاجزی اور حقیقت پسندی سے دور ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ خود بھی مسکراتے تھے، لیکن بے جا قہقہے لگانے سے اجتناب فرماتے تھے۔
سنجیدہ اور متفکر انسان کا ذہنی و نفسیاتی رویہ
اس کے برعکس، ایک ایسا شخص جو زیادہ تر سنجیدہ رہتا ہے، لیکن اس میں مزاح کی حس بھی موجود ہوتی ہے، وہ زندگی کو متوازن انداز میں دیکھتا ہے۔ ایسے افراد عام طور پر زیادہ گہرے سوچنے والے، محتاط، اور مشاہدہ کرنے والے ہوتے ہیں۔ ان کے دماغی افعال مختلف انداز میں کام کرتے ہیں، اور ان کی شخصیت میں درج ذیل نمایاں خصوصیات دیکھنے کو ملتی ہیں:
1. جذباتی گہرائی اور ذہنی سکون
زیادہ سنجیدہ افراد عام طور پر (Prefrontal Cortex) دماغ کا وہ حصہ جو تجزیہ، منصوبہ بندی، اور فیصلہ سازی کو کنٹرول کرتا ہے) کو زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ وہ فوری ردعمل دینے کے بجائے معاملات کو سوچ سمجھ کر پرکھتے ہیں اور ہر پہلو سے غور و فکر کرتے ہیں۔ ایسے افراد عام طور پر مستقل مزاج، خود آگاہ، اور زندگی کے بڑے مقاصد پر توجہ دینے والے ہوتے ہیں۔
2- Empathy اور Compassion کی زیادہ صلاحیت
تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ گہرے غور و فکر کرنے والے افراد کے دماغ میں Mirror Neurons زیادہ متحرک ہوتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے احساسات اور جذبات کو زیادہ بہتر طریقے سے محسوس کر سکتے ہیں۔ ان میں ہمدردی زیادہ ہوتی ہے، اور وہ دوسروں کے مسائل کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سنجیدہ مزاج انسان اکثر دوسروں کے مسائل کو حل کرنے میں زیادہ مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
3. جذبات پر زیادہ کنٹرول
ایسے افراد اپنی Impulse Control (جذباتی ردعمل کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت) میں مہارت رکھتے ہیں۔ وہ غیر ضروری یا سطحی خوشیوں کے بجائے زندگی کے طویل المدتی فوائد پر نظر رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اکثر دوسروں کے مقابلے میں زیادہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں اور جذباتی طور پر زیادہ مستحکم ہوتے ہیں۔
4. حقیقت پسندی اور منطقی سوچ
زیادہ سنجیدہ افراد زندگی کی حقیقتوں کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے فیصلے اکثر Logical Reasoning (منطقی استدلال) پر مبنی ہوتے ہیں، اور وہ زیادہ تر "Cause and Effect" کے اصول کے تحت سوچتے ہیں۔ وہ حقیقت سے فرار اختیار کرنے کے بجائے مسائل کا سامنا کرتے ہیں اور انہیں حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ حدیث محض ایک مذہبی تعلیم نہیں، بلکہ ایک گہری نفسیاتی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ آج کی دنیا میں جہاں سوشل میڈیا اور تفریحی صنعت نے ہر لمحہ ہنسی مذاق کو فروغ دیا ہے، جہاں قہقہے ہی کامیابی کی علامت سمجھے جاتے ہیں، وہاں اس حدیث کی حکمت پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔ مسلسل تفریح اور مزاح کا ماحول انسان کو سوچنے، سمجھنے اور گہرائی میں جانے کی صلاحیت سے محروم کر سکتا ہے۔ حقیقی خوشی اور متوازن زندگی وہی ہے جس میں سنجیدگی اور مزاح دونوں کا صحیح امتزاج ہو۔ قہقہے ضرور لگائیں، لیکن اپنی حقیقت، اپنے مقصد اور اپنے جذبات کی گہرائی کو نظر انداز نہ کریں۔ یہی وہ حکمت ہے جو ہمیں اس حدیث میں نظر آتی ہے، اور یہی وہ پیغام ہے جو جدید سائنس اور نفسیات بھی ہمیں سکھاتی ہے.
تبصرہ لکھیے