ہوم << سانحہ کوئٹہ اور ہمارا فکری افلاس - آصف محمود

سانحہ کوئٹہ اور ہمارا فکری افلاس - آصف محمود

ایک جانب کوئٹہ میں شہداء کے لاشوں کا ڈھیر ہے تو دوسری طرف ہمارے سماج کا فکری افلاس تعفن دے رہا ہے۔ سمجھ نہیں آ رہی دہشت گردی کو روئیں یا اس فکری افلاس پر سر پیٹیں؟
لہو رنگ صحن جوان لاشوں سے بھراپڑا تھا۔ یہ وہ عالم تھا کہ پتھر دل بھی پگھل کر موم ہو جائیں لیکن صاحب یہ ہماری سیاست ہے۔ ابولکلام آزاد نے کہا تھا: سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ حیرت سے آدمی سوچتا ہے: سینے میں دل بھلے نہیں ہوتا، اب سیاست کی آنکھ سے حیا بھی اٹھ گئی ہے؟
لشکر جرار تھے جو اس حادثے کے بعد عصبیت اور نفرت کا ابلاغ کرتے رہے۔ کسی نے مریم نواز کے جعلی ٹویٹ پھیلا دیے جن میں اس سانحے کے ہنگام بھارت کی وکالت کی گئی تھی. اس کے بعد سوشل میڈیا پر مریم نواز کے خلاف مغلظات کا ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔ ذرا سی محنت کر کے مریم کا ٹویٹر اکاؤنٹ چیک کیا جا سکتا تھا لیکن احباب نے اس کا تردد نہیں کیا اور ایک جعلی اکاؤنٹ کی بنیاد پر مریم نواز کی حب الوطنی کا آملیٹ بنا دیا گیا۔ ایسی ہی بیمار نفسیات کا شکار عمران خان کو بھی بنایا گیا۔ ان سے منسوب ایک جعلی بیان ایک فوٹو شاپ پر تیار کی گئی تصویر کے ساتھ شیئر کر دیا گیا کہ وہ بلوچستان میں شہداء کی تعزیت کرنے گئے اور وہاں بھی انہوں نے دھاندلی کا شور مچا دیا۔ ان کے مخالفین نے ایک جعل سازی کی مدد سے ایک طوفان اٹھا دیا کہ عمران خان کی ذہنی حالت ملاحظہ فرمائیے، اتنے بڑے حادثے کے بعد بھی انہیں دھاندلی کی پڑی ہوئی ہے۔
بات مگر صرف سوشل میڈیا کی ناتراشیدہ روحوں تک محدود نہ رہی۔ ہمارے دوست اور تحریک انصاف کے علی محمد خان نے گرہ لگائی کہ ایسا کیوں ہوتا ہے جب بھی ہم حکومت کے خلاف کوئی تحریک چلاتے ہیں دہشت گردی کی کوئی واردات ہو جاتی ہے۔ وہ بین السطور گویا اس حادثے کا ذمہ دار وزیر اعظم کو قرار دے رہے تھے۔ ہمارے بزرگ قبلہ احمد رضا قصوری نے تو بین السطور کے اس تکلف میں پڑنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی اور واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ یہ حادثہ نواز شریف نے کروایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ حادثہ نواز شریف نے را کی مدد سے کرایا ہے اور اس کا مقصد عمران خان کی تحریک احتساب کو روکنا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس ملک میں منتخب وزیر اعظم کو غداری کا طعنہ دینا کتنا آسان ہے۔ نواز شریف صاحب کی پالیسیوں سے کسی کو سو اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن جس شخص کو عوام الناس نے تیسری دفعہ وزیر اعظم بنایا ہو، اس کو را کا ایجنٹ قرار دینا کیا ایک قابل تحسین عمل قرار دیا جا سکتا ہے؟
اس ابتدائی چاند ماری کے بعد جو کسر باقی تھی وہ معزز اراکین پارلیمان نے پوری کر دی۔ جناب محترم محمد خان شیرانی، مولانا فضل الرحمان اور جناب محمود خان اچکزئی نے اپنی ہی فوج کو سینگوں پر لے لیا۔ ساتھ ہی ان کے مداحین نے داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے شروع کر دیے کہ دیکھا آپ نے امام سیاست شیرانی صاحب کو؟ ہے کوئی ان جیسا جو اس ادا سے کلمہ حق کہے؟ ہے کوئی محمود اچکزئی جیسا اکل کھرا اور بے باک انسان؟ دکھ اور افسوس کے ساتھ آدمی سوچتا ہے کہ یہ کیسی حق گوئی اور بے باکی ہے جو اپنے سپاہی کو اس وقت گالی دے رہی ہے جب وہ محاذ پر کھڑا ہے۔ سوال اٹھانا اچھی بات ہے لیکن سوال انصاف کے ساتھ اٹھانا چاہیے۔ اس میں دیانت اور خیر خواہی کا عنصر ہونا چاہیے، بغض اور نفرت کا نہیں۔
مولانا شیرانی نے گڈ اور بیڈ طالبان کا سوال اٹھایا۔ بہت خوب۔ لیکن کیا وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ پاکستان میں طالبان کا سب سے بڑا سرپرست اور ہمدرد کون تھا؟ کیا وہ طالبان کے لیے جے یو آئی کی وارفتگیاں بھول گئے؟ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ قوم کی یادداشت اتنی ہی کمزور ہے کہ اسے یہ بھی یاد نہیں ہو گا کہ وہ کون سی جماعت تھی جس کے جلسوں میں یہ نعرہ گونجا کرتا تھا: اسلام کا ہیرو نمبر ون، میرا شیر اسامہ بن لادن؟ فوج کو گڈ اور بیڈ طالبان کا طعنہ دینے کے بعد اب مولانا شیرانی خود بھی غور فرما لیں اور ذرا قبلہ حضرت فضل الرحمن سے بھی پوچھ لیں کہ ملا محمد عمر اور ملا منصور کا شمار وہ کس طبقے میں کرتے ہیں؟ گڈ طالبان میں یا بیڈ طالبان میں؟ یا دونوں میں نہیں؟ فوج کو طعنہ دینے والے بزرگ بتائیں کہ سماج کو آگ لگانے والوں میں کس کس کا نام آتا ہے؟ کس نے یہ بیان دیا تھا کہ اسامہ بن لادن پر حملہ ہوا تو امریکی بحری بیڑے کو بحر الکاہل میں غرق کر دوں گا؟
مولانا فضل الرحمان سوال کرتے ہیں کہ اگر یہ کام را ہی کر رہی ہے تو اس کو کس نے روکنا ہے؟ فوج نے یا ہم نے؟ تو جناب اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں نے روکنا ہے۔ فوج نے اپنے حصے کا کام کرنا ہے اور آپ سیاستدانوں نے اپنے حصے کا۔ محاذ پر فوج، دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں فوج، کراچی میں رینجرز، مروجہ عدالتی نظام کارکردگی نہ دکھا سکا تو فوجی عدالتیں بنا کر یہ ذمہ داری بھی فوج کے حوالے، زلزلہ آئے تو فوج، سیلاب آئے تو فوج، چھوٹو گینگ سے لڑنا ہو تو فوج۔ قبلہ جان کی امان پاؤں تو پوچھوں کہ آپ لوگوں نے کیا کام کیا؟ ہر حکومت کا آپ حصہ رہے، آپ کی کیا کارکردگی ہے؟ کیا دہشت گردی کے خلاف ہر جگہ لڑنا صرف فوج کا کام ہے؟ کیا ہسپتالوں کی سیکیورٹی بھی اب فوج کرے؟ آپ حضرات نے پولیس کے نظام میں آج تک کیا بہتری کی؟ فوج علاقے کو دہشت گردوں سے صاف کر سکتی ہے، اس کے بعد معمول کا نظام تو سول اداروں نے چلانا ہے۔ اس باب میں آپ کی کیا کارکردگی ہے؟ کیا آپ سیاست دانوں کا کام تہتر کے آئین نے تناظر میں صرف لمبی لمبی بحثیں کرنا ہے؟
اچکزئی صاحب را کے دفاع میں یوں بولے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ یہ وارفتگیاں۔۔اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے۔ اچکزئی صاحب ذرا یہ بھی بتا دیں کہ یہ وزارت داخلہ کے خط کا کیا معاملہ ہے جومبینہ طور پر وزارت خارجہ کو بھیجا گیا۔ یہ افغان انٹلی جنس کا رمضان نورزئی کون ہے۔اور یہ دس لاکھ ڈالر کا کیا قصہ ہے؟
فوج کے خلاف زہر اگلنا اس وقت سکہ رائج الوقت بن چکا ہے۔ کبھی اسے گڈ اور بیڈ طالبان کا طعنہ دیاجاتا ہے تو کبھی سٹریٹیجک ڈیپتھ کے تصور کی بھد اڑائی جاتی ہے۔ فوج پر وہاں تنقید ضرور کیجیے جہاں بنتی ہو لیکن بلاوجہ فیشن کے طور پر اسے سینگوں پر لیے رکھنا کوئی معقول طرز عمل نہیں ہے۔ سٹریٹیجک ڈیپتھ کا تصور یہ نہیں تھا جو اس وقت ناقدین طنزا بیان کرتے ہیں۔ تصور یہ تھا کہ ایک دوستانہ افغانستان ہو۔ آج تنقید کرنا آسان ہے، اس وقت کو ذہن میں رکھیے جب درجن بھر قوم پرست رہنما افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان توڑنے اور پختونستان بنانے پر تلے بیٹھے تھے۔ بعض قوم پرست رہنمااس تکلیف سے ابھی باہر نہیں آ پا رہے۔
گڈ اور بیڈ طالبان کا معاملہ بھی ٹھنڈے دل سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے تمام جنگجوؤں کو ریاست ایک لاٹھی سے کیسے ہانک سکتی ہے۔ جو ریاست سے نہیں الجھ رہے وہ گڈ کہلاتے ہیں جو ریاست سے لڑ رہے ہیں انہیں بیڈ کہا جاتا ہے۔ ریاست ان سے لڑ رہی ہے جو بیڈ ہیں۔ ریاست گڈ طالبان سے لڑ کر ایک نیا محاذ کیوں کھول لے؟ امریکہ یہ محاذ کھولنا چاہتا ہے۔ کولیشن سپورٹ فنڈ کے لیے یہی اس نے شرط رکھی ہے۔ ہم کیا کرائے کے قاتل ہیں کہ امریکہ سے رقم لیں اور ان جنگجوؤں سے بھی لڑائی شروع کر دیں جو ہم سے نہیں لڑ رہے۔ ریاست اس وقت یہ محاذ نہیں کھولنا چاہتی۔ جو لوگ اس وقت گڈ اور بیڈ طالبان کا طعنہ فوج کو دیتے ہیں، وہ کس کا کھیل کھیل رہے ہیں؟
پاکستان کا مسئلہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف افغانستان نے بیڈ طالبان کو پناہ گاہیں دی ہوئی ہیں جہاں سے وہ ہمارے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان یکطرفہ طور پر خطے میں جاری پراکسی وار کے عمل سے کیسے دستبردار ہو جائے۔ کوئی بھی ملک یکطرفہ طور پر اچھا بچہ نہیں بن سکتا۔ یہ کام اجتماعی طور پر ہوگا جب بھی ہوگا۔ جب سوویت یونین کے خلاف جہاد شروع نہیں ہوا تھا افغان حکومتوں نے تو تب سے ہی ہمارے خلاف کام شروع کیے رکھا ہے۔ اعتماد کے اس بحران میں پاکستان یکطرفہ طور پر صوفی منش نہیں بن سکتا۔ ہمارے سیاستدان ان بیڈ طالبان کا ذکر نہیں کرتے جو افغانستان کی سرپرستی میں پاکستان کے خلاف کام کر رہے ہیں، الٹا وہ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ پاکستان ایک نیا محاذ کیوں نہیں کھول رہا۔
دہشت گردی ایک گلوبل چیلنج ہے۔ صرف فوج کو طعنہ دے کر بیمار نفسیات کا مظاہرہ تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس رویے کا علم کی دنیا میں کوئی اعتبار نہیں۔ عراق اور شام میں کیا پاک آرمی تھی اور اس کی غلطیاں تھیں جو وہاں آج دہشت گردی ہو رہی ہے۔ یہ گلوبل رجحان کہیں اور سے آ رہا ہے۔ اس کا طعنہ فوج کو کیوں دیا جا رہا ہے۔ کون کس کا کھیل کھیل رہا ہے۔
یہ بھی دیکھ لیجیے کہ بعض ممالک پاکستان کے بعد دہشت گرد تنظیموں کا شکار ہوئے اور تباہ ہو گئے۔ پاکستان ان سے پہلے کا اس عفریت کا شکار ہے لیکن بطور ریاست آج بھی قائم ہے اور نہ صرف مزاحمت کر رہا ہے بلکہ بڑی حد تک اس بلا پر قابو بھی پا چکا ہے۔ فوج کے علاوہ کون ہے جس نے بچایا ہوا ہے۔ اس چومکھی لڑائی میں کبھی کامیابی ہوگی، کبھی دشمن کامیاب ہو جائے گا۔ ہوشمندی کا مظاہرہ کرنا بہت ضروری ہے۔ وہ لوگ اس سماج اور ملک کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے جو اس موقع پر پوائنٹ سکورنگ کریں یا بغض اور تعصب سے کام لیں۔
انصاف سے کام لیجیے۔اعتدال اور انصاف ہی راہ نجات ہے۔

Comments

Click here to post a comment

  • جناب. اگر ساتھ ہی گڈ طالبان کے نظریات اور اہداف سے بھی آگاہ فرما دیتے تو بات سمجھنے میں مزید آسانی رہتی.