ہوم << افسانہ: روشن ستارہ - صالحہ محبوب

افسانہ: روشن ستارہ - صالحہ محبوب

رب کی رحمت پر دنیا حیران تھی۔۔۔ دونوں بڑے بھائیوں کے مشہور اور ماہر ڈاکٹر ہونے کے باوجود معاشی میدان میں انس ان دونوں سے کہیں آگے تھا۔ ملکی کاروباری حالات کے خراب ہونے کے باوجود انس کا کاروبار دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہا تھا۔۔۔۔ اس لا قانونیت کے دور میں بھی انس کا اطمینان اور سکون قابل رشک تھا۔۔۔۔ سب قطعی لاعلم تھے کہ یہ رحمتوں اور برکتوں کی بارش کہاں سے ہو رہی تھی جس نے تمام اہل خانہ کو پور پور بھگو رکھا تھا۔۔۔۔

دراصل ان راتوں کی دعاؤں، ان فجر کی بابرکت ساعتوں میں ہونے والی سرگوشیوں اور دن بھر میں صدقے واری جاتی نگاہوں سے یہ دنیا بے خبر تھی۔۔۔۔ انس کی ماں باپ کی خدمت ،ان پر محبت بھری نگاہ ڈالنا ،راتوں کو ان کے ساتھ ساتھ رہنا اس کی بڑی بڑی مشکلات کو ایسے دور کر دیتا جیسے غار کے منہ سے پتھر کا لڑھکنا اس کی ہر آزمائش دور ہو جاتی۔۔۔ اس کی ماں کی دعائیں اور باپ کا مہربان ہونا اس کا وہ حصار تھے جس نے اس کے لیے دنیا کی ہر نعمت کو محفوظ کر رکھا تھا اور ہر عمل کا اجر ہر لمحہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔۔۔۔۔ ام ایمن اور عبدالکریم کی قسمت کا ستارہ اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔۔۔ کسی ڈگری اور کلاس میں پوزیشن کے بغیر۔۔۔

" ہاں بیٹا اب سناؤ ایلیفنٹ"elephant کے سپیلنگ" ام ایمن دونوں بڑے بیٹوں کو ریاضی کے سوال سمجھا کر اب انس کی طرف متوجہ ہوئیں جسے انہوں نے کوئی آدھا گھنٹہ پہلے ایلیفنٹ کے سپیلنگ یاد کرنے کو دیے تھے انس صاحب حسب سابق سبق یاد کرنے کی بجائے جانے اور کیا یاد کر رہے تھے۔۔۔۔ امی جان کی آواز نے اسے لمحہ بھر کو پھر سے کمرے میں لا حاضر کیا۔۔۔ اسے اپنی کاپی، کتاب اور ڈائری نظر آئی ۔۔۔پھر وہی خالی دماغ 'ای' سے آگے کوئی لفظ اسے یاد ہی نہ تھا.... ایمن کا پارہ ہائی ہونے لگا لیکن ساتھ ہی انہیں ماہر نفسیات کی ہدایت یاد آگئی ـ مار اور غصہ مسئلے کا حل نہیں پیار سے سمجھائیں۔۔۔

ہنہ۔۔۔ پیار سے گھنٹہ بھر میں سب بچے تمام کام کر چکے اور موصوف ایک سپیلنگ لیے بیٹھے ہیں اور میں پیار کروں غصہ کنٹرول کروں۔۔۔ ماہر نفسیات انس کا علاج کر رہا ہے یا میرا۔۔۔ ایمن کے لیے خود پر قابو رکھنا مشکل ہو گیا۔۔۔
" انس یاد کرو وہ گر جیں۔۔۔ بچہ پھر سہم کر کونے میں دبک گیا ۔۔چہرہ فق اور وہ' ای 'جو محنت سے یاد ہوا تھا بھول گیا.. ایمن پھر سے دونوں بڑے بیٹوں کے طرف متوجہ ہو گئی.. انس کے لیے ماں کے غصے سے زیادہ دونوں بڑے بھائیوں کی مسکراہٹ تکلیف دہ ہوتی تھی.. وہ اپنی کاپی میں منہ گھسا کر بیٹھ گیا... بھائیوں کے سامنے رونا اسے بزدلی لگتا تھا مگر یہ تو روز کا معمول تھا ۔۔۔اپنی پوری کوشش کے باوجود وہ امی جان کی توقعات پر پورا نہیں اتر پاتا تھا۔۔۔ مسئلہ اس لیے زیادہ سنگین ہو جاتا کہ اس کے دونوں بھائی معاذ اور سعد پڑھائی میں بے حد ذہین تھے اور وہ دونوں سے چھ سال چھوٹا۔۔۔ لفظ اس کے سامنے آ کر اسے پریشان کرتے تھے۔۔۔ تین سال مختلف سکولوں کی نرسری اور پلے گروپ میں پڑھ کر بمشکل وہ اردو انگریزی اور حساب کے بنیادی الفاظ ہندسے اور حروف سیکھ پایا تھا ب پ ت اور ث کے نقطے اور ان کی ترتیب اسے بھول جاتی ۔۔حساب میں چھ کو نو لکھتا اور نو کو اردو کا' ط'... نجانے یہ زبان ایجاد کرنے والوں نے ایک دوسرے سے ملتی جلتی اشکال کیوں ہر زبان میں متعارف کرائی تھیں ۔۔۔انس کے لیے ان سب کو الگ الگ شناخت کرنا تقریبا ناممکن تھا اور پڑھنے سے زیادہ مشکل کام لکھنا ہوتا۔۔

ام ایمن اور عبدالکریم صاحب کے یہ تینوں بیٹے ان کی آنکھوں کے تارے تھے۔۔۔ معاذ سب سے بڑا اب آٹھویں جماعت میں تھا اور وہ ہر سال اپنی جماعت میں اول آتا ۔۔۔سعد اس سے سال بھر چھوٹا تھا۔۔۔ ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ وہ غضب کا مقرر تھا ۔۔۔اسکول ،ڈسٹرکٹ اور ڈویژن کے ہر تقریری مقابلے میں اس کا اول آنا یقینی ہوتا ۔۔۔۔اس کا کمرہ ٹرافیوں، میڈلز اور سرٹیفیکیٹس سے بھرا ہوا تھا۔۔۔۔ دونوں بھائیوں سے چھ سات سال چھوٹا انس گھر بھر کا لاڈلا تھا۔۔۔ دونوں بھائی اپنے چھوٹے بھائی کو اٹھائے پھرتے اور اس قدر پیار کرتے کہ اس کے گال سرخ ہو جاتے۔۔۔ سفید گلابی گڈا امی ابو دونوں کی جان تھا۔۔۔ مگر اس کی ذہنی استعداد شاید دیگر بچوں سے کم تھی۔۔ اس کا اندازہ ایمن کو انس کے سکول جانے پر ہوا۔۔۔ وہ پڑھائی میں بالکل بھی دلچسپی نہ لیتا تھا۔۔ گو زبانی جھوم جھوم کر نظمیں پڑھنا اسے پسند تھا مگر الفاظ ہندسے اور اشکال اسے بالکل سمجھ نہیں آتے تھے۔۔

ٹیچر کے کہنے پر اس کی آنکھوں کے ٹیسٹ کرائے گئے ۔۔۔شاید اسے دیکھنے میں مسئلہ تھا۔۔۔ مگر آنکھوں کے ڈاکٹر نے اسے بالکل نارمل قرار دیا ۔۔۔ایمن بھی اس کی آنکھوں کی بینائی کی طرف سے مطمئن تھی وہ گھنٹوں ٹی وی اور کمپیوٹر کے سامنے بیٹھا کارٹون دیکھتا رہتا تھا۔۔۔

دوسرے برس انس کو کانوں کے ڈاکٹر کو دکھایا گیا وہ ماں اور بھائیوں کی ہر بات سن کر سمجھ لیتا تھا مگر سکول میں کسی کی بات نہ سنتا نہ سمجھتا۔۔۔ کانوں کے ڈاکٹر نے بھی انس میں کسی نقص کی نشاندہی نہ کی۔۔۔
اب اسے کسی دماغی امراض کے ماہر کو دکھاتے ہیں۔۔۔ پریپ میں بہت ہی خراب کارکردگی پر ماہرین تعلیم نے پھر سے مشورہ دیا اور ام ایمن اور عبدالکریم صاحب وہاں لے گئے ۔۔۔بچہ اپنی حرکات و سکنات میں بالکل ٹھیک تھا ۔۔۔رپورٹ پھر درست آئی ۔۔اس درست رپورٹ پر سب کی خوشی تشویش میں بدل گئی آخر وہ ایسا کیوں تھا؟

اب اگلا مرحلہ ماہر نفسیات کا آیا ۔۔۔ام ایمن انس سے چڑنے لگی تھی۔۔۔ گھر میں سب کے ساتھ نارمل رہنے والا بچہ سکول جا کر گونگا ،بہرا اور دماغی کمزور بچہ بن جاتا تھا سکول والوں نے اسے سپیشل بچوں کے سکول میں بھیجنے کی ہدایت کی تھی۔۔۔۔

ماہر نفسیات اتنے چھوٹے سے مریض کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔۔۔۔ محض 10 سال کا بچہ مگر نرسری اور پریپ بھی پاس نہیں کر پایا۔۔۔ بچے کے ساتھ دو گھنٹے وقت گزارنے کے بعد ماہر نفسیات نے ماں باپ کو اپنے پاس بلایا ۔۔۔بچے کی آنکھوں، کانوں، دل ،دماغ ہر طرح کے رپورٹس اس کے سامنے تھیں ۔۔۔آپ کا بچہ بالکل نارمل ہے بس آپ دونوں کے غصے اور سکول والوں کے پریشر کی وجہ سے پریشان ہو جاتا ہے۔۔۔ بچے کو پیار کریں دوسرے سے موازنہ نہ کریں اور اس کا مذاق مت اڑائیں۔۔۔ یہ پڑھ جائے گا ۔۔۔بس تھوڑا سا آہستہ آہستہ ۔۔۔۔اب دونوں ماں باپ نے انس سے بڑی بڑی امیدیں لگانا چھوڑ دیں۔۔۔ اس پر غصہ کرنا بند کر دیا۔۔۔۔ اس کے بمشکل ہر کلاس میں پاس ہونے کو غنیمت جاننا شروع کر دیا۔۔۔
ان کے دونوں بڑے بیٹے باآسانی میڈیکل کالج کا میرٹ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔۔۔ دونوں کی کامیابیاں جہاں ماں باپ کا سر فخر سے بلند کر رہی تھیں وہیں انس سے گلے شکوے بڑھتے جا رہے تھے۔۔۔۔ ام ایمن اپنے رب کے سامنے بھی اکثر شکوہ کرنے لگتیں ۔۔۔انہیں انس اپنے لیے اللہ کی آزمائش لگتا ۔۔۔دو انعام ملنے کے بعد ایک امتحان، دو قابل اولادوں کے بعد ایک بالکل ہی نالائق بیٹا۔۔۔۔۔

" ایمن! میرے ایک دوست نے ایک بڑے اچھے عالم کا بتایا ہے. چلو انس کے لیے ان سے دعا کرا لیتے ہیں." ایک دن عبدالکریم صاحب نے بیگم سے کہا ..."انس اپنے متعلق گفتگو سن کر پریشان ہو جاتا ہے اسے ساتھ نہ لے کر چلیں ویسے بھی اثج کل اسے اپنے میٹرک کے امتحان کے بارے میں خاصی پریشانی ہے" ایمن نے شوہر کو مشورہ دیا..." چلو بس تھوڑی دیر اسے ملوا کر واپس گاڑی میں بٹھا دیں گے اور پھر اس کی غیر موجودگی میں تفصیلی بات کر لیں گے "عبدالکریم صاحب بھی ایمن کی بات سے متفق تھے... معاذ اور سعد کے ڈاکٹر بن جانے کے بعد سے انس کو اپنے پیچھے رہ جانے کا احساس بہت زیادہ ہونے لگا تھا۔

سادہ سے کمرے میں عبدالکریم صاحب، ایمن اور انس کسی بہت سفید داڑھی اور لرزتے قدموں والے بابا جی کا انتظار کر رہے تھے۔' السلام علیکم 'کی آواز پر تینوں ہی چونکے... وہ 35, 40 برس کے نہایت سمارٹ اور وجیہہ شخص تھے... نفا ست سے ترشی داڑھی اور صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس بھینی بھینی خوشبو لگائے وہ ایک متاثر کن شخصیت کے مالک تھے مگر' بابا' یا' بزرگ 'ہرگز نہ تھے ...ام ایمن نے اپنا نقاب اور بھی درست کر لیا... عبدالکریم صاحب بھی بزرگ کو دیکھ کر حیران ہو گئے...

"میرا نام انعام الحق ہے ...جی فرمائیے کیا خدمت کر سکتا ہوں آپ کی؟" عبدالکریم صاحب نے انس کے لیے دعا کا کہا اور پھر جیسے ایک مشین کی مانند تمام مسئلہ بتا دیا... انس شرمندگی سے پانی پانی ہو رہا تھا..." بیٹا ! آؤ میرے پاس بیٹھو..." انعام الحق صاحب نے انس کو اپنے ساتھ صوفے پر بٹھا کر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا... آپ کا بیٹا تو روشن ستارہ ہے... آپ دونوں کا بخت ہے ۔۔۔آپ اس کی ماں ہیں بھلا ماں کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے سے دعا کا کہنا کیا عقلمندی ہے ؟اللہ تعالی نے تو قبولیت آپ کی دعاؤں میں رکھی ہے.."

" بس آپ نیک آدمی ہیں ...دعا کریں کہ یہ کسی طرح پڑھ لکھ جائے ..." ایمن فورا بولیں۔۔۔۔" کیا دنیا میں یہ پڑھائی کیے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا ؟ آپ دونوں نے کوشش کر لی۔۔۔ بچے نے بھی کر لی۔۔۔ اب آپ کچھ اپنے رب پر بھی تو چھوڑ دیں" بابا جی پیار سے انس کی طرف دیکھ کر بولے...
" دراصل اس کے دونوں بڑے بھائی ڈاکٹر بن گئے ہیں خاندان کا ہر بچہ پڑھ رہا ہے اسے کیسے چھوڑ دیں اللہ نے بھی تو اونٹ کو کھونٹے سے باندھ کے توکل کا حکم دیا ہے" عبدالکریم صاحب بولے

" بھائی! جو باقیوں کا نصیب ہے وہ وہ بن رہے ہیں جو اس کے نصیب میں ہے وہ یہ بنے گا... کیوں اس کے پیچھے ڈنڈا لے کر پڑے ہو کہ یہی پڑھو کچھ اور نہ کرو "انعام صاحب بولے

" تو پھر یہ کیا کرے گا؟ آج میں ہوں کل نہیں ہوں گا ....دونوں بھائی ڈاکٹر اور یہ زیادہ سے زیادہ میٹرک پاس ...ہم کوئی جاگیردار نہیں کہ اس کے لیے کوئی زمین جائیداد چھوڑ جائیں "عبدالکریم صاحب خاصے تلخ ہو گئے

" بھائی صاحب کیا رزق ڈگری کے ساتھ بندھا ہے؟ کیا اس تعلیم کے بغیر لوگ بھوک سے مر جاتے ہیں؟ کیا جو ڈاکٹر کا بھائی ہو اس کے لیے بھی ڈاکٹر یا انجینیئر بننا فرض ہو جاتا ہے ؟میں اور آپ اللہ کے حکم سے نہیں لڑ سکتے.."انعام صاحب بہت نرمی سے سمجھا رہے تھے.
" آپ دعا کریں.. میں نے سنا ہے آپ کی دعا میں بڑی تاثیر ہے "عبدالکریم صاحب بولے..
" بھائی! اللہ سے ضد مت لگاؤ ...اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو.. دس جماعتیں پڑھ لے گا تو اس کی بنیادی تعلیم مکمل ہو جائے گی۔۔۔ اسے اس کی مرضی کے مطابق زندہ رہنے دو۔ انشاءاللہ یہ زندہ بھی رہے گا۔ سر اٹھا کر بھی چلے گا اور ترقی بھی کرے گا ۔۔۔بس آپ لوگ پریشان نہ ہوں۔۔۔ اس کا کوئی مقابلہ اس کے بھائیوں سے نہیں ہے۔۔۔ یہ زندگی ہے اسے میچ نہ بنائیے۔۔۔ یہ کوئی دوڑ کا مقابلہ نہیں ہو رہا ہے کہ وہ وہاں جلدی پہنچ گیا تو جیت گیا۔۔۔ زندگی کو روپے پیسوں میں مت تولیں۔۔۔ بس ذہن میں رکھیں کہ یہ انس ہے۔۔۔ آپ کا 'بیٹا'.... یہ دوسروں جیسا نہیں ہے کیونکہ یہ تو خاص ہے یہ انعام ہے... بخت ہے، بس شکر کریں اور اسے اس کی مرضی کے حساب سے زندہ رہنے دیں۔۔۔" انعام صاحب کا انداز یقینا بہت خاص تھا دل میں اتر جانے والا

"بغیر تعلیم بھی بھلا کوئی زندگی ہے؟" عبدالکریم صاحب سے انعام صاحب کی بات ہضم نہیں ہو رہی تھی... انعام صاحب نے انس کو پیار کیا اور مسکرا کر اٹھ کھڑے ہوئے باہر اذانیں ہو رہی تھیں اور انہیں مسجد جانا تھا...

انس نے بمشکل میٹرک کا امتحان پاس کیا۔۔۔ اس کے نمبروں کے ساتھ کسی بھی کالج میں داخلہ ناممکن تھا۔۔ معاذ اور سعد باری باری سپیشلائزیشن کے لیے انگلینڈ روانہ ہوئے ۔۔۔دنیا کے بڑے بڑے ادارے انہیں داخلہ دینے کے لیے تیار تھے ۔۔۔دونوں کا شاندار تعلیمی سفر ان کے لیے سیڑھی تھا۔۔۔ ام ایمن اور عبدالکریم کے لیے باعث فخر بھی۔۔۔

عبدالکریم صاحب نے انس کو کاروبار شروع کروا دیا ۔۔۔کاروبار کا تمام دفتری کام عبدالکریم صاحب نے سنبھال لیا ۔۔انس میٹرک ہونے کے باوجود درست لکھنے اور پڑھنے سے قاصر تھا۔۔۔ انس کی صلاحیتیں عملی میدان میں ظاہر ہونا شروع ہوئیں۔۔۔ اس کی حساب کتاب کی صلاحیت ،درست اندازے اور نفع نقصان کو سمجھنے کی قوت، جسمانی پھرتی اور دوسرے لوگوں کو قائل کرنے کا ہنر۔۔۔۔لاجواب تھا۔۔۔ انس کا کاروبار دن دگنی رات چگنی ترقی کرنے لگا ۔۔۔اس کا چھوٹا سا بزنس اب ایک مکمل صنعت کا روپ دھارنے لگا ۔۔۔قسمت یقینا ڈگری کے ساتھ بندھی نہ تھی۔۔۔

" پاکستان میں حالات اچھے نہیں. آپ لوگ بھی یو کے آ جائیں .."دونوں معاذاور سعد ماں باپ کو اپنے پاس بلاتے۔۔۔ ام ایمن اور عبدالکریم صاحب بخوشی بیٹوں کے پاس رہنے بھی جاتے معاذ اور سعد کے شاندار گھر، ان دونوں کی ڈاکٹر بیویاں اور بالکل انگریز بچے یقینا وہاں بہت سہولت تھی، چیزیں تھیں، آسائش تھی، مگر دونوں کو جو خوشی، اپنائیت، چاہت اپنے دیس میں محسوس ہوتی وہاں وہ ہرگز نہ ڈھونڈ پاتے۔۔۔ اپنے دیس کی آلودہ فضائیں، مسائل بھی انہیں اچھے لگتے۔۔۔ پاکستان میں انس دونوں بھائیوں سے بھی زیادہ اچھی طرح سے رہ رہا تھا ۔۔۔ایمن نے اپنی بھانجی سے اس کی شادی کی اور اپنے دل کے سارے ارمان نکالے۔۔۔ اب انس کا گھر ایک بڑے ولا میں بدل چکا تھا اور اس کے ماتھے پر نام کی تختی" عبدالکریم صاحب" کی تھی اور نام" گلشن ایمن" تھا..

عبدالکریم صاحب کو دل کا دورہ دفتر میں ہی پڑا۔ انس نے ان کا علاج شہر کے بہترین ہسپتال سے کرایا۔۔ ایک ہفتے میں وہ مکمل صحت مند ہو کر گھر آگئے بس ایک مختلف طرز زندگی کے ساتھ۔۔۔ انس کا طرز زندگی بھی باپ کے ساتھ بالکل ہی بدل گیا۔۔ سیر، ورزش اور چکنائی سے مبرا کھانا، پھل اور سبزیاں انس کی بھی زندگی کا حصہ بن گئیں۔۔۔ ایمن اب گھٹنوں کے درد نے مبتلا تھیں ۔۔انس خود انہیں مالش کرتا، ورزش کراتا، سیر کراتا ،سہارا دیتا۔۔۔ رات کو ماں باپ کے ساتھ سوتا۔۔۔ ان کی ایک آواز پر اٹھ جاتا ۔۔۔۔انہیں دوا دیتا،تکلیف کی صورت میں ساتھ جاگتا۔۔۔ دونوں ڈاکٹر بھائی بھی یقینا ماں باپ سے بہت محبت کرتے تھے۔۔۔ ان کے لیے فکر مند رہتے تھے۔۔۔ سال میں تین چار مرتبہ چکر بھی لگاتے۔۔۔ والدین کو سال میں دو مرتبہ بلاتے بھی تھے۔۔ محبت میں، پیار میں وہاں بھی کمی نہ تھی۔۔۔ معاشی کامیابیاں پیشہ ورانہ مہارت بھی زبردست تھی بس ان دونوں اور والدین کے درمیان فاصلہ سمندروں کا تھا اور انس ان دونوں کا انعام ،ان کی ایک آواز کی دوری پر تھا۔۔۔

" ابا جان! یہ آفس ورک میرے بس کا کام نہیں ہے.. مجھے تو بمشکل دو درخواستیں ,دو کہانیاں اور ایک مضمون انگریزی میں لکھنا آتا ہے. بھلا اتنا بڑا آفس میں کیسے سنبھال سکتا ہوں؟ بس اٹھیے میرے ساتھ چلیں آج تک آپ کے ساتھ گیا ہوں اور اب یہ روز اکیلے جانا اچھا نہیں لگتا... اٹھیے نہایے تیار ہوں اور پھر چلیں"عبدالکریم صاحب جسمانی کمزوری کا شکار تھے دواؤں نے انہیں جڑجڑا کر دیا تھا مگر انس انہیں دفتر ساتھ لے جانے پر مصر تھا۔۔ گرم پانی سے نہا کر وہ خود کو خاصا تر و تازہ محسوس کرنے لگے۔۔۔ انس نے خود ان کے بال بنائے، جوتے پہنائے، جیب میں رومال رکھا ،موبائل ڈالا اور عبدالکریم صاحب کا ہاتھ پکڑ کر دفتر روانہ ہو گیا۔۔۔ بیٹے کی یہ توجہ عبدالکریم صاحب کے لیے وٹامنز کا کام کر رہی تھی۔۔۔ دونوں بات چیت کرتے دفتر پہنچے اور پھر کاموں میں عبدالکریم صاحب خاصے پہل گئے۔۔۔

گھر میں بہو پوتے پوتیوں کی وجہ سے ام ایمن کا دل لگا رہتا مگر جو خوشی انہیں انس کے ساتھ بیٹھنے میں ہوتی وہ کسی اور کے ساتھ نہ ملتی تھی۔۔۔ اپنے انتہائی اہم وقت میں سے وہ گھنٹوں گھنٹوں ماں کے لیے آرام دہ جوتوں کے انتخاب کے لیے وقف کر دیتا۔۔۔۔ کسی اور سے سہارا لینا ماں کو منظور نہ تھا سو روز آہستہ آہستہ لان میں خود ہی انہیں سیر کراتا اور پھر گھٹنوں کی مالش کرتا ۔۔۔عبدالکریم صاحب اکثر اسے "جناب مالشیہ صاحب" کہتے اور وہ ماں کے ساتھ لگ کر مسکراتا رہتا... یقینا دونوں ماں باپ اپنے بیٹے سے بہت خوش تھے۔۔۔

آج فجر کے بعد دعا مانگتے مانگتے ایمن کو وہ انعام صاحب یاد آگئے۔۔۔ اپنا اضطراب اور پریشانی کا سوچ کر وہ مسکرا اٹھیں۔ آج انس کے چھوٹے بیٹے کے اردو میں کم نمبر آنے پر اپنی بہو کا غصہ اور پریشانی انہیں بہت کچھ یاد دلانے لگا۔۔۔ جانے ہم مائیں کیوں اپنے بچوں کی پوری زندگی کم یا زیادہ نمبروں سے ناپنے لگتی ہیں ۔۔۔کامیابیاں اور ناکامیاں صرف نمبروں کی ہی مرہون منت کیوں ہوتی ہیں؟ بھلا زندگی کو ڈگری سے ناپنا کوئی پیمانہ ہے؟ ام ایمن یہ سب باتیں اپنی بہو کو بتانا چاہتی تھیں ...مگر وہاں بھی وہی سمجھ اور نا سمجھی کی کیفیت تھی جو انعام صاحب سے گفتگو کرتے وقت ایمن اور عبدالکریم صاحب کی تھی۔۔۔ واقعی میرا رب روشنی میں ہے اور میں اندھیرے میں ہوں۔۔۔ وہ سب جانتا ہے اور میں انجان ہوں۔۔۔ اے اللہ! میں نے تجھ پر بھروسہ کیا تجھ پر ایمان لایا... آگہی کہ دو شبنمی قطرے ایمن کی ہتھیلیوں میں گرے اور لرزنے لگے۔۔۔انس تو واقعی ان کا روشن ستارہ تھا ۔۔۔

Comments

Avatar photo

صالحہ محبوب

صالحہ محبوب خاتون خانہ، کہانی کار اور افسانہ نگار ہیں۔ انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا۔ قلمی سفر کا آغاز زمانہ طالب علمی میں کیا۔ ماہنامہ بتول، عفت اور اردو ڈائجسٹ میں کہانیاں لکھتی ہیں۔عورت، ماں، بیوی، بیٹی اور بچوں کی تربیت ان کے موضوعات ہیں۔ ایک افسانوی مجموعہ 'پانیوں کی بستی میں' شائع ہو چکا ہے۔ دوسرا مجموعہ اشاعت پذیر ہے۔

Click here to post a comment