ہوم << سر کا سائیں - صالحہ محبوب

سر کا سائیں - صالحہ محبوب

" ارے یہ کیا؟ "
اپنے گھر کے سامنے لان کو پانی لگانے والا نل کھلا دیکھ کر ,جس میں سے خوب زور شور سے پانی بہہ رہا تھا عظیم صاحب حیران ہوئے .پانی کا تیز بہاؤ لان اور گھاس کو جوہڑ کی طرح بنا رہا تھا کیاریاں پانی سے بھری تھیں ۔گھاس کے اوپر بھی پانی کھڑا دکھائی دے رہا تھا۔

" خان! یہ پانی بند کرو." انہوں نے فوراً ڈرائیور کو نل بند کرنے کی ہدایت کی .عظیم صاحب اپنی بیوی بچوں کے ہمراہ عید الفطر کی چھٹیاں گزارنے آبائی علاقے گئے تھے. اب سارا دن کے سفر کے بعد گھر پہنچے تو مسلسل بہتا پانی عجیب شور کر رہا تھا .گھر پہنچنے پر ان کی بیگم اور بچے بھی آنکھیں ملتے تھکے تھکے سے کار سے اتر آئے تھے۔
" صاحب نل کی ٹوٹنٹی غائب ہے۔ اب اسے کیسے بند کریں؟" ڈرائیور خان محمد نے نلکے کا جائزہ لے کر صاحب سے پوچھا.
" اچھا یوں کرو کوٹھی کے پیچھے جو پانی کا مین والو ہے ۔وہ بند کر دو۔۔" صاحب کو دوسرا حل سوجھا۔ خان محمد پیچھے بھاگا ۔جہاں پانی کا بڑا والو تھا۔۔ تھوڑی سی دیر بعد وہاں سے بھی یہی جواب آیا ۔

"صاحب !والو بھی غائب ہے ۔"صحن کی طرف سے بھی مسلسل پانی گرنے کی آواز آرہی تھی ۔صاحب نلکے کے اندر کوئی چیز کپڑا وغیرہ ٹھونس کر اوپر سے اینٹ رکھ کر دیکھتے ہیں ۔خان محمد نے اپنا دیہاتی حل پیش کر دیا۔
" یار! کچھ بھی کرو مگر پانی تو بند کرو. سارا پانی یہاں ضائع ہو گیا تو اندر ضرورت کے لیے بھی پانی نہیں ملے گا ."صاحب اس غیر متوقع صورتحال سے پریشان ہو رہے تھے. بچے بھی اب پانی اور لان کا جائزہ لینے لگے.
" بابا! لان کا پائپ بھی غائب ہے."حنان چلایا .
"خان!تم کوٹھی کے پیچھے جا کر دیکھو۔ اور کیا کیا غائب ہے ؟"اور بیگم آپ اندر جا کے تو دیکھیں. اندر کوئی نقصان تو نہیں ہوا !!!"عظیم صاحب کا بھی ما تھا ٹھنکا۔

ریحانہ بیگم گھر کا تالا کھول کر باہر ہی کھڑی رہیں اندر جانے سے ان کو خوف آ رہا تھا۔ عظیم صاحب ان کی ہچکچاہٹ کو بھانپ کر ساتھ ہو لیے ۔بچے بھی کچھ خوفزدہ سے تھے۔ بظاہر گھر کی تمام چیزیں اپنی اپنی جگہ پر ہی موجود تھیں۔ باری باری تمام کمروں میں جھانکا گیا۔ اطمینان ہوا کہ اندر گھر میں خیریت ہے ۔بچے بھی اپنی اپنی چیزیں چیک کر رہے تھے۔حنان میاں کو اپنی نئی سائیکل کی فکر ہوئی ،تو عبدالمنان کو اپنے کمپیوٹر کی۔ ریحانہ بیگم ٹی وی اے سی مائیکرو ویو اور تمام قیمتی اشیاء دیکھتیں اندر باورچی خانے کی طرف گئیں ۔عظیم صاحب پیچھے صحن کی طرف آن نکلے۔ جہاں خان کو بھیجا تھا۔

"صاحب جی! سارے پرنالوں کے آگے لگے لوہے کے پائپ غائب ہیں. اندر کی ٹوٹیاں بھی نہیں ہیں .صحن میں رکھی دونوں لوہے والی چارپائیاں بھی موجود نہیں ."عظیم صاحب کی نظر پانی کی موٹر پر پڑی .موٹر کے ساتھ اس کا حفاظتی جنگلا بھی غائب تھا ."خان چوری شدہ سامان کی تفصیل بتا رہا تھا۔
" بابا !میری نئی سائیکل؟؟؟؟" حنان میاں باقاعدہ روتے روتے واپس آئے .کوٹھی کے صحن گراج اور لان کی حدود میں موجود تمام لوہے اور ربڑ کی اشیاء چوری ہو چکی تھیں .اندر باہر پانی بہہ بہہ کر تالاب کی شکل اختیار کر چکا تھا ۔چور نے اپنی مکمل مہارت سے چیزوں کا صفایا کیا تھا۔ چور بہت فرصت سے آیا تھا۔

سکون سے ایک ایک قابل فروخت چیز سمیٹی تھی اور صفائی سے لے گیا تھا ۔وہ گھر کا بھیدی ہی معلوم ہوتا تھا ۔کیونکہ اسے ہر ہر چیز کی مکمل معلومات تھیں اور سرکاری کوٹھیوں میںں کوئی انجان چور اتنی دیدہ دلیری سے واردات نہیں کر سکتا تھا ۔ یہ سرکاری افسروں کی اے گلاس کوٹھیاں تھیں۔ جہاں عدلیہ اور انتظامیہ کے اعلیٰ افسران رہائش پذیر تھے۔ کالونی کے چاروں طرف چار دیواری کے اوپر خاردار تاریں بھی لگی تھیں۔ گیٹ پر سپاہی بھی موجود رہتے تھے۔ عید کی چھٹیوں میں تمام افسران کی اپنی علاقوں میں روانگی کی وجہ سے کالونی تین چار دن خالی رہی تھی ۔چوکیدار بھی یقیناً عید منانے چلے گئے تھے۔ اور پیچھے یہ واردات ہو گئی تھی۔

عظیم صاحب اس علاقے میں اسسٹنٹ کمشنر تعینات تھے ۔ان کے برابر والا بنگلہ سول جج صاحب کا تھا۔ سامنے کوٹھی تحصیلدار صاحب کی تھی تو ان کے برابر والی ڈی ایس پی صاحب کی . عظیم صاحب پریشانی کے عالم میں باہر جو نکلے تو سامنے تینوں پڑوسی حضرات بھی فکرمندی سے کھڑے تھے۔ سب کے گھروں میں بالکل ایک ہی انداز کی چوری ہوئی تھی۔ وہی لوہے اور ربڑ کی تمام چیزیں غائب تھیں۔ ڈی ایس پی صاحب کی لوہے کی لان چیئرز غائب تھیں تو سول جج صاحب کی چارپائیاں اور پنکھا بھی۔ تحصیلدار صاحب کی کرسیوں کے ساتھ ساتھ باہر لگا لوہے کا چھوٹا روم کولر بھی۔ گیٹ پر تعینات سپاہی بھی آج ہی عید منا کر لوٹے تھے۔ سب ملازمین کا شبہ کالو جمادار پر تھا جو غائب تھا۔

اگلے دن کالو کے گھر پولیس بھیجی گئی۔ کالو غائب تھا۔ اس کی بیوی پولیس والوں کے ساتھ ہی تھانے آگئی تیس چالیس برس کی مضبوط جسامت کی عورت شیداں۔ ساتھ اس کے چار بچے بھی تھے۔ تین تو اچھے بڑے سارے تھے اور چوتھا اس نے گود میں اٹھا رکھا تھا۔
" بی بی! تم کالو کی گھر والی ہو؟" ڈی ایس پی صاحب خود اس کیس کی تفتیش کر رہے تھے ."ہاں جی! میں شیداں کالو کے گھر والی۔"
" کالو کدھر ہے؟" ڈی ایس پی صاحب رعب سے بولے

" مجھے کیا پتا؟ عید سے پہلے کا غائب ہے .صاحب! وہ میرے گھر سے بھی ساری چیزیں گدھا گاڑی پر لاد کرلے گیا تھا.میرے سارے پیسے میرا چولہا ،توا، پرات، دیگچیاں، میرے بچوں کو بھی بہت مارا ۔مجھے بھی مارا اور پھر گالیاں دیتا کہیں چلا گیا۔ صاحب چار دن سے ہم بھوکے پیاسے بیٹھے ہیں۔" کالو کی بیوی تو خود بھری بیٹھی تھی.
" سر جی! یہ سچ کہہ رہی ہے. اس کے گھر میں کچھ نہیں ہے." اس عورت کے بیان کی تصدیق دونوں سپاہیوں نے کی.
" اچھا! یہ بتاؤ کالونشہ کرتا ہے ؟اس کی یہ حرکت تو نشیئوں والی ہے ۔"ڈی ایس پی صاحب نے پوچھا.

" ہیروئن تو نہیں پیتا لیکن سگریٹ پیتا ہے. جی اسے جوئے کا نشہ ہے .بس اسی جوئے میں ہر چیز لگا دیتا ہے .ڈرتی ہوں کسی دن ان بچوں کو بھی جوئے میں نہ ہار دے. میں خود محنت کرتی ہوں .بچوں سے کام کرواتی ہوں اور جو ہم کما کر لائیں وہ بھی چھین لیتا ہے. سرکاری ملازم ہے. اچھی بھلی تنخواہ ہوگی. مگر ہماری قسمت میں اس کی تنخواہ کہاں؟ ہمارے نصیبوں میں تو بس کالو کی مار اور طعنے ہیں۔" شیداں روتے ہوئے بولی.
" تم نے پہلے تو کبھی کوئی شکایت نہیں کی. اب اتنی مظلوم اور معصوم بن رہی ہو میرے سامنے, چالاکیاں مت کرو!!!!" صاحب غرائے.

" اب مجھے اور بچوں کو کالو مارے ,ہمارے پیسے چھینے ,ذلیل کرے, تو ہم کس کو شکایت کریں ؟وہ تو گھر کا مالک ہے۔ ان بچوں کا باپ ہے،میرا خاوند ہے ۔بھلا کون ہماری بات سنتا ہے؟" کالو کی بیوی روتے ہوئے بلکنے لگی.
" سچ سچ بتاؤ اس نے افسروں کے گھر میں چوری کر کے سامان کہاں رکھا ہے؟" اب تھانےدار ڈپٹ کر بولا
" وہ گھر کچھ نہیں لایا .گدھا گاڑی پر سامان ضرور ہم نے دیکھا تھا۔ چارپائیاں، کولر ،کرسیاں ،مگر وہ تو ہمارا سامان بھی اٹھا کر لے گیا۔ توا ،پرات ، چمٹا اور دیگچیاں۔" کالو کی بیوی کو ساری فکر اپنے برتنوں کی تھی ۔
"کہاں جاتا تھا وہ جوا کھیلنے؟ اس کے دوستوں کے نام بتاؤ.." اب تھانےدار صاحب سختی سے بولے .

"پتہ نہیں جی، کدھر جاتا تھا اور کس کے ساتھ کھیلتا تھا؟ لیکن تنخواہ ہماری آتی ہے یا اس کی پیسے ؟گھر آنا ہمارے نصیب میں نہیں تھا..بڑا ظالم آدمی ہے یہ!!! بس اپنا اور ان گندے کاموں کی فکر ،بچے بھوکے ہوں اسے کوئی فکر نہیں."شیداں کی شکایتیں پھر شروع ہو گئیں ۔
"اچھا اچھا!!! اگر وہ گھر آئے تو تھانے اطلاع دینا "ڈی ایس پی صاحب نے اسے جانے کی اجازت دیتے ہوئے تاکید کی.
" صاحب اگر اسے پکڑ لو تو چھوڑنا نہیں. وہ ہم سب کے لیے مصیبت ہے, چوری کرتا ہے ,غنڈا گردی کرتا ہے, جوا کھیلتا ہے, میرے معصوم بچوں کو مارتا ہے, میرا جوڑ جوڑ اس کی مار کی وجہ سے دکھتا ہے, میرے برتن بیچ کر کھا گیا ,اس کا ککھ نہ رہے, اسے لمبی سزا دینا, اللہ تمہارا بھلا کرے ,"کالو کی بیوی اسے گالیاں دیتی, برا بھلا کہتی اپنے نقصان اور زخموں کو یاد کرتی چلی گئی.

" سر !دو چار دن عیش کر کے وہ واپس آ جائے گا. ہم اسے ضرور پکڑ لیں گے ."تھانیدار صاحب نے ڈی ایس پی صاحب کو تسلی دی .اس چوری پر سبھی حیران اور شرمندہ تھے کہ پولیس قانون اور انتظامیہ سب کا نقصان بھی ہوا اور جگ ہنسائی بھی. کالو صاحب اگلے ہی روز گرفتار ہو گئے۔ موصوف بغل میں جھاڑو دبائے، کانوں میں ہینڈ فری لگائے، کالونی کی سڑک پر جھومتے ہوئے پائے گئے،" گیٹ کے چوکیداروں نے پولیس کو اطلاع دی اور پولیس نے آ کر کالو کو گرفتار کر لیا ۔شروع میں کالو نے چوری سے انکار کیا ۔،مگر عینی گواہان اس گدھا گاڑی والے کے بیان اور پولیس تشدد کے محض ڈراوے پر ہی چوری قبول کر لی۔ جوئے میں خطیر رقم ہارنے کے بعد موصوف نے خالی کوٹھیوں کا جائزہ لیا تھا۔تسلی سے تمام قابل فروخت اشیاء اکٹھی کیں۔

عید کے روز گیٹ خالی دیکھ کر گدھا گاڑی لے کر آیا ۔سامان لوڈ کیا اور پھر جا کر شہر میں بیچ دیا ۔پیسے پھر بھی پورے نہ ہونے پر اپنے گھر سے بھی برتن اٹھانے پڑے۔
" اس کی ضمانت نہیں ہونی چاہیے .کم از کم ایک سال جیل میں رہے گا تو طبیعت صاف ہو جائے گی." تحصیلدار صاحب نے تجویز پیش کی. ان کی دیگر اشیاء کے ساتھ ساتھ روم پولر بھی تو اس کمبخت نے چوری کیا تھا .

"اس چوری کی جو زیادہ سے زیادہ سزا ہے, میں اسے پوری دوں گا تاکہ آئندہ کسی کو سرکار کی چوری کی ہمت ہی نہ ہو".سول جج صاحب نے بھی غصہ نکالا .
قانونی کاروائی پوری کی گئی اور کالو کو جیل بھیج دیا گیا ۔سرکاری افسران کی کوٹھیوں کی چوری شدہ اشیاء پھر سے لگا دی گئیں ۔دیگر سامان بھی نیا آ گیا ۔کالونی کی حفاظت کے لیے پہرے دار بھی بڑھا دیے گئے ۔شام کو اکثر اہل محلہ باہر مشترکہ سڑک پر چہل قدمی کرتے۔ بچے سائیکل چلاتے۔ افسران گپ شپ کرتے ۔بقر عید کی آمد آمد تھی ۔سو سب بچے اپنے اپنے بکرے لے کر باہر نکلے ہوئے تھے ۔سب مرد حضرات بچوں اور بکروں پر نظر رکھنے کے لیے باہر کرسیوں پر بیٹھے تھے۔

" صاحب جی! کالو کی بیوی آپ سے ملنا چاہتی ہے." کالونی کے گارڈ نے اطلاع دی.
" کیوں ؟کیا اس منحوس کالو کی سزا ختم ہو گئی ہے؟" ڈی ایس پی صاحب چونکے
" نہیں ابھی تو دو ماہ ہوئے ہیں. ابھی تو جیل ہی میں ہوگا." سول جج صاحب نے ان کی تردید کی.

" پھر وہ کیوں ملنا چاہتی ہے؟ اسسٹنٹ کمشنر صاحب نے سوال کیا
" اچھا بھیجو اسے "تحصیلدار صاحب نے گارڈ کو حکم دیا
" اس کے بیوی بچے اس سے بہت تنگ تھے خوب مارتا پیٹتا تھا خرچہ بھی نہیں دیتا تھا" ڈی ایس پی صاحب کو شیداں کے بین اور شکایتیں یاد آ گئیں ۔
"اب تو اس کے بیوی بچے بھی سکون سے ہوں گے. سنا ہے دو تین کوٹھیوں پر کام کرتی ہے سب بچے بھی کام کرتے ہیں اچھا بھلا کما لیتے ہیں" تحصیلدار صاحب کو بھی خاصی معلومات تھیں

" سلام صاحب! کالو کی بیوی اپنے بچوں کے ساتھ آگئی ."
"وعلیکم السلام .کیا بات ہے؟ بچے تو ٹھیک ہیں؟" عظیم صاحب نرمی سے بولے
" صاحب! آپ سے درخواست کرنی تھی. ان کے ابے کی ضمانت کرا تو دو مہینوں میں وہ ٹھیک ہو گیا ہوگا .اب اسے چھوڑ دو "شیداں ہاتھ جوڑے کھڑی تھی.
" وہ چور ,جواری, ظالم آدمی ,سب کا اتنا نقصان کر کے بھاگا. تم سب کو بھی مارتا تھا ,خرچا نہیں دیتا تھا۔ اب جیل میں گیا ہے تو وہیں پڑا رہنے دو ۔طبیعت صاف ہونے دو تمہیں کیا تکلیف ہے ؟تم اپنا کماتی ہو کھاتی ہو." سول جج صاحب بولے.

" صا حب بارہ آنے سچی بات ہے۔ وہ سب کچھ کرتا ہے، ہمیں مارتا ہے،خرچہ نہیں دیتا، گھر کی چیزیں بیچ جاتا ہے۔ چور بھی ہے، جواری بھی ہے۔ لیکن سر جی! میرے سر کا سائیں ہے. ان بچوں کا باپ ہے "،شیداں رونے لگی۔
کالو کی بیوی رو رہی تھی اور اب اس کے آنسو ان سکیوں اور آہوں سے زیادہ رواں تھے جو اس نے اپنے پٹنے اور لٹنے کے بعد شکایت لگاتے وقت بہائے تھے۔
" صاحب جی! اس کی ضمانت منظور کر لو. اسے گھر آنے دو. وہ بار بار التجا کر رہی تھی." چاروں افسر اس عورت کو حیرت سے دیکھ رہے تھے. اس کی یہ فریاد ان کے لیے بہت ہی حیران کن تھی .

"یار ! یہ کیسے آزاد ہو سکتی ہے؟ جب اس کے ظلم کو ظلم ہی نہیں سمجھ رہی؟ غلط کو غلط نہیں کہہ رہی؟ کمال ہے کہ چور بھی ہے. جواری بھی ہے،مگر سر کا سائیں ہے وہ ". چاروں افسران افسوس اور حیرت سے اس روتی کرلاتی عورت کو دیکھ رہے تھے جو مظلوم بھی تھی اور محبت اور دل کے ہاتھوں بے بس بھی۔
" صاحب !میرے سر کے سائیں کو چھوڑ دو ".دور سے واپس جاتے ہوئے بھی اس کی فریاد سنائی دے رہی تھی.
سر کا سائیں....سر کا سائیں۔

Comments

Avatar photo

صالحہ محبوب

صالحہ محبوب خاتون خانہ، کہانی کار اور افسانہ نگار ہیں۔ انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا۔ قلمی سفر کا آغاز زمانہ طالب علمی میں کیا۔ ماہنامہ بتول، عفت اور اردو ڈائجسٹ میں کہانیاں لکھتی ہیں۔عورت، ماں، بیوی، بیٹی اور بچوں کی تربیت ان کے موضوعات ہیں۔ ایک افسانوی مجموعہ 'پانیوں کی بستی میں' شائع ہو چکا ہے۔ دوسرا مجموعہ اشاعت پذیر ہے۔

Click here to post a comment