امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا منصوبہ
غزہ کامسئلہ انسانی بحران کا مسئلہ ہے لیکن لگتا ہے بین الاقوامی کمیونٹی اسرائیل۔امریکہ گٹھ جوڑ کے آگے بے بس ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 90فیصد غزہ کاشہر تباہ ہوچکا ہے ۔ کئی لاکھ لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔ اس کے باوجود عالمی طاقتیںاس خطے میں اپنے مفادات کے حصول میں لگی ہوئی ہیں ۔پائیدار بنیادوں پر جنگ بندی کی بجائے امریکہ اور اسرائیل اپنے مفادات کی آڑ میں آئے دن نئے منصوبوں کومتعارف کروارہے ہیںتاکہ اپنے مفادات کو استحکام دے سکیں ۔
اسی تناظر میں امریکی صدڈونلڈ ر ٹرمپ نے فروری 2025 میں غزہ کے حوالے سے ایک منصوبہ پیش کیا تھا جو کافی متنازعہ رہا۔ اس منصوبے کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
۱۔صدر ٹرمپ کی تجویز کے مطابق امریکہ غزہ کا کنٹرول سنبھالے اور ضرورت پڑنے پر امریکی فوجی بھی تعینات کیے جائیں۔
۲۔ اس منصوبے کے تحت غزہ میں تقریباً دو ملین فلسطینیوں کو ہمسایہ ممالک، مثلاً اردن، مصر وغیرہ، میں منتقل کیا جائے گا۔
اس منصوبہ کا بنیادی مقصد غزہ کی پٹی پر کنٹرول حاصل کرکے اسے "مشرق وسطیٰ کے ریویرا" میں تبدیل کرنا ہے۔مشرق وسطیٰ کے ریویرا سے مرادفلسطینیون کو ان کے ملک سے بے دخل کر کے اسے ایک اعلیٰ معیار کی ، عیش و آرام کی سمند ر کے کنارے کی جائیداد میں تبدیل کرنا ہے، جو امیر ، خوشحال اور طاقتور افراد کے لیے ایک ریویرا کی طرح ہو، یعنی سیاحتی مقام۔ فوکس نیوز کو انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے یہ بھی واضح کیا کہ فلسطینیوں کی بے دخلی مستقل بنیادوں پر ہوگی اور ان کو واپس آنے کا حق نہیں ہوگا۔
حمایت و مخالفت
اس منصوبہ کو صرف اسرائیل کی حمایت حاصل ہے کیونکہ امریکہ اسرائیل ہے اور اسرائیل امریکہ۔اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نتن یاہو نے صدر ٹرمپ کے اس منصوبے کو "دور اندیش"قرار دیا۔ اس نے مستقبل میں حماس کے کسی بھی ممکنہ کردار کو بار بار مستردکیا۔ اس کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کے کردار کو بھی ماننے سے انکار کیا ۔ غزہ کو ایک مسمار اور تباہ شدہ علاقہ قرار دیتے ہوئے صدر ٹرمپ حیرت سے سوال کرتے ہوئے نظر آئے کہ "وہ (فلسطینی)نقل مکانی کیوں نہیں کرنا چاہیں گے"؟
جبکہ دوسری طرف اس منصوبے کو عالمی سطح پر کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ فلسطینیوں کو زبر دستی نکالنے کو بین الاقوامی قوانین کے خلاف قرار دیا گیا ۔ خاص کر جنیوا کنوینشن کی شق نمبر چار کی صریح خلاف ورزی کہا گیا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنر ل انتونیو گوتریس نے اس منصوبے کو نسل کشی (Ethnic cleansing)قرار دیا۔ احتجاج کا دائرہ اتنا پھیلا کہ فلسطینیوں کے حق میں سرگرم حماتیوں نے ٹرمپ کے اسکاٹ لینڈ میں واقع ٹرنبیری گالف ریزورٹ کی دیواروں کو فلسطینیوں کے حق میں نعروں سے بھر دیا۔
عالمی سطح پر مخالفت اور عرب ممالک کی عدم حمایت پر ٹرمپ کو اپنا بیان تبدیل کرنا پڑا، چنانچہ نئے بیان میں ٹرمپ نے کہا کہ یہ منصوبہ نافذ کر نے کی بجائے انھوں نے صرف اس کی تجویز دی ہے۔بیانیے سے پیچھے ہٹنے کی دوسری وجہ ٹرمپ انتظامیہ کی موجودہ سخت داخلی اور خارجہ پالیسیاں ہیں جس کی وجہ سے اس کے اتحادی اس سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔عالمی سطح پر امریکہ تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا ہے ۔
عرب لیگ منصوبہ
ٹرمپ منصوبے کے جواب میں عرب لیگ کی طرف سے قاہرہ میں ایک سربراہی اجلاس میں غزہ کے حوالے سے ایک متبادل منصوبہ پیش کیاگیا۔ یہ منصوبہ مصر کی طرف سے پیش کیا گیا،جس کا مقصد اسرائیلی۔فلسطینی تنازعے کو حل کر نے کے لیے غزہ کی تعمیر نو اور اس کے سیاسی ڈھانچے کی اصلاح کرنا ہے۔ اس منصوبے کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
۱۔ غزہ کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو اور رہائشی منصوبے کو بہتر بنانے کے لیے ۵۳ بلین ڈالر مختص کیے جائیں گے تاکہ فلسطینیوں کو بے گھر کیے بغیر ان کی حالت زار بہتر بنائی جا سکے۔
۲۔ غزہ کی حکمرانی اور انسانی امداد کی تقسیم کے لیے ایک انتظامی کمیٹی بنائی جا ئے گی جس میں فلسطینی ماہرین کو شامل کیا جائے گا۔ اور اس کمیٹی کی نگرانی فلسطینی اتھارٹی کرے گی۔
حمایت و مخالفت
اس مصری تجویز میں غزہ کو کنٹرول کرنے والی مزاحمتی تنظیم حماس کا ذکر نہیں تھا۔ اس کے باوجود حماس نے اس منصوبے کو خوش آمدید کہا ۔ حماس کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کو چلانے میں کوئی کردار ادا نہیں کرے گا ، تاہم اس نے یہ بھی واضح کردیا کہ اسلحہ پھینکنا اس کی سرخ لکیر ہے۔ رائٹر کے مطابق اس منصوبے کو امریکا اور اسرائیل دونوں نے مسترد کردیا ۔ دوسری طرف نیویارک پوسٹ او ر یروشلم پوسٹ کی خبر کے مطابق ایران نے بھی اس منصوبے کو رد کردیا کیونکہ یہ منصوبہ دو ریاستی حل کی طرف لے جاتا ہے جبکہ ایران کا واضح موقف ایک ریاستی حل پر مبنی ہے ۔ اس منصوبے کو بین الاقوامی سطح پر کافی پذیرائی ملی۔ یورپی ممالک میں فرانس، اٹلی، جرمنی اور برطانیہ نے خیر مقدم کیا۔ ان ممالک نے فلسطینی اتھارٹی کے کردار اور غزہ میں اصلاحات کے لیے بھرپور حمایت کا اعلان بھی کیا۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ قاہرہ میں ہو نے والے عرب لیگ کے اجلاس میں مصر کے جس منصوبے کی توثیق کی گئی تھی اس کے تین دن بعد اسلامی تعاون تنظیم (OIC)نے امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ پر قبضہ کرنے اور فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے منصوبے کے خلاف عرب لیگ کے متبادل منصوبے کو باضابطہ طور پر منظور کرلیا۔ OICکا یہ اجلاس ہنگامی طور پر سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہوا تھا۔
تبصرہ
یہ دونوں منصوبے مختلف زاویوں سے مسئلہ فلسطین اور غزہ کی پٹی کے حل کے لیے پیش کیے گئے ہیں تاہم ان دونوں منصوبوں کو مختلف نقطہ نظر اور چیلنجز کا سامنا ہے ۔صدر ٹرمپ کا منصوبہ غزہ کی اقتصادی ترقی کی حمایت جبکہ سیاسی خودمختاری کی نفی کرتا ہے ۔ یہ منصوبہ اسرائیل کے سیکیورٹی مفادات کو تحفظ دینے کے لیے پیش کیا گیا ۔ جبکہ عرب لیگ کا منصوبہ غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی ریاست کی مکمل سیاسی اور اقتصادی خود مختاری پر زور دیتا ہے۔ اس کا موقف ہے کہ فلسطینیوں کے حق خودارادیت کو فی الفور تسلیم کیا جائے ۔ ان منصوبوں کے اخلاقی، قانونی، علاقائی اور بین الاقوامی پہلوئوں کے دور رس نتائج نکلے گے۔ ٹرمپ کے منصوبے کو مسلم دنیا نے قطی طور پر رد کردیا جبکہ غیر مسلم ممالک نے بھی اسے غیر معیاری اور ناقابل اطلاق قرار دیا ۔ دوسری طرف عرب لیگ کے منصوبے کو ایک حقیقت پسندانہ اور جامع منصوبہ کہا گیا اور غزہ کی پٹی کے لیے زیادہ سود مند قرار دیا گیا۔
یہ نظریات کی جنگ ہے ۔ یہ مختلف نقطہ نظراور بیانیوں کی جنگ ہے ۔ آج کی بین الاقوامی سیاست میں کوئی قانون نہیں اور نہ ہی اس میں کسی اخلاقیات کے اصولوں کی پابندی کی جاتی ہے۔ ہر طرف طاقت کی حکمرانی نظر آتی ہے ۔اس خطے میں طاقت کا توازن اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک امریکہ اور اسرائیل کو لگام نہ دی جائے جو کہ ایک مشکل امر ہے ۔یہ دونوں ممالک طاقت کے استعمال سے معاملات کو حل کرنا پسند کرتی ہیں تاکہ ان کی بالادستی قائم رہے۔مظلوم فلسطینیوں کے حق کے حصول کے لیے مسلم دنیا کو متحد ہو نے پڑے گا۔زبانی وکلامی مدد کی بجائے اب عملی طور پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ عرب لیگ کے منصوبے پر عملد درآمد کو یقینی بنانے کے لیے سعودی عرب اور ایران کو ایک صفحے پر آنا ہوگا۔
( مصنف وفاقی جامعہ اردو میں تاریخ کے استاد ہیں۔ )
تبصرہ لکھیے