ہوم << فلسفہ یونان کے رد کے ابتدائی نقوش - محمد محسن یوسف زئی

فلسفہ یونان کے رد کے ابتدائی نقوش - محمد محسن یوسف زئی

یہ فن یونان میں پروان چڑھا، وہیں اس کی نشونما ہوئی، یہیں اس کی ارتقا وعروج کا دور شروع ہو کر عالمِ عرب پہنچا۔ اسی لیے اسے "علم یونان" بھی کہا جاتا ہے۔ عالمِ عرب میں اس کے تراجم وتعارف کا کام عباسی دور خلافت میں ہوا؛ تاہم ان فنون کو اصل عروج وفروغ مامون الرشید کے زمانہ میں حاصل ہوا، انھی کی شاہانہ سر پرستی میں اس کے تراجم پر وسیع پیمانے میں کام ہوا۔ مامون خود بھی ان علوم کا قدر دان، اور دلدادہ تھا۔ خلیفہ کی اس ذاتی دلچسپی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس فن کا ہر زیرک، صاحبِ فہم وادارک پر اثر ہوا، اور وہ اس کے سحر انگیزی، طلمساتی الجھاؤ میں گرفتار ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ اس تسابق وتنافس کا ایک داعیہ یہ بھی رہا کہ اس فن میں کمال پیدا کرنے والوں کو خلیفہ وقت انعام واکرام اور اعزاز وہمدردی سے نوازتے۔

یہی وہ زمانہ ہے جس میں یونانی علوم کا رعب، دبدبہ اور دھاک اہلِ علم کے دلوں پر بیٹھا۔ چناں چہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس زمانے کی ہر چھوٹی بڑی، فنی اور علمی رسائل وکتب میں اس کا خاصا اثر ہے، آپ منطقی اصطلاحات ومفاہیم سمجھے بغیر اس زمانے کے ٹھیٹھ اہل علم سے کماحقہ مستفید نہیں ہوسکتے۔ یونانی زبان سے عربی زبان کی طرف ان علوم کے انتقال مامون کے بعد تک چلتا رہا، یہاں تک کہ چوتھی صدی ہجری تک یونانی علوم کا ایک بڑا علمی ذخیرہ عربی زبان میں منتقل ہوچکا تھا۔

اہل علم کی یونانی علوم پر گرفت:
ارسطو چوںکہ متقدمین فلاسفہ میں متاخر، اور ان کا کام، تصانیف دیگر فلاسفہ کے مقابلے میں زیادہ مرتب تھا؛اس لیے ان ہی کے کام کو زیادہ رواج ملا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ارسطو کےعلوم وافکار فلسفہ یونان کے ترجمان ونمائندہ بن کے رہ گئے۔ فلاسفہ کے بعض نظریات اسلام کی بنیادی عقائد سے متصادم تھے، اور ارسطو ان نظریات کا پرجوش حامی وداعی تھا۔

ان دخیل نظریات پر گرفت کے لیے وقت کے اہل علم نے قلم اٹھایا، اور ان مباحث ونظریات کا بھرپور تعاقب کیا، اور ان کی فکری وتعبیری غلطیوں پر برملا نقد کیا۔اس سلسلے میں معتزلہ کے سرکردہ داعی وراہ نما، مشہور ادیب جاحظ کے استاذ، ابو اسحاق ابراہیم بن سیار جو نظّام کے نام سے معروف ہیں،اور ابو علی جبائی محمد بن عبد الوہاب بصری خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
تیسری صدی میں شیعہ عالم (اور بعض نے معتزلی کہا ہے) ابو محمد حسن بن موسی نوبختی نے "کتاب الآراء والدیانات" لکھ ارسطو کے بعض نظریات کی تردیدکی۔
چوتھی صدی ہجری میں اہل السنة والجماعة کے مشہور امام، متکلم، وقاضی ابوبکر محمد بن طیب بن محمد بن جعفر بن قاسم بصری (جو ابن الباقلانی کے نام سے معروف ہیں) نے"دقائق الکلام" نامی کتاب لکھی، جس میں فلسفے، اور یونانی نظریات کا، اور ان کے تفوق کا رد کیا۔
پانچویں صدی ہجری میں امام عبد الکریم شہرستانی نے یونانی افکار و نظریات کا رد انہی کی اصولوں کے مطابق کیا۔اسی پانچویں صدی میں حجة الاسلام امام غزالی نے فلسفہ اور یونانی علوم کے رد میں"تهافة الفلاسفة" نامی شاندار کتاب لکھی،جس میں امام صاحب نے یہ انکشاف کیا کہ فلاسفہ ومناطقہ کی بنیاد بیس اصول پر قائم ہے، اور ایک ایک کرکے اس پر ایسا علمی رد کیا جس کی علمی پختگی، ٹھوس مباحث، متین اسلوب کی وجہ سے تقریبا سو برس تک فلاسفہ کے ایوانوں زلزلہ بپا رہا اور کسی فلسفی،منطقی میں اس کا جواب لکھنے کی سکت نہیں رہی۔
چھٹی صدی ہجری میں مشہور فلسفی ہبۃ اللہ بن علی ابو البرکات بغدادی (جنہوں آخری عمر میں یہودیت سے توبہ کرکے اسلام قبول کیا تھا) نے"المعتبر"لکھی۔جس میں یونانی نظریات کی تردید کی۔پھر امام رازی نے فلسفہ کو مسکت اعتراضات کانشانہ بنایا۔
آخر میں شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ صاحب جیسی قدر آور شخصیت نے علمِ منطق کے رد میں "کتاب الرد علی المنطقیین"اور "نقض المنطق" کتابیں لکھیں۔اسی طرح حافظ جلال الدین سیوطی نےبھی"صون المنطق والکلام عن فن المنطق والکلام"اور"القول المشرق في تحریم الاشتغال بالمنطق" لکھیں.

Comments

Click here to post a comment