ہوم << مساجد سے اٹھتے ہماری تہذیب کے جنازے -الطاف جمیل شاہ

مساجد سے اٹھتے ہماری تہذیب کے جنازے -الطاف جمیل شاہ

دن مہینے سال بیت گئے. یاد آتا ہے کہ کشمیر کی مساجد کے ساتھ ہی کھڑکیوں کے باہر والے حصے کی طرف اک خوبصورت بیٹھک کے لیے جگہ ہوتی تھی. سردی کے ایام میں لوگ یہاں بیٹھ کر دھوپ سینکتے تھے، بڑے بزرگ آپس میں ہنسی مذاق اور چھوٹے بچے شرارتیں کیا کرتے تھے. ان مساجد کی خاصیت یہ تھی کہ یا تو کچی اینٹوں سے بنائی جاتیں مٹی کے ساتھ یا پھر پہاڑی علاقوں میں لکڑی کے بڑے بڑے تختے جوڑ کر انھیں بنایا جاتا تھا. ان مساجد میں گرمی کے لیے کشمیری بخاری ہوتی تھی جو ٹین کی چادر سے بنتی تھی، اور پانی کا کوئی خاص انتظام نہیں ہوتا تھا. ہاں کسی جگہ دو ایک وضو خانے ہوتے تھے .

ان مساجد میں بیٹھے ملا حضرات کم پڑھے لکھے ہوتے تھے یا فارسی زبان سے ان کی آشنائی ہوتی تھی، اور عام لوگ سادہ مزاج جنھیں اس کے سوا کچھ بھی خبر نہ ہوتی تھی کہ یہ خدا کا گھر ہے، یہاں مانگی دعائیں قبول ہوتی ہیں. یہاں حاجتیں مانگیں، اللہ کے سامنے خوب سجدے کریں، قیام کریں اور ذکر کریں. شاید آپ کو یاد ہو کہ بزرگ لوگ فرن پہن کر پہلے تہجد پڑھ لیتے ،پھر فجر ،پھر جاکر گر پائجامہ ہوتا تو پہن لیتے، نہیں تو ایسے ہی نکل آتے. اکثر ایسا ہوتا تھا کہ مسجد سے نکلے، کسی ہمسایہ کے ساتھ دو چار لوگ چلے گئے چائے پینے کے لیے، یہ معمول کی بات ہوتی تھی. ان لوگوں میں کوئی ہنگامہ آرائی یا نفرت و کدورت کا اثر نہیں ہوتا تھا. یہ ایک دوسرے کی فکر کرتے تھے، پیار و محبت سے رہتے تھے، اپنی مساجد کے لیے اتنے حساس ، کہتے تھے کہ مسجد کا ایک گھاس کا ٹکڑا کر گھر لے گئے تو اللہ کا قہر نازل ہوگا. کسی کے کپڑوں سے گر یہ گھاس کا ٹکڑا چپک گیا ہوتا اور اسے گھر پہنچ کر پتہ چلتا تو بےقرار ہوکر پہلی فرصت میں یہ گھاس کا ٹکڑا مسجد میں واپس پہنچا دیتا. ان کے قلوب آپسی محبت سے آباد ہوتے تھے. کبھی کوئی مسئلہ ہو بھی جاتا، تو بھی شیر و شکر ہوکر مسئلے کا حل نکال دیتے تھے. ان مساجد میں سکون ہوتا تھا، عبادت کرنے میں الگ ہی سرور آتا تھا .

پھر زمانہ تھوڑا سا آگے بڑھا اور جن کے پاس کبھی گھاس کی چپل بھی میسر نہ ہوتی تھی، انھیں اب چمڑے کے ہزاروں کے جوتے میسر آگئے. جن لوگوں کی بستیوں میں بھیک افلاس سے زندگی اجیرن ہوتی تھی، انھوں نے محل بنائے. جو چوپائے پالنے کے سوا کچھ نہ جانتے تھے، وہ مقتداء ہوگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی پوری ہوئی. سب سے پہلا کام یہ ہوا کہ ہمارا سکون لٹ گیا. ہمارا معاشرہ اس قدر وحشیانہ ہوگیا کہ خوف و ڈر کے سائے ہر دن بڑھنے لگے. ہر طرف انسانیت کو مسلا جانے لگا. جو لوگ کبھی کہتے تھے کہ میں مرغا ذبح نہیں کرسکتا، مجھے خوف آتا ہے، اب انھی لوگوں کے معاشرے میں اس قدر وحشت ناکی ہے کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے. اسی دوران علم کا چرچا ہوا اور ہر اور نئے پڑھے لکھے فارغین کے ساتھ ساتھ مدارس سے بھاگے ہوئے نمودار ہوئے. کسی نے پارہ عم پڑھا تھا تو کسی نے چند مخارج ہی پڑھے تھے. جو فضلاء تھے وہ مدارس میں بیٹھ گئے، اور جو بھگوڑے تھے وہ لوگوں پر مسلط ہوگئے. انھوں نے ایسی فضا تیار کی کہ لوگ اپنے ان پرانے ائمہ سے خائف ہونے لگے. قرآت قرآن کریم کی مجالس آراستہ ہوئیں، توحید کی للکار بلند ہوئی، سنت کی آبیاری کے نعرے بلند ہوئے، اور پھر افکار و نظریات کے دلدادہ میدان میں کود گئے. علم کے دعویدار لٹھ لے کر بیدار ہوئے. انھوں نے کشمیر کے سادہ مسلمانوں کو اپنے افکار و نظریات کی طرف ہانکنا شروع کیا، کہیں بزور قوت تو کہیں علم کے غلط استعمال سے. سادہ مزاج لوگ بٹ گئے.

اب مساجد سے گھاس پھوس نکل گیا، قالین بچھ گئے، لکڑیوں کے تختے اور کچی اینٹیں ختم ہوئیں، ماربل اور پختہ اینٹوں کے ساتھ ساتھ رنگ و روغن سے مساجد کو آراستہ کیا گیا. پہلے جو مسجد اہل ایمان کی مشترکہ ہوتی تھی، اب یہ مسلک کی ہوگئی. جو مساجد عام مسلمانوں کے لیے ہوتی تھیں، وہ اب افکار و نظریات کے تابع ہوگئیں. پہلے جن مساجد میں اخوت و ہمدردی کا عملی درس ہوتا تھا، ان میں اب نفرتوں کدورتوں کو فروغ دیا جانے لگا. اب ہر کسی نے اپنی اپنی مسجد کو تحفظ دینے کے لیے شرک و کفر ، بد عقیدہ اور فاسق و فاجر کا کھیل شروع کیا . ہر جگہ الگ الگ مساجد کے نام پر خوبصورت دیدہ زیب عمارتیں کھڑی ہوگئیں، جن میں ایمان و عمل سے زیادہ تفرقہ بازی کو فروغ دیا گیا، نفرتیں عروج پر پہنچ گئیں اور آپسی کدورتوں کو خوب تقویت دی گئی. اب وہ سادہ مزاج ائمہ کرام نہ رہے، جن کے کپڑے پھٹے ہوتے تھے، جن کے چہرے پر غربت و افلاس کے نشان عیاں ہوتے تھے، جن کی آہوں میں درد ہوتا تھا، جن کی دعاؤں میں تاثیر ہوتی تھی، جن کی عبادات میں اخلاص ہوتا تھا. بلکہ اب جبہ و دستار کو سجایا گیا، اب لمبے لمبے لباس کو فروغ ملا، نئی اقسام کے عطر سے خود کو مہکایا گیا، اب خوبصورت دکھنے کے لیے پاکی و طہارت کے بجائےمختلف دوائیاں چہرے سے نور کی کرنیں پیدا ہونے کے لیے استعمال ہونے لگیں. سادگی و پاکیزہ طبیعت کا تو جنازہ ہی نکل گیا. وہ پرانے بزرگ واقعی میں آنسو بہاتے تھے. اب ہر مسلکی اکھاڑے سے آنسوؤں کی بھی صرف نقل ہونے لگی.

یوں ہم بربادیوں کے ایسے سفر پر چل پڑے جہاں سوائے ذلت و رسوائی کے ہمارے لیے کچھ بھی نہ باقی رہا. پہلے جو نمازوں میں سادگی ہوتی تھی، ان نمازوں میں اب بناوٹ آگئی. کوئی پاؤں دور کرکے سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا ہے، تو کوئی پیٹ پر، تو کوئی زیر ناف ہاتھ باندھے کھڑا ہے. کسی کے سر پر ٹوپی ہے تو کسی نے زلفیں ایسے لہرائی ہیں کہ اللہ بچائے نظر بد اٹھانے سے. یہ مساجد عبادات گھر سے زیادہ محل نما بیٹھکیں لگتی ہیں. جو اپنے نظریات و افکار کے ساتھ کھڑے ہونے کے دعویدار ہیں، ان میں سکوں نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے. یہ مساجد و خانقاہیں اب تماشا بن گئی ہیں، جہاں ایمان سے پہلے افکار و نظریات کی پرسش ہوتی ہے. سو ہمارے معاشرے کا جنازہ اٹھ گیا، اور ہم ہیں کہ عبادات کو پکڑ کر کہہ رہے ہیں کہ اسلام زندہ ہے.

ذرا ان محل نما عبادت کدوں سے باہر نکل کر دیکھیں تو سامنے لوگوں کے فریب و مکاری کے چرچے سنائی دیں گے. آپسی سرپھٹول کی داستانیں ہوں گی، مسلکی و فکری مناقشے ملیں گے. بے حیائی و عریانیت کا بازار روشن ملے گا. بدی و گناہوں کی مجالس میں لوگوں کی وارفتگی و دلچسپی کے مناظر ملیں گے. جبہ و دستار کے ساتھ بازار بدی میں دستیابی کی دوڑ میں شامل لوگ ملیں گے. ادب ، پاک دامنی، عفت کے جنازے ملیں گے جس میں خواتین سے زیادہ مرد دستیاب ہوں گے. بے شرمی و خرافات کی بیٹھکیں ملیں گی. دیں بیزاری اور الحاد و دہریت کے دلدادہ ملیں گے.

تم ان محل نما عمارتوں میں آپسی سرپھٹول میں مصروف ہو تو سنو باہر تمھاری نسل کے ہاتھوں تمھارے عقائد و نظریات کے جنازے اٹھائے جارہے ہیں. یہ بے شرمی و بے غیرتی کے مجسم لوگ کس قدر ڈھیٹ ہیں کہ یہ اسلام کے محافظ ہیں، مگر انھیں اسلام صرف ان عبادت خانوں میں ہی یاد کیوں رہا؟ ہائے مسلمانو! تم کتنے بے حمیت ہوگئے؟ ان علوم کے ساتھ جن کا تمھیں زعم ہے کہ یہی حق و باطل کی تفریق بتاتے ہیں، تو بتا سکتے ہو کہ ہمارا معاشرہ اس قدر تعفن زدہ کیوں ہوگیا؟ معاشرے سے پاکی و طہارت کا جنازہ کیوں اٹھ گیا؟ وہ آپسی محبت والفت کا قبرستان کس نے بنا دیا؟ کس نے نفرت و عناد کی دیواریں بلند کردیں؟

میں حیران ہوں اس بات پر کہ ہم کہتے کس منہ سے ہیں کہ ہم اہل ایمان ہیں. کیا ایک بھی صفت ایسی معاشرے میں موجود ہے جسے ہم کہیں کہ یہ ایمان و یقین کی بات ہے . نہیں یقیناً نہیں ہے، تو سنو یہ مساجد سے اٹھے ہوئے ہماری بربادیوں کے وہی جنازے ہیں جن کے ہم طلب گار تھے. ایثار و ایمان کے آثار تو کب ہمارے معاشرے سے اٹھ گئے ہیں. وہ آثار قدیمہ کی نذر ہوگئے، اور ہم ہیں کہ اپنا ایمان ثابت کرنے کے لیے ایک دوسرے کا سر پھوڑنے پر تلے ہیں. ہر جانب سے یہی مصیبت اب مسلط ہے. ایک بار مختلف تفاسیر کا بغور مطالعہ کریں تو سابقہ امتوں کی تباہی و بربادی کا سبب یہی رہا کہ ان کے سماج و معاشرے میں پہلے بگاڑ آیا، پھر ان کے عقائد برباد ہوئے، اور اللہ تعالٰی نے پھر انھیں نیست و نابود کردیا. کسی معاشرے میں زنا عام ہوا ، تو کسی میں اخلاقی پستی و لواطت ، کسی میں بت پرستی تو کسی میں ظلم و تعدی، کسی میں ناپ تول تو کسی میں اپنی بڑائی کا زعم، ان معاشروں کا زوال یہیں سے شروع ہوا. یہ ہمارے لیے قرآنی سبق ہے کہ معاشرے اور سماج میں جب تباہی پیدا ہوجائے، گناہوں کا بوجھ زیادہ ہوجائے تو ایسے معاشرے میں جو نیک و پارسا ہوتے ہیں، انھیں پہلے عذاب دبوچ لیتا ہے. پھر اصل گناہگاروں پر عذاب کا کوڑا برستا ہے.

ایک بار للہ سمجھ لیں کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں، جو سماج ہمارا ہے کیا یہ کسی بھی نسبت سے نبوی معاشرے سے روشنی پا رہا ہے. کیا ہماری سماجی روایات کا کوئی جوڑ ہے کہیں قرآنی علوم یا احادیث میں؟ گر نہیں ہے ، جو کہ ایک فیصد بھی نہیں ہے، تو ہم کس اسلام کے لیے آپس میں لڑ رہے ہیں؟ کیا اس اسلام کے لیے جو ہمارا اپنا ایجاد کردہ ہے؟ جس میں ظاہری وضع قطع خوب سے خوب تر ہو مگر باطن سے گھن آتی ہو۔ جس میں مساجد میں روشنیوں کے قمقمے لگا کر اور اپنی مرضی کا بورڈ آویزاں کرکے، نورانی کیفیت ایجاد کرکے اس ایمان کو نعمت ایمانی مانا جاتا ہو . جس معاشرے میں ایمان و عمل کے دعویدار لوگوں کی زندگی کو اجیرن بناتے ہوں. جہاں نسل نو کو اسلامی تعلیمات، فرائض و واجبات اور سنن سے کوئی دلچسپی نہ ہو ، مگر ان کے والد گرامی قدر مساجد میں کفر و نفاق کے نسخے تقسیم کر رہے ہوں.

آیئے اہل وطن! ایک بار غور سے سوچیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کس طرح ہماری تہذیب کو برباد کیا جارہا ہے؟ کیسے ہمارا معاشرہ بے حیائی و عریانیت کا بازار بنتا جارہا ہے؟ کیسے اخلاقی پستیاں یہاں عام ہورہی ہیں؟ کیسے ہمارا دینی رخ بگڑتا جارہا ہے؟ کیسے ہماری مساجد میں المناک حادثات ہورہے ہیں؟ کیسے وہ مؤمنین کی آپسی محبت نفرت، عناد اور حسد میں بدل رہی ہے؟ کہنے کو تو ہم مسلمان ہی ہیں مگر کیا نعمت ایمانی کے لوازمات سے ہم تھوڑے بہت بھی آشنا ہیں؟ اب بس کریں اور ان بگاڑ زدہ ذہنیت والوں سے بچیں. کل روز محشر میں آقا مدنی علیہ السلام جب پوچھیں گے کہ جس دین مبین کی آبیاری کے لیے میں نے زندگی صرف کی، زخموں سے بدن چور ہوا، بتاؤ تم نے اس کے لیے کیا کیا؟ میں واعظ نہیں ہوں، بس اک فکر سنا رہا ہوں. بتاؤ کیا کوئی جواب ہے جو تم سرخروئی کا یقین لے کر میدان حشر میں کھڑے ہوسکو گے؟ بس سوچ لو! اب بھی اگر کسی ایک کا بھی احساس جاگتا ہے تو یقیناً میری بات پہنچ گئی ہے.