ذہن اور تاریخ ہم قدم ہو تو لمحۂ فکریہ تارِ حریرِ دو رنگ ہے۔ جب تاریخ کوئے ملامت بن جائے اور ذہن کھانچہ، تو لمحۂ فکریہ سگِ آوارہ اور سنگِ باراں کے خوف سے اُدھر نہیں آتا۔ ہم نے تاریخ کے کوئے ملامت میں اسے ایک استہزائیہ کلیشے بنا دیا ہے۔ ایسی رسوائی پہ بھلا یہ کیوں آئے؟ اور اگر آئے بھی تو کیا لائے؟ لمحۂ فکریہ اب جلاوطن ہے، لیکن تاریخ کے اسی کوئے ملامت میں زندگی فیصلہ در فیصلہ روبرو تو ہے۔ سوچنا تو موقوف ہو چکا، لیکن فیصلے قرض خواہوں کی طرح درپے آزار ہیں، ان کا کیا کریں گے؟ ہم نے ابھی فیصلہ کرنا ہے کہ:
(۱)۔ کیا بریلویوں کو ”مشرک“ قرار دینا ضروری ہے یا سیکولر فکر کا سامنا کرنا زیادہ اہم ہے جو ہمارے رہے سہے معاشرے کی مذہبی بنیادوں ہی کو کھود رہی ہے؟
(۲)۔ کیا دیوبندیوں کو ”گستاخ“ قرار دینا زیادہ ضروری ہے یا لبرل اباحیت پسندی کا مقابلہ کرنا زیادہ مطلوب ہے جو ہمارے معاشرے میں باقی ماندہ دینی ذہن اور کردار کو چٹ کر رہی ہے؟
(۳)۔ کیا اہل حدیث کو ”کافر“ قرار دینا زیادہ ضروری ہے یا الحاد اور بے دینی کے سامنے کھڑے ہونا زیادہ ضروری ہے جو ہمارے رہے سہے علوم کو بھی مٹائے جاتے ہیں؟
ان امور پر فیصلہ کرنا موجودہ حالات میں ہماری ملی بقا کی شرط اول ہے۔ فرقہ واریت ہماری دو صدیاں کھا چکی ہے، اسے اور کتنی صدیاں دان کرنی ہیں؟ فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھانے کو اب ہمارے پاس کیا رہ گیا ہے؟ اگر ہمارا دل ابھی بھرا نہیں، تو اپنے توشہ دان کو دیکھ لینے میں کیا حرج ہے؟ ان دو صدیوں میں ہماری فرقہ وارانہ جھک جھک ہمارا دماغ چاٹ گئی ہے، دل کی جگہ سل رکھ دی ہے، اور ہم کوئی علمی اور فکری بات کرنے کے بھی قابل نہیں رہ گئے ہیں۔ فرقہ واریت نے ہماری دینی روایت کے غیر فرقہ وارانہ اور تہذیبی پہلوؤں کو اس حد تک فنا کر دیا ہے کہ وہ اب معدوم ہونے کو ہیں۔ فرقہ وارانہ ذہن نے ایک طرف اسلام کی تہذیبی معنویت کو مجروح کیا ہے، تو دوسری طرف عصری دنیا کو دیکھنے میں بھی حجاب بن گیا ہے۔ ہمارا فیصلہ ابھی تک فرقہ واریت کے حق میں ہے، اور ہم اس پر نظرثانی کے تیار نہیں رہے، اور بتدریج اس کی صلاحیت بھی ختم ہوتی جا رہی ہے۔
ایک اور فیصلہ بھی ہماری توجہ کا متقاضی ہے کہ ہمارے معاشرے اور کلچر میں سوچ کی ضرورت ہے یا نہیں؟ کیا اپنے کلچر میں ہم نے اس کی گنجائش باقی رہنے دی ہے یا نہیں؟ کیونکہ ثقہ علوم کی طرف واپسی کے بغیر فرقہ واریت سے نجات ممکن نہیں۔ فرقہ واریت اجتماعی ذہن کی حالتِ انکار کا نتیجہ ہے، اور اس کا مداوا صرف سوچ اور ثقہ علوم سے ہی ممکن ہے۔ ہمارے ہاں جعلی علوم کی بھرمار نے فرقہ واریت سے نکلنے کے راستے مسدود کر دیے ہیں، اور ہم تکفیر کی دلدل میں گھر گئے ہیں۔ تکفیر کی سرگرمی ہمارے تمام علمی اور مذہبی داعیات اور کاموں پر مکمل طور پر غالب آ چکی ہے۔ فرقہ واریت روایتِ علم کی نراجیت ہے جو جلد یا بدیر سماجی اور سیاسی نراجیت میں ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔
تہذیبی شکست اور سیاسی مغلوبیت کی صورت حال میں اس وقت سیکولر فکر اور کلچر، لبرل طرز زندگی اور سماجی رویے، اور دین بیزاری اور الحاد سونامی کی طرح مسلم معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ اور ہماری زیادہ تر مذہبی اور نام نہاد ”علمی“ دلچسپی اور سرگرمی ایک دوسرے کو ”مشرک“، ”گستاخ“ اور ”کافر“ قرار دینے میں کھپ گئی ہے۔ فرقہ واریت کی وبا سے ہماری آنکھیں مندی جاتی ہیں، دماغ شل ہیں، ارادہ معطل ہے اور دل مردہ ہیں۔ فرقہ واریت اس وقت ہماری زندہ اور واقعاتی مذہبی روایت ہے۔ ہمارا غالب مذہبی ڈسکورس فرقہ واریت اور اس کے نتائج میں پیدا ہونے والی تکفیریت ہے جو علی الاطلاق مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کی پہچان بن گئی ہے۔ فرقہ واریت تاریخ سے حالت انکار میں پیدا ہوتی ہے، اور شدید ترین ثقافتی اور فکری داخلیت رکھتی ہے۔
ہماری کلاسیکل دینی روایت میں عمل اور فتویٰ، اور عقیدہ اور علم جڑی ہوئی چیزیں تھیں، اور عقیدہ علم الکلام اور فلسفیانہ علوم کا موضوع تھا، یعنی فکر کا موضوع تھا، فتوے کا نہیں۔ عقیدے کی کلامی اور علمی بحث مکمل ہو لے تو کہیں ضمناً فتوے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اب عقیدہ فتویٰ بازی میں گھرا ہوا ہے۔ جب عقیدے کی بحث فکری علوم میں قائم ہو کر جاری نہ رہ سکے، اور فتوے میں منتقل ہو جائے تو فرقہ واریت سامنے آتی ہے جو ایک لاینحل مسئلہ بن جاتی ہے۔ عقیدے کی تعبیرات و تشریحات، عقیدے کی فتوے میں توسیط، اور عقلی علوم کے خاتمے سے فرقہ واریت مذہب کے واحد ڈسکورس کے طور پر باقی رہ جاتی ہے، جس کا حتمی نتیجہ تکفیریت کے علاوہ کسی موقف میں سامنے نہیں آ سکتا۔ فرقہ واریت ہماری ذہنی پستی اور نفسی دنانیت کا اظہار نہیں ہے، اس کی واقعیت ہے۔ فرقہ واریت علمی اور فکری تشکیلات کا نام نہیں ہے، یہ مذہب سے جواز یافتہ نفرت کی سماجی اور ثقافتی تشکیل ہے۔ فرقہ واریت کی وجہ سے ہم بیک وقت روایت کی طرف ثمرآور واپسی اور عصری دنیا سے بامعنی تعلق سے محروم ہو چکے ہیں۔ ”احیائے اسلام“ کے سیاسی منصوبوں کی آڑ میں ہم نے ”احیائے علم“ کے امکانات ہی کا خاتمہ کر دیا، جس کی وجہ سے علم دشمنی ہمارے معاشرے اور کلچر کا جزو اعظم ہے۔ علم دشمنی کے خمیر سے اٹھائے گئے ”احیائے اسلام“ کے سیاسی منصوبوں نے فرقہ واریت کو زبردست تقویت دے کر اسے ہماری سیاسی اور سماجی شناخت بنا دیا ہے۔ لیکن ہم یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ دنیا میں سیاسی احیا کا کوئی منصوبہ علمی احیا کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
ہر معاشرے کے بڑے تہذیبی مظاہر میں سے ایک علم ہے، اور ہمعصر دنیا میں علمی سطح پر ہمارا واحد تہذیبی مظہر اب یہی فرقہ واریت اور تکفیریت ہے۔ اگر ہم فکر مغرب کے سامنے سپرانداز ہیں، سائنسی علم کے دریوزہ گر ہیں، اور مغربی کلچر اور لبرل طرز زندگی کا شکار ہیں تو یہ سب کچھ بلا وجہ نہیں۔ حملہ آور تہذیبی افکار کا مقابلہ صرف تہذیبی افکار ہی سے ہو سکتا ہے، اور تہذیبی سطح پر مذہبی علوم میں ہمارا کوئی غیر فرقہ وارانہ موقف باقی نہیں رہا۔ سیکولرزم، لبرلزم اور الحاد کا مقابلہ بریلوی، دیوبندی یا اہل حدیث بن کر نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس پوزیشن پر کھڑے ہو کر یہ چیزیں دکھائی نہیں دیتیں، صرف فرقے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ خطرات اس وقت نظر آتے ہیں جب گھر کی فصیلوں سے پرے غنیم کے لشکروں کو دیکھنے والی آنکھ باقی رہ گئی ہو۔ ہمارا تاریخی ادراک حق و باطل کے تناظر میں”کارزارِ کفر و دیں“ پر استوار ہے۔ ”کارزار کفر و دیں“ کا اکھاڑہ تاریخ ہے، گھر کا آنگن نہیں ہے۔ مذہب جدید دنیا کا مسئلہ نہیں رہا، اور اس نے ہمیں تاریخ سے بھی بے دخل کر دیا ہے۔ اب کفر و دیں کا کھیل ہم اپنے گھر آنگن میں کھیلتے ہیں، کیونکہ ہم اسے تاریخ میں دیکھنے دکھانے کا یارا نہیں رکھتے۔ چونکہ تاریخ بھی غنیم کی مٹھی میں ہے، اس لیے وہ بھی اوجھل ہے۔ لیکن ہم سوچتے ہیں کہ غنیم کی اس مٹھی میں ہمیں دینے کے لیے کچھ نہ کچھ تو ضرور ہے، اس لیے وہ غنیم بھی نہیں لگتا، کوئی محسن ہی دکھائی دیتا ہے، اور اسی کی دریوزہ گری ہمارا کلچر ہے۔
تہذیب مغرب کی طاقت، معیشت، علم اور کلچر کا ہر ریلا مسلمانوں کے لیے سامانِ فنا ہے۔ لیکن فرقہ پرست مسلمان کو ان سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ اس کو خطرہ دوسرے فرقے سے ہے۔ ان خطرات کا ادراک اس وقت ممکن ہے جب ہم مسلمان ہونے کی غیرفرقہ وارانہ معنویت سے واقف اور اس کے حامل ہوں۔ فرقہ پرست مذہبی آدمی تاریخ کو اور اس کے بطون میں گھات لگائے ہوئے خطرات کو دیکھنے کی آنکھ سے محروم ہوتا ہے۔ اس کے لیے سیکولرزم، لبرلزم، سرمایہ داری کلچر اور مغربی سیاسی غلبہ وغیرہ سب افسانوی باتیں ہیں۔ اور جو آدمی ان کا ذکر کرے وہ اسے شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے کیونکہ یہ چیزیں اس کے حاشیۂ خیال میں بھی بار نہیں پاتیں۔ اور بسا اوقات ایسی باتوں کو ”خلاف اسلام“سرگرمی تصور کیا جاتا ہے۔ فرقہ پرست آدمی کے عمل اور ذہن کی دنیا میں سب سے بڑی حقیقت اس کے دوسرے ہم مذہب کی ”بد نیت“ اور ”بد عقیدہ“ ہے، جس کے بارے میں اس کا موقف پہلے سے طے شدہ ہے۔ فرقہ وارانہ مذہبی ذہن روئے ارض پر پھیلی ہوئی عصری دنیا کا کوئی فکری اور تہذیبی تصور قائم نہیں کر سکتا، کیونکہ یہ دنیا بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث کے خانوں میں بٹی ہوئی نہیں ہے، اس لیے یہ موجود ہی نہیں ہے۔ چونکہ وہ علم اور تاریخ کی صرف فرقہ وارانہ معنویت سے واقف ہے، اور یہ سانچے جدید علوم اور جدید دنیا پر لاگو نہیں ہوتے، اس لیے اس کے نزدیک نہ وہ علوم موجود ہیں، اور نہ ہی دنیا موجود ہے۔ فرقہ وارانہ مذہبی ذہن اپنی علمی اور تاریخی مہمات فرقہ واریت میں رہتے ہوئے مکمل کر کے فتح کے شادیانے بجاتا اور سرخوشی سے معمور رہتا ہے۔
فرقہ واریت کی اساس عقیدے کے قضیے کو فتوے سے حل کرنے کی کوشش سے فراہم ہوتی ہے۔ عقیدے کے قضیے کا اصل تناظر اشاعرہ اور معتزلہ کی علمی اور فکری جدلیات ہے، اور عصر حاضر میں اس کی توسیط کا ذریعہ بھی عقلی اور فکری علوم ہی ہو سکتے ہیں۔ یہ مسئلہ فتوے سے حل نہیں ہو سکتا، اور پنچائتی اور سیاسی طریقے پر اسے حل کرنے کا کوششیں دراصل اسے دوام دینے کی تزویرات ہیں۔ اگر ہم نے اس مسئلے کو اپنے تہذیبی فکری تناظر میں رہ کر حل کرنے کی کوشش کی ہوتی تو آج ہمیں داعش، تحریک طالبان، الشباب اور بوکو حرام کے ساتھ ساتھ داخلی فرقہ واریت کے عفریت کا سامنا نہ ہوتا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپنی امت کو فتنوں اور گمراہی کے دور میں خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رکھنے کا حکم فرمایا , فرقہ وارئت اور دوسری خرابیوں کا یہی حل ھے - اب یہ تو نہیں ھو سکتا کہ اتحاد و اتفاق کے لیے ھم معاشرے میں رائج واضع اور صریح اعمال شرک و بدعات پر نکیر نہ کریں , البتہ لڑای جھگڑے کے بجاے قرآن وحدیث اور عمل صحابہ کی طرف دعوت دی جاے -