سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنے زمانہ میں ایک مرتبہ فوج کو لے کر مکہ مکرمہ کی پہاڑی پر چڑھ رہے تھے۔ دوپہر کا وقت تھا، چلچلاتی دھوپ ہے، ایک جگہ کھڑے ہوگئے اور نیچے وادی میں دیکھنا شروع کردیا۔ فوج ساری کھڑی ہے، پسینہ میں شرابور ہے، کوئی سایہ نہیں ہے، بچاؤ کی صورت نہیں ہے، سب پریشان ہو گئے ۔
کسی نے کہا، اے امیر المؤمنین! خیریت تو ہے؟ آپ یہاں کھڑے ہیں۔ فرمایا، میں نیچے وادی میں دیکھ رہا ہوں، جہاں اسلام لانے سے پہلے میں اپنے اونٹوں کو چرانے آتا تھا اور لڑکپن میں مجھے اونٹ چرانے کا طریقہ نہیں آتا تھا ۔ میرے اونٹ خالی پیٹ گھر جاتے تو میرا والد خطاب مجھے ڈانٹتا تھا، کوستا تھا، کہتا تھا، عمر! تو کیا کامیاب زندگی گزارے گا تجھے تو اونٹ بھی چرانے نہیں آتے۔
اس وقت کو یاد کر رہا ہوں کہ جب عمر کو جانور چرانے نہیں آتے تھے اورآج اس وقت کو دیکھ رہا ہوں کہ جب اسلام اور قرآن پاک کے صدقے اللہ تعالیٰ نے عمر کو امیر المؤمنین بنادیا ہے۔
واہ کیا شان ہے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کہ اللہ پاک نے ان کو کہاں سے کہاں تک پہنچادیا ۔
آج واقعی اگر ہم غور وفکر کریں تو تو غیر مسلم ہے انکی زندگی کیسے گزر رہی ہے ؟ اور ہم مسلمانوں کی کیسی گزر رہی ہے ۔ اور ہمیں چاہیئے کہ ہم اس نعمت عظمٰی کی قدر کریں اور اسلام کے احکام کے مطابق زندگی گزاریں گے تو پھر ہماری زندگیوں میں برکتیں ہی برکتیں ہوں گی ۔
تبصرہ لکھیے