وسیم کی چھٹیاں باقی تھیں، اس لیے ابھی وہ پاکستان میں ہی تھا جب نو گیارہ کا سانحہ ہوا. اس نے بین الاقوامی سیاسی حالات بھانپتے ہوئے فی الوقت امریکہ واپس نہ جانے کا فیصلہ کیا، اور صابرہ کو رخصت کروا کے ایک چھوٹے سے گھر میں لے آیا. صابرہ نے تو امریکہ کے کسی گھر کا خواب سجا لیا تھا ،لیکن اس میں شوہر سے دوری اور تنہائی بھی شامل تھی، لہٰذا یہ سودا برا نہ تھا -فلم ہوتی تو دو دلوں کے ملن پر ہیپی اینڈنگ کا سائن آجاتا لیکن زندگی کا ایک نیا باب شادی کے بعد شروع ہوتا ہے.
--------------
منیبه کو اندازہ نہیں تھا کہ اس کے شوہر کو کاروبار میں نقصان سے اتنا صدمه پہنچے گا کہ بات بات پر اپنے دوستوں سے لڑنا شروع کر دے گا. وقاص نے بہت کوشش کر کرا کے امریکہ کے بجاۓ کینیڈا شفٹ ہونے کے لیے پیپرز اور خاصی تگڑی فیس جمع کروا دی تھی، جبکہ منیبه کو امید تھی کہ شاید اب وہ نمازیں پڑھ کر اپنے رب کو منانے کی طرف آجاۓ گا ،اس سال روزے رکھ لے گا ،شاید وہ فلمیں جو اسے دیکھنے پر آمادہ کرتا رہتا ہے، ان سے باز آجائے گا .لیکن اس کی امیدوں پر پانی تب پڑا جب رمضان آئے اور گزر گۓ لیکن ایک روزہ ایک نماز بھی وقاص نہ کما سکا. منیبه چوروں کی طرح اٹھتی اور تنہا سحری کرلیا کرتی. پھر جب سے بچے بھی روزے رکھنے کے قابل ہوئے تو وہ بھی باپ کی ڈانٹ سے بچنے کے لیے چپکے چپکے سحری کرتے. وقاص دن میں دھڑلے سے منیبه سے فرمائشیں کر کر کے کھانے بنوا کر بچوں کے سامنے ہی کھاتا، اور ٹوکنے پر خفا ہوجاتا کہ "میں نے کہا ہے کہ روزے رکھو! اللہ کی خوشی کے لیے رکھتے ہو تو مجھ پر احسان نہ رکھا کرو.'' خاندان میں افطار پارٹیاں ہوتیں، مردوں کی جماعت کھڑی ہوتی، تو یہ دیدہ دلیری سے الگ بیٹھ جاتا. کوئی بزرگ ساتھ آنے کہتے تو انھیں ٹال دیتا.کسی جمعہ کو منیبه نرمی سے کہتی کہ نماز پڑھ لیا کریں، بیٹے کو ساتھ لے جایا کریں، تو وہ کسی آتش فشاں کی مانند پھٹ پڑتا، اور بالکل بات چیت بند کردیا کرتا. ان کے گھر میں معافی مانگنے اور منانے کا کام منیبه ہی کا تھا. وقاص شب برات پر بچوں کے لیے پٹاخے، پھلجھڑی انار سب بڑے شوق سے لاتا کہ اور بچوں کو دیکھ کر اس کے بچوں میں احساس کمتری نہ پیدا ہو جاۓ، چراغاں دکھانے ضرور لے جاتا ، محرم کے جلوس دکھانے کیونکہ سبیلوں کی رونقیں بہت بھاتی تھیں، رمضان کی راتوں میں بازاروں کی رونق کا حصہ بننے سے بھی اسے کوئی نہیں روک سکتا تھا، منیبه ان سب پر ٹوکتی تو احسان جتا کر کہتا کہ "تمھیں پتہ ہے کہ شراب اور شباب کتنا عام ہے دفتر میں! تم کتنی ناشکری ہو کہ ایک شریف مسلمان شوہر کی قدر ہی نہیں، دیکھو میں حقوق العباد کتنے اچھی طرح نبھاتا ہوں ، حقوق الله میرا اور اللہ کا معامله ہے اس کے بیچ میں مت آیا کرو ورنہ "......
ایک دن وقاص دفتر سے بڑا خوش لوٹا. معلوم ہوا کہ کسی فنکشن کے لیے اس نے بڑے ہی مشہور بینڈ کے ساتھ ایک میوزیکل شو ارینج کیا ہے. اس کے بعد سے وقاص کو اس قسم کی محافل میں خوب دلچسپی ہو گئی. منیبه کبھی کبھی اپنی ماں سے کہا کرتی کہ"امی مجھے بہت خوف آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض نہ ہو جائیں."،تو ماں اسے پیار سے نصیحت کرتیں کہ "بیٹا شوہر تو مجازی خدا ہوتا ہے ،اسے خوش رکھنے سے ثواب ملتا ہے، خاوند مغرب کی سمت تم مشرق کی سمت جاؤ گی تو بیچ میں خلا پیدا ہو جاۓ گا اور دیکھنا پھر کوئی دوسری عورت اس میں آجاۓ گی.'' دوسری عورت کے تو نام سے بھی منیبہ کی جان نکل جاتی تھی، لہٰذا وہ بھی ان شغل میلوں میں اس کا ساتھ دیتی رہی.
--------------
صابرہ ہندی فلموں سے جنم لینے والی سجی بنی ہیروئن تھی، جس سے اس کا ہیرو محبت بھرے ڈائیلاگ بولتا،کار یا موٹر سائیکل پرسیرکرواتا، کہیں رک کر من پسند کھانا کھلاتا، اور کسی سگنل سے گجرے خرید کر اپنے ہاتھوں سے اس کی کلائیوں میں پہناتا، اور گھر کی چھت پر بیٹھ کر چودھویں کے چاند سے زیادہ صابرہ کے حسن سے متاثر ہوتا. لیکن دوسری جانب وسیم بہت زیادہ پریکٹیکل، خود دار اور کفایت شعار انسان تھا. چند دن بعد سے ہی اس نے گھر چلانے کے لیے خود بھی دوڑ دھوپ شروع کر دی تھی، اور صابرہ کو بھی تاکید کی کہ وہ انگلش سیکھنا شروع کردے، تاکہ امریکہ جانے کے بعد مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے.لیکن ان کاموں میں ایک تو محنت لگتی ہے، دوسرا صابرہ کا دل بھی نہیں لگتا تھا. وہ شادی پر ملے زرق برق کپڑوں کو دیر تک احتیاط سے استری کر کے فرصت سے ان کی ایک ایک شکن کو دور کرتی ، پہنتی، میک اپ کرتی، وسیم کہیں خجل ہو کر واپس لوٹتا تو پیاری سی بیوی کو دیکھ کر اس کا دل خوش ہو جاتا. وہ شکر گزار انسان تھا، دل سے اپنے اس فیصلے پر خوش تھا، لیکن جب کچھ دن مسلسل یہ ہوا کہ کھانا طلب کرنے پر صابرہ کبھی کہتی بن کباب لیتے آتے، یا چلیں ہم چل کر نہاری کھاتے ہیں، یا کبھی گزشتہ روز کا ہوٹل سے ہی لایا ہوا بچ جانے ولا قیمہ کھانے کے لیے نان منگوانے کا کہا، توپھر وسیم نے اسے سمجھایا کہ اسے گھر کا کھانا ہی پسند ہے، ویسے بھی باہر کا کھانا نہ جانے صحت کے لیے کتنا مضر ہوتا ہو. صابرہ کو اس کے سمجھانے کا انداز بہت بھلا لگا،ویسے بھی اس نے سوچ رکھا تھا کہ پچھلی زندگی کی غلطیاں نہیں دہرانی ہیں.
البتہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک طویل عرصے تک اے سی والے ٹھنڈے کمرے میں لیٹ کر رسالوں میں شائع ہوئی تصاویر کے شوق میں کھانوں کی ترکیبیں پڑھتی، یا ڈش پر چلنے والے کسی چینل پر شیف سنجیو کپور یا زبیدہ آپا کو صوفے پر نیم دراز دیکھ لیا کرتی، اور حقیقی دنیا میں اسے تو ٹی وی کے شیف کی طرح پیاز چھلے ہوئے، سبزی کٹی ہوئی، گوشت پگھلا اور دھلا ہوا نہیں ملتا تھا،پھر تمام برتن بھی خود ہی دھونے پڑتے، تب جاکر دو لوگوں کا کھانا تیار ہو پاتا . وہ تھک کر ایسی نڈھال ہوتی کہ کبھی گھر کی صفائی رہ جاتی، کبھی کپڑے دھلنے، اور یہ سب کسی دن ممکن ہوتا تو کھانا جل جاتا یا اس میں کسر رہ جاتی، لیکن وسیم اس پر کوئی احتجاج نہ کرتا کہ لڑکیاں رفتہ رفتہ سیکھ ہی جاتی ہیں، بلکہ کبھی کبھی خود بھی گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹا دیا کرتا، جس سے وہ صابرہ کے دل میں گھر کرتا جارہا تھا.
سردیوں کا موسم تو جیسے تیسے گزر گیا لیکن گرمی شروع ہوتے ہی صابرہ نے کچن میں مدد کے لیے ملازمہ رکھنے کی فرمائش کی تو وسیم نے برملا جواب دیا کہ "صابرہ !اگر تمھارے میکے میں ملازموں کا رواج ہوتا تو کھینچ تان کر بند و بست کرنا میرا ذمہ ہوتا، لیکن تمھارے بھائی بھی میری ہی طرح کے سفید پوش اور کفایت شعار انسان ہیں،مجھ سے جتنا ہوتا ہے تمھاری مدد کروا دیتا ہوں، زیادہ فرمائشیں بھی نہیں کرتا ،ہماری روز روز کی مہمان داری بھی نہیں ہے ،اور سوچو ذرا کہ میں تو خود یہاں رہ کر اپنی جمع پونجی ہی زیادہ استعمال کر رہا ہوں…اور ہاں ! امریکہ جاکر تو ویسے بھی کسی ہاؤس ہیلپ کا تصور فوری طور پر ممکن نہیں ہوگا." صابرہ نے تسلی سے سنا اور اٹھلاتے ہوئے کہا "جب تک یہاں ہیں تب تک تو ماسی رکھی جاسکتی ہے نا، میں پارلر واپس جانا شروع کر دیتی ہوں اپنی تنخواہ سے …." وسیم نے جھلا کر کہا "یار پلیز تم مجھے مشورے نہ دو، جو کہہ رہا ہوں وہ کرو، دو لوگوں کا کام تم سے نہیں ہوتا،مجھے سوچ سوچ کر ہیبت ہوتی ہے کہ کل کو بچہ ہوا تو تم اس کی ٹیک کیئر کیسے کر سکو گی! تم نے کچھ سیکھا نہیں اتنے سالوں میں اپنی بھاوج سے !!! تمہاری بھابھی بھی تو تین بچوں کے ساتھ پورا گھر!!!"اس تقابل کی وجہ سے صابرہ کے صبر کے بند ٹوٹ گئے اور پرانی صابرہ ایک جن کی مانند وسیم کے سامنے آگئی جو جھگڑتے ہوئے نہ ہی سامنے والے کا رشتہ دیکھتی ،نہ اپنے الفاظ ، نہ ہی ان کا انجام.
وسیم نے شروع میں اسے چپ کروانا چاہا، مگر اس کے بگڑتے تیور دیکھ کر سیدھا فون کی طرف گیا. شوکت گھر پر نہیں تھا، فون نادیہ نے اٹھایا اور بڑی تہذیب سے سلام کیا ہی تھا کہ پیچھے سے صابرہ کے غصے میں بھرے الفاظ کان میں پڑے،تو نادیہ معاملہ بھانپ گئی. کچھ کھٹکا تو اسے تبھی تھا جب صابرہ کی رخصتی امریکہ کے بجائے بھائی کے گھر سے گھنٹہ بھر دور ہوئی، کہ جس دن ہنی مون پیریڈ ختم ہوگا، صابرہ کی بد زبانی ،کاہلی اور کوتاہ بینی اسے واپس اس کے سر پر مسلط کر سکتی ہے.اس لیے فون تھامے ہوئے ہاتھ کانپنے لگے. وسیم شدید غصے میں کہہ رہا تھا کہ "آپ لوگوں نے میرے ساتھ دھوکہ کیا ہے. میں مان ہی نہیں سکتا کہ بھاوج ہو کر آپ کو اس کا یہ روپ معلوم نہ ہو. آپ نے اپنی بلا میرے سر مونڈھ دی ہے. میں آپ لوگوں کے خلاف پرچہ بھی کٹواؤں گا، اور اس بدزبان، جاہل، نکمی عورت کو طلاق بھی کورٹ سے ہی بھیجوں گا. مجھے تو حیرت ہے کہ اس کی پہلی شادی ڈھائی سال بھی کیسے چل گئی تھی؟ بہرحال ابھی تو آپ لوگ فوری طور پر آکر اسے لے کر جائیں، اس سے پہلے کہ کوئی بڑی بات ہو جاۓ، کیونکہ یہ مجھے دھمکیاں دیے جارہی ہے کہ نس کاٹ کر ،نیند کی گولیاں کھا کر خود کشی کر لے گی."
--------------
نادیہ نے لرزتے ہاتھوں سے شوکت کو فون کیا ،شکر ہے اس نے موبائل خرید لیا تھا تو آسانی سے رابطه ہو جایا کرتا تھا .گھٹی آواز میں نادیہ نے شوہر کو اطلاع دی،شوکت تفصیل جاننا چاہ رہا تھا، سوال پر سوال کر رہا تھا ،لیکن اس سے کہیں زیادہ سوالات تو خود نادیہ کے ذہن میں گردش کر رہے تھے، اتنے کہ زمین گول گھومتی محسوس ہونے لگی، وہ وہیں ڈھیر ہو کر بلک بلک کر رونے لگی. سعد نے ماں کی حالت دیکھ کر پہلے اسے پیار کر کے چپ کروانا چاہا،وہ خاموش نہ ہوئی تو سعد نے بھی رو رو کر گھر سر پر اٹھا لیا، لیکن عقلمندی یہ کی کہ صحن کی دیوار کے قریب جاکر پڑوسن خالہ کو زور زور سے آوازیں دے کر مدد کے لیے بلا لیا. دستک کی آواز پر نادیہ بہ مشکل اٹھ کر دروازے تک گئی. خالہ نے اس کی حالت دیکھ کر پریشانی سے پوچھا "پتر کون مر گیا " نادیہ بولی "میں مر گئی ہوں خالہ " یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، تو خالہ کمال پھرتی سے اپنے دوپٹے سے اس کے منہ کو بندکرتے ہوئے اسے کمرے تک لے کر آئیں کہ محلے والے اس کی آواز سن کر ادھر نہ آجائیں.سعد سے کہا کہ ماں کے لیے پانی لے آؤ اور نادیہ کا سر اپنی گود میں رکھا تو وہ ان سے لپٹ کر زار و قطار رونے لگی. کچھ دیر تک وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی رہیں،پوچھتی رہیں کہ میاں نے کچھ کہا ہے؟ صابرہ کا جھگڑا ہوا ہے؟ پھر اسے سیدھا بٹھایا، پانی پلایا، وہ روبوٹ کی طرح ان کا کہا مانتی رہی، اور ہمت کر کے گھٹی ہوئی آواز میں بتایا کہ "صابرہ کو پھر طلاق ہو جاۓ گی، وہ پھر میرے بچوں پر اپنا غصہ نکالا کرے گی، میں اتنی بری ماں ہوں کہ اپنا رشتہ شوہر سے اچھا بنانے کی خاطر اپنے بچوں کو اس سے پٹتا ہوا دیکھ کر بھی چپ کر جاتی ہوں،سوچا تھا سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن" …. وہ پھر تڑپ تڑپ کر رونے لگی. پھر کچھ یاد آیا تو جلدی سے بولی " خالہ آپ کا اس وقت آجانے کا شکریہ، لیکن ابھی گھر جائیں شوکت آگیا تو" ….خالہ نے نادیہ کو پھر پیار کیا، اس کی پیٹھ تھپکی کہ "پتر پورا محلہ جس لڑکی کی بد اخلاقی کو جانتا ہے، وہ یہ بھی جانتا ہے کہ آج تک تو نے کسی سے اپنے گھر والوں کی برائی نہیں کی، تو کیا تیرا خاوند نہیں جانتا ہوگا ! ہمت کر، اس سے بات کر کہ بہن کو اس کے گھر میں بسانے کے لیے اس بار اس سے ہاتھ کھینچ کر رکھے. چل میں چلتی ہوں ،تو فکر نہ کر کچھ نہیں ہوگا ،اتنے ماہ گزر چکے ہیں گڑبڑ ہونی ہوتی تو شروع میں ہو جاتی."
--------------
شوکت کی موٹر سائیکل بہن کے گھر کی جانب رواں دواں تھی، اور سوچ کا گھوڑا سرپٹ ماضی میں دوڑتا جا رہا تھا. ماضی قریب میں نہیں جہاں صابرہ نے گھر بسانے کے کتنے ہی مواقع گنوا دیے تھے، بلکہ ماضی بعید میں جہاں اس کے والد اپنی بیٹی کے لاڈ اٹھاتے، اس کا رونا نہ ان سے دیکھا جاتا نہ ہی شوکت اس کے اشکوں کا بار ڈھونے کی ہمت کر پاتا تھا، اور آج اس کے جگر گوشے کو کسی نے اتنا دکھ دے دیا ،دوبارا …ابھی تو معصوم نے اتنا دکھ کاٹا تھا ….آنسو کب آنکھوں کو دھندلانے لگے کہ پتہ ہی نہ چلا کہ سائیڈ سے گزرتی کار سے ایکسیڈنٹ ہوتے بال بال بچ گیا. کار کے زور دار ہارن اور بریک کی آواز پر شوکت واپس ہوش میں آیا،گاڑی والے کو برا بھلا کہا کہ موٹر سائیکل والوں کو کچھ سمجھتے ہی نہیں، لیکن کچھ لوگوں نے اسی کو مورد الزام ٹھہرایا کہ وہ غلط چلا رہا تھا ، اور کار والے نےتو بروقت حادثے سے بچا لیا ہے ،لہٰذا بات آئی گئی ہو گئی-
--------------
وسیم نے شوکت کی آمد پر دروازہ کھولا اور اسے سیدھا اندر لے کر آیا. صابرہ بستر پر اوندھے منہ پڑی تھی. شوکت بہن کی یہ حالت دیکھ کر تڑپ اٹھا. جلدی سے اٹھانے کی کوشش کی، ہڑبڑا کر واش روم سے ہاتھ میں پانی لے کر آیا، اور وسیم پر سخت برہم ہوا کہ میری بہن کا یہ حال کیسے ہوا؟ وسیم نے بہت ٹھنڈے لہجے میں کہا کہ "بھائی جی! میں کچھ دیر واش روم گیا تھا، واپس آیا ہوں تویہ اس حال میں پڑی تھی. تب سے اس پر پانی ڈالا، اسے ہلا جلا کر آواز دے کر تھک گیا ہوں مگر اٹھتی ہی نہیں. مجھے نہیں معلوم کہ نیند کی گولیاں اس کے پاس تھیں یا نہیں؟ پرس بھی دیکھ لیا، کچھ نہیں ملا، بہرحال یہ کیا کرنا چاہ رہی ہے، اب میں کسی بھی بحث میں جانے کے بجاۓ واپس امریکہ جارہا ہوں، یہاں پر اپنے وکیل کے ذریعے آپ لوگوں سے بات کروں گا" .شوکت نے بری طرح سے وسیم کو گھورا اور ڈپٹ کر بہن کو آواز لگائی کہ" اٹھ اور چل میرے ساتھ ". صابرہ کھڑی ہوگئی ،وسیم کو پہلے ہی اندازہ تھا کہ صابرہ نے نیند کی گولی تو نہیں کھائی تھی، البتہ شوہر کو اتنی دیر سے گولی دے رہی تھی. اس مکر کی وجہ سے وہ اس کی نظروں سے مزید گر گئی تھی، بہ مشکل وہ خود کو کمرے سے نکال کر کچن تک لے کر آیا. صابرہ نے ایک سوٹ کیس اٹھایا، کچھ کپڑے اس میں رکھے ،میچنگ کی چیزیں ساتھ ساتھ رکھنے لگی، تو شوکت نے غصے میں ڈانٹا کہ "جلدی کر، میں ایک منٹ یہاں رکنا نہیں چاہتا".
---------------
میوزیکل نائٹس میں تو دیر ہو ہی جاتی تھی. ساتھ ہی دفتر میں کام کی نوعیت ایسی ہو گئی تھی کہ ہر ماہ ہی ہفتہ دس دن وقاص کو شہر سے باہر رہنا پڑتا. واپسی میں وہ سب کے لیے خوب تحائف لے کر آتا، سب کو اپنے ہاتھوں سے دیتا، لیکن منیبه کا گفٹ کبھی ٹیبل پر رکھ دیتا، کبھی کہتا کہ" بچیوں کے لیے ہے تم چاہو تو استعمال کر لینا"، منیبه کے لیے یہ رویہ خاصا تلخ تھا لیکن صرف نظر ہی بہتر لگا کرتا. وقاص شہر سے باہر اپنے کام کی تصاویر دفتر کی فائل میں رکھنے سے پہلے منیبه کو دکھایا کرتا. منیبه کی نظر ہر بار ایک لڑکی پر ٹک جاتی کہ" اس کے گھر والے باہر جانے کی اجازت کیسے دے دیتے ہیں ؟" تو وقاص منیبه پر احسان جتاتے ہوئے کہتا کہ "سب عورتیں تمھاری طرح خوش نصیب نہیں ہوتی ہیں، ان بیچاریوں کو تو خود ہی محنت سے کمانا پڑتا ہے ، ویسے بہت پڑھی لکھی اور سلجھی ہوئی لڑکی ہے." ایک پھانس کہیں اٹکنے لگی تھی منیبہ کے دل میں.
ایسی ہی ایک رات جب وقاص میوزیکل نائٹ انجواۓ کرنے دوستوں کے ساتھ جانے کی تیاری کر رہا تھا، اس کے پسند کے موزے نہیں مل رہے تھے. اس بات پر اس نے طوفان کھڑا کر دیا ، بیچ بیچ میں فون کی گھنٹی بجے جارہی تھی، لیکن وقاص فون اٹھاتا تو کوئی بات نہ کرتا. وقاص نے منیبہ سے کہا "تم فون اٹھاؤ "تو کسی لڑکے کی آواز تھی کہ" وقاص صاحب روانه ہو گۓ". منیبہ نے کہا "نہیں گھر پر ہیں بات کریں "، فون شوہر کو پکڑایا تو بندے کی آواز پھر غائب. وقاص نے درشتی سے کہا کہ" نام تو پوچھ لیتی بے وقوف عورت، دماغ نہ جانے کہاں رہتا ہے". بہرحال دونوں نے قیاس یہی کیا کہ وہ ساتھ جانے والا کوئی دوست ہوگا، موبائل پر فون یا ٹیکسٹ کی اتنی عادت نہیں ہوگی، لیکن جیسے ہی وقاص روانہ ہوا، فون پھر آیا اور اس لڑکے نے کہا میڈم آپ میری بہنوں کی طرح ہیں، ذرا پتہ تو کریں شام میں سج بن کر آپ کے میاں دوستوں کا کہہ کر سہیلیوں سے ملنے تو نہیں جانے لگے ہیں. ابھی شروع میں روک لیں، میرا نام جان کر کیا کریں گی، جو کام آپ کر سکتی ہیں وہ کریں."
---------------
منیبہ نے بہت کوشش کی کہ خود کو یقین دلائے کہ کال جھوٹی تھی، لیکن جو اتنے دن سے شک کے ناگ کہیں پل رہے تھے، وہ سارے ہی بیک وقت پھنکارنے لگے تھے. اس نے ماں کو فون کیا اور دھاڑیں مار مار کر سب گوش گزار کیا، اور کہا کہ بھیا کو لے کر ابھی میری طرف آئیں، یہ میری تو مانیں گے ہی نہیں .
---------------
وقاص خوش خوش گھر میں داخل ہوا تو اتنی رات میں ساس اور سالے کو دیکھ کر حیران رہ گیا . پھر بڑی خوش اخلاقی سے ان سے کھانے کا پوچھا ،بچوں سے ملاقات کا پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ سو چکے تھے. پھر سالے نے ہی بات شروع کی کہ باجی کو کسی نے شک میں ڈال دیا ہے، حالانکہ مجھے یقین ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوگی، کسی حاسد نے یہ حرکت کی ہوگی. وقاص نے سالے سے کہا کہ "یار تم سمجھ سکتے ہو کہ جلنے والے کیا کچھ کرتے ہیں، اب ان محترمہ نے نہ جانے اس سے کیا باتیں کر دی ہوں گی ، انہیں تو آفس وغیرہ کی الف بے بھی معلوم نہیں ہے، اتنی محنت سے کماتا ہوں ذرا جو قدر ہو ،خوب شاہ خرچیاں کرتی ہیں، ذرا بچت کرنے کا سلیقہ نہیں ہے،شوہر کی عزت، اس سے بات کرنے کی تہذیب" ....
اچانک منیبه نے بے قابو ہو کر چیخنا شروع کر دیا . وہ روتی بات کرتی ، تو اس کی ماں کو سمجھ آجاتا، لیکن کسی دشمن کی طرح شوہر پر آنکھیں نکال کر پوری قوت سے چیخنے کا تصور ان کے وہم و گمان میں نہ تھا. بھائی نے اٹھ کر بہن کو گلے لگایا، ماں نے داماد سے کہا کہ "اس کی طبعیت خراب ہو رہی ہے، دیکھو تو سہی" لیکن وقاص بہت اطمینان سے اپنی جگہ جما بیٹھا رہا کہ" یہ تو ہمیشہ ایسے ہی کرتی ہے، آج آپ کو بھی پتہ چل گیا." ماں نے سختی سے پوچھا " ہمیشہ ایسا کیوں کرتی ہے؟ اور تم اتنے اطمینان سے کیوں بیٹھے ہو ؟ پانی لاؤ جاکر." مگر وقاص پھر بھی مسکراتا ہوا وہیں بیٹھا رہا .کچھ دیر بعد جب منیبه کی حالت سنبھلی تو وہ بات کرنے کے قابل ہو پائی. ماں اور بھائی نے ساتھ چلنے کا کہا تو صاف انکار کر دیا کہ شاید بہت دنوں سے بچوں کے ایگزامز کی وجہ سے تھکن کے باعث ایسا ہو گیا، اب ٹھیک ہوں. کچھ دیر بعد وہ چائے بنا لائی ، سب نے مل کر چاۓ پی، ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں. ماں اور بھائی کو قرار آگیا تو وہ دونوں روانه ہو گئے.
(جاری ہے)
تبصرہ لکھیے