ہوم << محمد بن قاسم سندھ کا پہلامسلم حکمران - میرافسر امان

محمد بن قاسم سندھ کا پہلامسلم حکمران - میرافسر امان

قومیں اپنے صالح حکمرانوں کو یادرکھتی ہیں تو ترقی کی منزل طے کرتی ہیں۔ آج ہم سندھ کے پہلے مسلم حکمران محمد بن قاسمؒ سند ھ میں اسلام کے آنے پر بات کریں گے۔ محمد بن قاسم نے10 رمضان المبارک مطابق 93 ھ سر زمین سندھ کے راستے برصغیر کو اسلام کی نعمتوں سے مالا مال کیا. اس طرح سندھ کو تاریخ اسلام کے اندر باب الا سلام کا رتبہ ملا. اسی سندھ نے پاکستان کی قرارداد سندھ اسمبلی میں پیش کر کے دنیا کے اندر اس وقت کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کی بنیاد ڈالی جو دنیا کے نقشے پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صورت میں موجود ہے، جو دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے، جس پر امت مسلمہ کو بجا طور پر فخر ہے۔

محمد بن قاسم ثقفی بن محمد بن الحکم بن ابی عقیل عرب کے مشہور قبیلے بنوثقیف سے تعلق رکھتے تھے. آپ 75ھ میں طائف میں پیدا ہوئے. آپ کے والد قاسم حجاج بن یوسف کے دور میں بصرہ کے عامل مقرر ہوئے. محمد بن قاسم کی شہرت اور عظمت اس کے عسکری اور انتظامی کارناموں کی وجہ سے ہے جو اس نے چھوٹی عمر میں انجام دیے. 15سال کی عمر میں حجاج بن یوسف کے حکم پر فارس میں کرد قبائل کی سرکوبی کی اور انتظامی امور کے لیے شہر شیراز کی بنیاد رکھی ، اسے فارس کا پایہ تخت بنایا. اس کے بعد حجاج بن یوسف نے 92 ھ میں 17 سال کی عمر میں سندھ کی فتح کے لیے نامزد کیا. محمد بن قاسم نے پہلے مکران پر حملہ کیا اور اس کو فتح کیا، اس کے بعد دیبل کی بندرگاہ کو فتح کیا، اس کے بعد آگے بڑھتے ہوئے دریائے سندھ کے دائیں کنارے نیرون کوٹ اور سیہون فتح کیے. اس کے بعد دریائے سندھ کو عبور کر کے 10رمضان ا لمبارک مطابق 93ھ جون 712ء راوڑ(روہڑ ی) قلعے کے نزدیک سندھ کے راجہ داہر کے لشکر کو شکست فاش دی. اس لڑائی میں راجہ داہر مارا گیا اوراس کے بعد محمد بن قاسم نے دریائے سندھ کے بائیں کنارے کی جانب قلعہ بہروز ، برہمن آباد اور آخر میں پایہ تخت ارور کو فتح کر لیا. اس کے بعد اوچ اور ملتان کو فتح کیا ۔سندھ پرخلیفہ حضرت عثمان ؓ کے شروع کے دورمیں نجران کے گورنر نے عمان کے راستے ایک بحری بیڑا روانہ کیاتھا جس نے تھانہ اور بھروج پر حملہ کیا ۔ ایک دوسرا بحری بیڑے نے مغیرہ ابی العاصؓ کے تحت سندھ کی بندر گاہ دیبل پر حملہ کیا۔حضرت امیر معاویہ ؓ کے زمانے میں ہندوستان پر دو طرف سے فوج کشی ہوئی۔ایک فوج محلب کی سرکردگی میں کابل سے آگے درہ خیبر کے راستے ہند میں داخل ہوئی، دوسری فوج منذر کی ماتحتی میں مکران کے راستے سر زمین ہند میں داخل ہوئی۔اس کے بعد مسلمانوں نے قندھار کو فتح کیا۔ اس کے بعد سندھ میں بوقان اورقیقان کے علاقے فتح کیے۔قلات پر بھی حملے کیے۔لیکن تمام سندھ کی فتح خلیفہ ولید کے زمانے میں محمد بن قاسمؒ کے ہاتھوں ہوئی۔سندھ پر محمد بن قاسمؒ نے مکران کے راستے چڑھائی کی. دیبل اور دوسری فتوحات کرتے کرتے راجہ داہر کو روہڑی کے قلعے کے نزدیک شکست دے کر ملتان تک پہنچ گئے۔

تاریخ میں یہ واقعہ آتا ہے کہ کچھ کشیوں کو دیبل کے قریب بحری قزاقوں نے لوٹا جن کے اندر لنکاسے کچھ مسلمان تاجروں کی بیوہ عورتیں اور ان کے بچے اورشاہ لنکا کے تحائف تھے، جو اموی خلیفہ ولید بن عبدالمالک کے لیے بھیجے گئے تھے۔ان قزاقوں کو سندھ حکومت کی پشت پناہی حاصل تھی ۔کچھ مسلمان قیدی سندھ کی فتح کے بعد سندھ حکومت کی تحویل میں بھی پائے گئے تھے. اس حرکت کی وجہ سے عراق کے کے گورنر حجاج بن یوسف نے سندھی حکمران راجہ داہر سے ان قیدیوں اور مسروقہ سامان کی واپسی نیز قزاقوں کی گرفتاری کا مطابعہ کیا، جسے راجہ داہر نے بے التفاتی سے ٹال دیا . ان قزاقوں کی گوشمالی کے لیے حجاج بن یوسف نے فوجی بھیجے جنھیں راجہ دہر کی فوجوں نے شکست دی. تب حجاج بن یوسف نے چھ ہزار شامی سپاہیوں پر مشتمل ایک بڑا لشکر پوری تیاری کے ساتھ اپنے چچا زاد بھائی محمد بن قاسم کیؒ زیر نگرانی روانہ کیا جس نے خود راجہ داہر کو شکست سے دوچار کیا ، راجہ داہر اس جنگ میں مارا گیا . اس طرح دیبل سے ملتان تک کا علاقعہ اسلامی سلطنت میں شامل ہوا۔

محمد بن قاسم نے سندھ میں امن وامان قائم کیا عدل اور انصاف جو ایک کامیاب ریاست کی نشانی ہوتی ہے۔سندھ کے بے ضرر عوام کے خلاف کوئی جوابی کارروائی نہیں کی. دست کاروں، تاجروں، غریب کسانوں اور دوسرے پیشہ ور لوگوں کو امان دی اور کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا بلکہ ان سے نرمی برتی۔چنا قبائل کے لوگ اسلام کی فوجوں کی خبر سن کر تحفوں کے ساتھ محمد بن قاسم کے پاس حاضر ہوئے، اطاعت و مال گزاری قبو ل کر کے واپس ہوئے۔لوہانہ،سہتہ،جنڈ،ماچھی،ھالیر اور کوریجا قبائل کے لوگ سراپا برہنہ ہو کر امان کے لیے آئے جنھیں امان دی گئی. اس طرح سمہ قوم کے لوگ ناچتے گاتے اورڈھول بجاتے امان کے لیے آئے، ان کو امان دی گئی، ساتھ ساتھ ان کو 20 دینار انعام دیے بلکہ قطعات اراضی بھی عطا کی۔

حجاج بن یوسف نے دیبل کی فتح کے موقعہ پر ہدایات جاری کیں کہ جو کچھ حاصل ہوا ہے اس کو عوام پر خرچ کر دیں، اس سے عوام کی دلجوئی ہو گی. اگر کسان، صنعت کار ،دستکار اورتاجر آسودہ ہوں گے تو ملک سرسبز رہے گا۔محمد بن قاسم کی نرم مزاجی کے متعلق ڈاکٹر ممتاز حسین پٹھان لکھتے ہیں ’’رواداری کسی بھی فاتح کے لیے رہنما اصول کی حیثیت رکھتی ہے، اس کے باوجود کہ وہ مخالف کو دبانے کی صلا حیت رکھتا ہو. محمد بن قاسمؒ نے سندھ کے باشندوں کے لیے مہربانی اور رواداری کا طریقہ اختیار کیا ۔‘‘ جو جارحیت کی بجائے مصالحت کے لیے آمادہ ہوا، اس کی پیشکش قبول کی ۔بدھیہ کا راجہ کاکابن کوتل اپنے سرداروں کے ہمراہ وفاداری اور اطاعت کے وعدے کے ساتھ آیا ، اس خلعت و کرسی سے نوازا۔جامہ ہندی ریشم اور حریر عطا کی ۔انھیں سابقہ عہدوں پر برقرار رکھا۔ سورتھ کا حاکم راجہ موکہن وسایو جو قلعہ بیٹ پر متعین تھا، اس کوبھی امان دی اور سابقہ عہدے پر برقرار رکھا۔راجہ کے وزیر سیاکر کو بھی اپنا مشیر خاص بنایا۔اس کے مشورے سے مالیہ زمین کو قدیم دستور کے مطابق رکھا۔راجہ داہر کے چچا زاد بھائی راجہ ککسو کو سابقہ قلعہ بھالیہ کا حاکم قائم رکھا، اسے اپنا مشیر بنایا اور مبارک مشیر کا لقب عطا کیا، خزانہ بھی اس کی مہر کے حوالے کیا ، وہ ہر لڑائی میں محمد بن قاسم کے ساتھ رہا۔

حجاج بن یوسف اگرچہ سخت گیر حکمران تھا مگر جب محمد بن قاسمؒ نے اپنے خط میں اہل نیرون کی وفا شعاری و اطاعت کی اطلاع دی، تو اس نے جواب میں لکھا’’ان کے آرام کا ہر طرح سے خیال رکھو اور انھیں ہماری مہربانیوں کا امیدوار بناؤ، جو بھی تم سے امن طلب کرے اسے امان دینا اور جو بھی بزرگ اور خاص آدمی تم سے ملنے آئیں، قیمتی خلعتوں سے سرفراز کرکے اپنے احسان کے زیر بار کرو ، اور ہر ایک کی اہلیت کے مطابق ان کو انعام واکرام دیناواجب کر لو، اور عقل کو اپنا رہبر بناؤ تاکہ ملک کے امیر اور مشہور ومعروف لوگ تمھارے قول اور فعل پر پورا اعتماد رکھیں.‘‘ ان ہدایات پر عمل کرتے ہوئے جو علاقعے فتح کیے ان پر سابق حکمرانوں کو برقرا رکھا۔عرب صرف فوجی اور سپاہیانہ نظام کے لیے تھے، اور باقی سارا نظام ہندوئوں کے پاس رہنے دیا۔ مسلمانوں کے مقدمات کا فیصلہ قاضی کرتے تھے اور ہند وؤں کے لیے پنچائتیں بدستور قائم تھیں۔

محمد بن قاسم اپنے عدل وانصاف اور رواداری کی وجہ سے سندھ میں احترام اور مقبولیت پا چکا تھا . جب اس کوگرفتار کر کے واپس بھیجا گیا توسندھ کے لوگ روتے ہوئے اس کی سواری کے سامنے لیٹ گئے. محمد بن قاسم کی صفات اور کار نامے تاریخ اسلام کا سنہری باب ہیں. اس نے سرزمین سندھ کے راستے برصغیر کو اسلام کی نعمتوں سے مالا مال کیا. مسلمانوں نے محمد بن قاسمؒ سے لیکر بہادر شاہ ظفر تک برصغیر پر ایک ہزارسال تک حکومت کی جو ایک ریکارڈ حقیقت ہے. یہ صرف رعایا کے ساتھ عدل و انصاف اور رواداری سے ممکن ہوا. انگریز جنھوں نے ساری دنیا کو اُدھیڑ رکھا تھا، اپنی سیاسی چال بازیوں کی وجہ سے صرف دو سو سال حکومت کر کے برصغیر سے رخصت ہو گئے۔ بھارت کی ایما پر کچھ ملک دشمن اپنے مسلم حکمرانوں کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن یہ حرکت سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔