کسی خوبصورت اور دل میں اتر جانے والی چیز کا کوئی بھدا سا نام رکھ دیا جائے تو لطیف جذبات مجروح یا بُرا محسوس ہونا قدرتی امر ہے۔ جیسے پیارے سے، معصوم سے خرگوش کی مثال لیجیے۔ اگر اِسے گدھے سے تشبیہ دے دی جائے تو کیسی نامعقول بات ہو گی مگر جناب والا، حقیقت میں ایسا ہی ہے۔ آپ زیادہ حیران نہ ہوں خرگوش دراصل 'خر' اور 'گوش' کے دو الفاظ کا مرکب ہے اور فارسی میں خر، گدھے کو کہتے ہیں اور گوش، کان کو، یعنی گدھے کا کان۔ ہے نا یہ من موہنے سے 'خرگوش' کے ساتھ زیادتی۔ جب یہ خود خرگوش کو پتہ چلے گا تو اُسے کتنا ناگوار گزرے گا۔ ارے۔۔۔ رُکیں ذرا۔ کہیں یہ خرگوش کو پہلے سے تو نہیں پتہ؟ ورنہ یونہی تو نہیں جب بھی کسی انسان کو دیکھتا ہے تو ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے فَوراً بل میں جا چُھپتا ہے۔
ملتی جلتی حرکت شترمرغ کے ساتھ بھی کی گئی ہے، یہ دنیا کا سب سے بڑا پرندہ ہے، چلتا ہے تو شان بان اور رعب داب سے، جب دوڑتا ہے تو اتنا تیز کہ ہاتھ ہی نہیں آتا، رفتار 70 کلو میٹر فی گھنٹہ تک جا پہنچتی ہے۔ مگر اتنے بڑے، بھلے چنگے پرندے کو، اُونٹ سے تشبیہ دے دی گئی ہے۔ شترمرغ بھی فارسی زبان کے دو الفاظ کا ہی مرکب ہے، شتر اور مُرغ۔ لفظ 'شتر' کا مطلب 'اونٹ' اور مرغ کا تو آپ کو پتہ ہی ہے۔ اب معلوم نہیں یہ اُونٹ نما مرغ ہے یا مرغ نما اُونٹ، یا کتنا مرغ ہے اور کتنا اُونٹ۔ وہ خود اصل میں کیا ہے، اسے ہم نے کنفیوژن میں ڈالتے ہوئے 'خود ناآشنائی' کے کرب میں مبتلا کر رکھا ہے۔
اب ذکر چل ہی نکلا ہے تو ذرا اب ننھی سی چیونٹی کی بھی خبر لیجیے۔ غور طلب کہ ہماری زبان میں کیڑا کہا جاتا ہے حشرات الارض کو، یعنی دنیا بھر میں جتنے بھی کینچوے، ٹڈیاں، مچھر، مکڑیاں، سُنڈیاں حتی کہ لال بیگ جیسے مکروہ صورت سمیت جن کی تعداد کھربوں میں ہے مگر ہم نے چیونٹی کو 'کیڑی' کہہ کر ان سب 'کیڑوں' کی مادہ بنا دیا ہے۔ یہ اِس بے چاری ننھی جان کے ساتھ کتنی بڑی زیادتی ہے کہ اِس کی مرضی جانے بغیر اتنے ظالم کیڑوں کی 'گھر والی' بنا دیا جائے۔ یہ وہی جرم ہو گیا ناں جبری نکاح والا، اور اِس پر قانون میں سزا بھی ہے مگر ہم چیونٹی کو 'کیڑی' کہہ کر صدیوں سے اس جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں مگر مجال ہے کسی کے کان پر کبھی جُوں بھی رینگی ہو۔
اور مزے کی بات یہ 'جوں' والا محاورہ بھی غلط بنایا گیا ہے۔ رینگنا زمین پر جسم گھسیٹ کر حرکت کرنے کو کہتے ہیں جیسے سانپ، سنڈی، کینچوا وغیرہ، جوں تو اپنی 6 عدد ٹانگوں پر چلتی ہے رینگتی نہیں، اور ہم نے اس محاورے میں جوں پر زبردستی کرتے ہوئے سانپ کی طرح رینگنے پر مجبور کر دیا ہے۔
تو۔۔ ہم نے بے چارے جانوروں کے ناموں کے ساتھ جو کیا سو کیا، ان سے متعلق محاورے بھی غلط بنا رکھے ہیں۔ اور تو اور مچھلی بے چاری کا منہ مطلب 'مچھ'، ہم نے مگر کے آگے لگا کر 'مگرمچھ' کو تسلی دی ہوئی ہے کہ چلو آدھے اُدھار پر ہی سہی، تمہیں بے نام تو نہیں چھوڑا۔ مگر وہ ظالم اِس پر بھی شدید غصہ کئے بیٹھا ہے۔ جیسے ہی کوئی انسان اُس کی گرہ میں آئے، فوری حملہ کر کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتا ہے۔ چاہے منہ سے کچھ نہیں بولتا مگر ہماری کئی دہائیوں سے سوئی قوم کی طرح تو نہیں، جو77 سال سے مسلسل زیادتیوں کا شکار ہوتی چلی آ رہی ہے، حکمران طبقہ مہنگائی بڑھاتے بڑھاتے تعلیم، علاج اور رہائش جیسی بنیادی ضروریات کے بعد اب خوراک بھی چھیننے پہ آ گیا مگر عوام کوئی منطقی ردعمل دیتے ہی نہیں۔ مگرمچھ چاہے جانور ہونے کے سبب عقل سے عاری سہی مگر کوئی قابل ذکر ردعمل تو دیتا ہے۔
اب اسلام آباد کو ہی لیجیے، ہمارے وفاقی دارالحکومت کا نام ہے۔ اس کا مطلب ہے 'جہاں اسلام کے ماننے والے آباد ہوں'۔ مگر آپ دیکھیں کہ حقیقت اس کے الٹ ہے۔ ملک میں جتنی بڑی کرپشن یا بڑے بڑے سکینڈل ہوں، مافیا کی لوٹ مار ہو یا میگا پراجیکٹس میں خوردبُرد، زیادہ تر خرابیوں کے ڈانڈے اسلام آباد سے جا ملتے ہیں، تو پھر تو اس کا نام 'کرپشن آباد' ہونا چاہیے، مگر ہم شاید یہاں بھی غلطی کر چکے۔
ہم خرگوش سے لے کر اسلام آباد اور اسلام آباد سے کرپشن تک اتنے الٹے کام کرتے آئے ہیں، اس کا خمیازہ بھی تو کسی کو بھگتنا ہو گا ناں، اور وہ ہیں بے چارے عوام۔ آج ہم غربت، بے روزگاری، سیاسی عدم استحکام اور ڈوبتی ابھرتی معیشت سمیت کئی سنگین مسائل سے دوچار ہیں، دیوالیہ ہونے کا خطرہ کئی بار سر پر منڈلایا۔ وجہ کرپشن کے علاوہ ایک بڑی غلطی یہ بھی ہے کہ عوام نے حکمرانوں کو کبھی یہ احساس ہی نہیں دلایا کہ وہ مسائل کی دلدل میں دھنسے ہی چلے جا رہے ہیں، پاکستان بنایا تو تھا کہ ان کی حالت سدھرے، عام آدمی خوشحال ہو، ایک عام استاد یا تاجر بھی رکن اسمبلی یا وزیر بن کر قوم کی درست ترجمانی کر سکے مگر یہاں اب تک ہوا کیا، پاکستان بننے سے آج تک عوام سے زیادتیاں بڑھی ہی ہیں۔ تقریبا وہی طبقہ جو انگریز دور میں اعلی عہدوں پر براجمان تھا، آج انہی کی اولادیں اقتدار کے ایوانوں میں موجود ہیں، وہی باریاں بدل بدل کر حکمران بن جاتے ہیں۔ امیر ترین طبقہ ہونے کے باوجود اپنی تنخواہیں بھی کئی کئی گنا بڑھوا لیتے ہیں، مراعات علیحدہ ہیں جو غریب عوام کے خون کی کمائی سے دھڑا دھڑ لوٹ سیل کی طرح لوٹ لی جاتی ہیں۔ مگر نہیں بدلی تو غریب کی حالت، جو آج انگریز دور سے بھی شاید بدتر حالت میں ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ آج لوگ اپنی بیٹیوں کے جہیز، ماؤں کے خاندانی زیور اور گھروں کے برتن بیچ کر بجلی کے بل بھرتے رہے ہیں۔ باپ خودکشیاں اور مائیں اپنے ہاتھوں بچے نہروں میں ڈبو رہی ہیں۔ ایسی بدترین صورتحال کے باوجود بھی آواز نہ اٹھائی گئی تو روٹی بھی اتنی مہنگی ہو جائے گی کہ بھوکا رہنا زیادہ آسان معلوم ہو گا۔ اور اس سے آگے کیا ہو گا؟ مزید کیا کہیں، عقلمند کو اشارہ ہی کافی ہے، ہاں یہ نوٹ کر لیجیے، یہ عقلمند والا محاورہ بالکل درست ہے۔
تو اس درست محاورے کی طرح عوام بھی اپنی یہ غلطی درست کر لیں، حکمرانوں کو پُرامن مگر مئوثر انداز میں بتانا ہو گا کہ بس اب بہت ہو چکا، اگر اب بھی ہمارے مسائل حل نہ کیے گئے تو عوام ایسے حکمرانوں کو اقتدار سے باہر نکالنے کا آئینی حق محفوظ رکھتے ہیں جس کی ماضی قریب کی مثال بنگلہ دیش ہے جہاں عوام دشمن وزیراعظم کو رسوا کر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
سیاستدانوں کو بھی مشورہ ہے کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے اور ماں اولاد کو کبھی اذیت نہیں دیتی۔ جس طرح جلدی جلدی 26 ویں آئینی ترمیم کی طرح اپنی مرضی کی قانون سازی فوری کر دی جاتی ہے، حکمران پارلیمان عوام کو بنیادی ضروریات مہیا کرنے کیلئے استعمال کریں نہ کہ اپنا الو ہی سیدھا کرتے رہیں۔ مفت تعلیم، مفت علاج کے علاوہ یوٹیلٹی بل اتنے سستے ہوں کہ عوام کیلئے ادائیگی آسان ہو۔ جیسے آزاد کشمیر میں بجلی کے فی یونٹ اوسط نرخ کم کر کے10 روپے سے بھی کم کر دیئے گئے تھے، ایسی ہی مثبت تبدیلیاں سارے ملک میں لائی جائیں۔ تبھی ہمارا پاکستان صحیح معنوں میں 'پاک' ، 'ستان' بن سکے گا یعنی پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ یا ایک پُرسکون معاشرہ، جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا اور قائداعظم محمد علی جناح جس کی تکمیل چاہتے تھے۔
تبصرہ لکھیے